امریکہ کا قلب ِ سیاہ

جب حال ہی میں گارڈین نے شکاگو پولیس کی طرف سے خفیہ طور پر چلائے جانے والے حراستی اور تفتیشی مرکز کا انکشاف کیا تو بہت سوں کو حیرت نہ ہوئی۔ ہومین سکوائر (Homan Square) میں واقع حراستی مرکز میں قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر مشتبہ افراد کو رکھا جاتا تھااور اُنہیں وکلا تک رسائی نہیں دی جاتی تھی۔ 
کئی برسوںسے ہم سی آئی اے اور امریکی فوج کی طرف سے قندھار ،ابوغریب اور گوانتاناموبے میںقائم کردہ عقوبت خانوںسے آنے والی روح فرسا کہانیاں سن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جنگ میں امریکی اتحادیوں، جیسا کہ پاکستان، مصر ، مراکش اور پولینڈ میں بھی تشددکوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ دراصل امریکی قانون کی طرف سے تشدد کی ممانعت کرنے پر حکام نے امریکی سرزمین سے دور ، دیگر ممالک میں عقوبت خانے قائم کیے۔ اُن ممالک میں ہونے والے تشدد پر وہاںکے مقامی قانون کو کوئی تغرض نہیں تھا۔ تاہم شکاگو میں کسی ایسے حراستی مرکز کی موجودگی سے گمان ہوتا ہے کہ ایسے کئی ایک مزید مراکز بھی فعال ہوں گے۔ یہ دریافت ہونے والا مرکز کسی دیوہیکل برف کے تودے کا صرف بیرونی کنارہ ہوگا۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ فرگوسن میں پولیس کے پاس ویسے ہی بھاری ہتھیار تھے جیسے میدان ِ جنگ میں لڑنے والی امریکی افواج کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ ہتھیار ایسے قانون کے تحت رکھے گئے جو پولیس کو فوجی ہتھیار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ شکاگو پولیس ڈیپارٹمنٹ نے 1,700 ملٹری کٹس حاصل کیں۔ ان میں فوج کے زیر ِ استعمال بکتربند گاڑی Humvee بھی شامل ہے۔ 
جب پولیس افسران کے پاس آٹو میٹک ملٹری ہتھیار دکھائی دیں، وہ کمانڈوز کی طرح سیاہ یونیفارم، ہیلمٹ، بلٹ پروف جیکٹس اور دیگر فوجی ہارڈ ویئر کے ساتھ میدان میں نکلیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ دستے شہریوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا فوجی محاذپر کرتے ہیں۔ یقینا اس فورس کو ہلاکت خیز مشین بنایا گیا تو اس سے قانونی طریقوںسے تفتیش اور پوچھ گچھ کی توقع کرنا عبث ہو گا۔فرگوسن میں ایک سیاہ فام نوجوان ، مائیکل برائون کو ایک سفید فام پولیس افسر، ڈیرن ولسن، نے دن دیہاڑے ہلاک کردیا ۔ ملنے والی کچھ مبہم شہادتوںکے باوجود، ایسا ہرگز نہیں ثابت ہوا تھا کہ وہ نوجوان کسی طور پر بھی پولیس افسر کی جان کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔ تاہم سفید فام افراد پر مشتمل ایک جیوری نے ملزم(پولیس افسر) کو مجرم قرار دینے سے گریز کیا۔ اس پر سیاہ فام افراد نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج کا دائرہ کئی ہفتوں تک پھیل گیا اور پولیس اور سیاہ فام افراد کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ تاہم یہ احتجاج بے نتیجہ رہااور پھر یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ 2012ء میں پولیس کے ہاتھوں چارسو دس امریکیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اعدادوشمار کے مطابق پولیس کی گولی کا نشانہ بننے والے نوجوانوں میں سفید اور سیاہ فام امریکیوں کا تناسب 1:21کا ہے۔ گویا پولیس کی گولی سیاہ فام باشندوں کو اکیس گنا زیادہ نشانہ بناتی ہے۔ 
پولیس کے ہاتھوںہونے والی ہلاکتیں اُس وقت غیر اہم ہوجاتی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال 35ہزار امریکی شہری گن فائرسے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ہر ہفتے کہیں نہ کہیں مبینہ طور پر ذہنی پریشانی کا شکارکوئی شخص اپنی آٹو میٹک گن سے درجنوں افراد کو گولیوں سے بھون ڈالتا ہے۔ کچھ کیسز میں کم عمر بچے پستول کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں کہ نادانستگی میں ان کے والدین گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کوئی نوجوان طالب علم محبت میں ناکامی (یاکامیابی؟) پر اپنے کلاس فیلوز پر گولیوں کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔ ان ہولناک اعدادوشمار کے باوجود کوئی سیاست دان طاقتور نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کرتاکہ امریکیوں کے لیے مہلک ہتھیاروں کا حصول قدرے مشکل بنا دیا جائے۔ امریکہ میں شکار کے لیے استعمال ہونے والی شاٹ گنز سے لے کر آٹو میٹک ہتھیار آسانی سے دستیاب ہیں۔ امریکی اپنے روز مرہ کی زندگی میں ان واقعات کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ بندوق بردار شہریوں کو گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر حیرت زدہ نہیں ہوتے۔ گن کلبز بچوں کو ہتھیاروں، حتی کہ سب مشین گنز تک کا استعمال سکھاتے ہیں۔ گزشتہ سال ایک سات سالہ بچی نے اپنی انسٹرکٹر کو غلطی سے ہلاک کردیا جب وہ اوزی مشین پسٹل کا استعمال سیکھ رہی تھی۔ 
امریکی شہریوں اور گنز میں گہرا تعلق ہے۔ ہتھیار فراہم کرنے والی طاقت ور لابیز کا کہنا ہے کہ آئین کی دوسری ترمیم ہر شہر ی کو اپنے پاس ہتھیار رکھنے کا حق دیتی ہے۔ بنیادی طور پر اس ترمیم کے ذریعے مسلح گروہوں کوماضی میں حکومت کو کنٹرول کرنے کے قابل بنایا گیا تھا لیکن آج کے دور میں یقینا اس کی ضرورت نہیں۔ تاہم نیشنل رائفل ایسوسی ایشن اپنے مفاد کے لیے اس ترمیم کو متروک ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ دوسری ترمیم کے علاوہ امریکی نفسیات میں یہ بھی شامل ہے کہ مغرب کے طاقتور گروہ ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں(ایسا امریکہ کی دریافت کے بعد ہوا تھا)۔ اگرچہ مغربی ممالک کے شہریوں کی امریکہ میں آمد کا خمیازہ امریکہ کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) کو بھگتنا پڑا تھا، لیکن لاشعوری طور پر آج کے سفید فام امریکی بھی اس خوف کو محسوس کرتے ہیں۔ امریکی تاریخ کا ایک تاریک باب یہ بھی ہے کہ لاکھوں سیاہ فام افراد کو بحری جہازوں میں بھر بھر کر دیگر مقامات پر غلام بناکر رکھا گیا اور اُن سے کھیتی باڑی کام لیا گیا۔ اُس معاشرے میں نسلی امتیاز کا خاتمہ اور آزادی کے مراحل بہت سست روی سے آگے بڑھے۔ آزادی کے اس عمل میں سیاہ فام شہریوں کو بہت اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف دس سال پہلے، مسٹر اوباما کے امریکہ صدر منتخب ہونے کو تاریخ کا ایک اہم واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بالآخر امریکی اپنے تکلیف دہ ماضی کو بھلاکر آگے بڑھنے میںکامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم فرگوسن میں پیش آنے والے واقعات نے پھر سے زخموں کو تازہ کردیا۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ کے دیگر حصوں میں سیاہ فام افراد کو زیادہ سزائوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان واقعات کے علاوہ امریکی فوج بھی امن سے نفرت کرتی ہے۔ امریکی تاریخ میں ہی شاید ہی کوئی ایسا سال گزرا ہو جب اس کی طاقتور فوج آرام سے بیٹھی ہو۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں لڑی جانے والی ان گنت جنگوں کی وجہ سے امریکی فوج دنیا کو اپنی طاقت سے خائف رکھے ہوئے ہے۔ اس کے بعد میڈیا بھی اس تاثر کو من پسند انداز میں پیش کرتا ہے۔ کتابوں، کارٹونوں، فلموں اور ڈراموں میں امریکی فوج کو انصاف پسند ، بلکہ دکھی انسانیت کا معاون بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ اس کے دشمن انسانیت کے دشمن قرار پاتے ہیں۔ 
1902ء میں ایک چینی دانشورLiang Qichao امریکہ آیا۔ وہ امریکی جمہوریت سے بہت متاثر تھا اور وہ اس نظام کو اپنے ملک میں متعارف کرانا چاہتا تھا ، لیکن جب اُس نے یہاں سیاہ فام شہریوں سے روا رکھا جانے والا سلوک دیکھا تو وہ لرز اٹھا۔ اُس نے لکھا۔۔۔ ''امریکی قانون کہتا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ توکیا سیاہ فام انسانوں کے زمرے میں نہیں آتے؟افسوس!اب مجھے سمجھ آئی ہے کہ 'تہذیب‘ کسے کہتے ہیں۔ یہاں جس طرح سیاہ فاموں کو جسمانی طور پر مارا جاتا ہے ، اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو کبھی یقین نہ کرتا کہ بیسویں صدی میں کسی ملک میں شہریوں کے ساتھ محض جلد کی رنگت کی بنا پر ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ‘‘
بہرحال یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ یقینا تمام امریکی ایسے نہیں ہیں۔ اس ملک میں سفر کرتے وقت قانون کی حکمرانی اور شہری آزادی کا احساس ہوتا ہے ۔ یقینا یہاں کی جمہوریت ہی ہے جس نے بارک اوباما کو وائٹ ہائوس میں پہنچا دیا۔ایک بات طے ہے کہ اس ملک کی سیاحت کو آنے والا یہاں کے تضادات کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں