کئی سال پہلے نئی دہلی کے ٹور کے دوران مجھے کہا گیا کہ میں ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹوریل سٹاف سے گفتگو کروں۔ میرے بھارتی صحافی دوستوں نے چائے کی دعوت کے دوران مجھے بتایا کہ ان کے اخبار کے مالک کی طرف سے خصوصی طور پر ایک احمقانہ سی مداخلت روا رکھی جارہی ہے۔ پتہ چلا کہ اخبار کے مالک کی طرف سے اپنے سٹاف سے پوچھا گیا ہے کہ ایڈیٹوریل صفحے پر کالموں کی جگہ اشتہارات کیوں نہیں لگائے جاسکتے؟کہنے کا مطلب تھا کہ کالموں کی جگہ اشتہارات شائع کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟میں نے اخبار کے مالک کی مداخلت کو ایک مذاق سمجھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹوریل کا صفحہ کسی بھی اخبار کا اہم ، بلکہ مقدس ترین حصہ ہوتا ہے، اسے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔
وہاں تو وہ بات آئی گئی ہوگئی لیکن بعد میں ، میں اکثر اوقات سوچتا رہا کہ اس میں برائی ہی کیا ہے ،اگرچہ ہمارے بھارتی دوست کی تجویز پر عمل درآمد مجھے ( اور مجھ جیسے بہت سے کالم نویسوں کو) ''کام ‘‘ سے نکلوا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر op-ed صفحے کو اخبار کے اداریے کی مخالفت میں لکھے جانے والے کالموں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تاہم 1920ء کی دہائی میں ایک امریکی ایڈیٹر نے مہمان کالم نویسوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی آراء کا برملا اظہار کریں۔ یہ تصور پوری دنیا میں برق رفتاری سے مقبول ہوا اور اب op-ed سے مراد ''opinions/editorials‘‘ لی جاتی ہے۔ شروع میں op-ed میں لکھنے والے ایڈیٹوریل ٹیم کے ممبرنہیں ہوتے تھے۔وہ مختلف کالم نگار ہوتے تھے جو حکومت پر تنقید کرتے، اس کی پالیسیوںپر تبصرہ کرتے، سماجی رجحانات پر قلم اٹھاتے اور آزادانہ طور پر اخباری کی پالیسی کوزیر ِ بحث لاتے۔ اس کا مقصد قارئین کو ایسی آراء سے روشناس کرانا تھا جن کی عکاسی کرنے سے اخبار کا اداریہ قاصر رہتا۔
زیادہ تر اخبارات اپنی خبروں اور اداریوں کے اعتبار سے مخصوص رجحانات رکھتے ہیں۔چاہے اس رجحان کا واضح اظہار نہ بھی کیا جائے لیکن قارئین کی ایک بڑی تعداد جانتی ہے کہ اس اخبار کا رجحان کیا ہے ، چنانچہ وہ اس میں شائع ہونے والی خبریں اورمضامین پڑھتے ہوئے اپنی سوچ کو مخصوص زاویے سے باہر نہیں جانے دیتے۔ مثال کے طور پر قارئین جانتے ہیں کہ یہ اخبار جمہوریت پسند اور لبرل سوچ کا حامل ہے اور حکومت پر قدرے تنقید (گو بے جا نہیں) کی پالیسی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس میں لکھتے ہوئے طمانیت محسوس کرتا ہوں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اور ایڈیٹرز ہمیشہ کسی بات پر متفق ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ تخلیقی اور فکری تفاوت اور نیرنگی ہی کالموں کو دلچسپ بناتی ہے۔ میرا ہمیشہ سے خیال رہا ہے کہ ایڈیٹوریل
صفحات پر قدرے تیکھے مضامین اخبار کے وقار کو بڑھاتے ہیں۔ دوسری طرف ایڈیٹرز کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے مبادا اُنہیں بات بات پر توہین ِ عدالت کی پاداش میں کورٹ رومز کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے عدالت کے دائرہِ کار کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، تاہم (اور میں یہاں اپنا واقعہ سنانے کی اجازت چاہوں گا) ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے لکھے ہوئے ایک کالم کی وجہ سے ڈان کے سابق ایڈیٹر ، احمد علی خان صاحب ،کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ آفریں ہے خان صاحب پر کہ اُنھوں نے ڈان کی طر ف سے پیش ہونے والے وکیل کو منع کردیا کہ وہ ''Mazdak‘‘(اُس وقت میرا قلمی نام) کی شناخت ظاہر نہ کرے۔ اور پھر میری طرف سے اردشیر کائوس جی مرحوم ایک سینئر وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوگئے۔۔۔۔۔ مجھے اخبار نے مطلق زحمت نہ دی ۔میں اُس وقت گلگت میں تفریحی دورے پر تھا۔ خان صاحب کی عظمت اپنی جگہ پر لیکن کوئی ایڈیٹر بھی عدالت کا سامنا کرنا پسندنہیں کرتا ، چنانچہ وصول ہونے والے کالموں کے وہ حصے حذف کردیے جاتے ہیں جو کسی طور توہین ِ عدالت کے زمرے میں آئیں۔ نہ ہی کوئی ایڈیٹر یہ چاہتا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف اس طرح کھل کر لکھے یا لکھنے دے کہ طالبان اخبار کے دفتر پر حملہ کردیں۔ اسی طرح تمام صحافی دوست جانتے ہیں کہ بعض سیاسی تنظیموں کے خلاف لکھنے کا کیا مطلب ہے۔
یہ تمام پابندیاں تحریر کی آزادی کو سلب کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ بعض اوقات کالم نگار محسوس کرتا ہے کہ حذف کیے گئے حصے کی وجہ سے تمام کالم برباد ہوگیا ۔ تاہم دنیابھر کے اخبارات کے ایڈیٹرز کے ہاتھ میں سرخ پنسل ہوتی ہے اور دنیا بھر کے کالم نویسوں کی پیشانی شکن آلودرہتی ہے، یہ معاملہ ہر جگہ ایسا ہی ہے اور شاید اس کی ضرورت بھی ہے۔ تاہم آج کل ایک اور رجحان، جسے کسی قدر منفی قرار دیا جاسکتا ہے، فروغ پارہا ہے۔ اداریے کے علاوہ سٹاف میں شامل کالم نگار بھی اخبار کی پالیسی کے مطابق ہی لکھتے ہیں۔ اس سے قارئین مختلف آراء سے محروم رہ جاتے ہیں، حالانکہ، جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا، op-ed صفحے کا بنیادی مقصد اداریے کی مخالف آراء کو جگہ دینا تھا۔ تاہم محفوظ پچ پر کھیلتے ہوئے اب تنوع اور ورائٹی کی جگہ ''اتفاق ‘‘ نے لے لی ہے۔ بعض صورتوں میں ( اور خوش قسمتی سے یہ اخبار اس رجحان سے محفوظ ہے) اخبار کے مالک کا سیاسی اور کاروباری مفاد ایڈیٹوریل صفحے کی آزادی کو سلب کرلیتا ہے۔ چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی ادارہ کسی اخبار میں اس لیے بہت زیادہ اشتہارات دیتا ہے کہ اُس اخبار میں اس کے حوالے سے کوئی تحقیقاتی رپورٹ شائع نہیں ہوگی۔
اخباری دنیا میں محفوظ کھیل کھیلنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ ایک فری لانس کالم نگار ہونے کے ناتے میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میں ممکن حد تک حدود کے اندررہوں۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ مجید صاحب (جو ڈان کے ایڈیٹوریل صفحے کے انچارج تھے) نے مجھے بتایا ''عرفان صاحب، میں آپ کو وہی آزادی دے سکتا ہوں جو میرے پاس ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں۔‘‘چنانچہ حقیقت کا ادراک کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ میں نے کئی سالوں تک بہت سے اخبارات اور جرائد کے لیے لکھا ہے۔ان میں آئوٹ لُک کے آئی ایچ برنی بھی شامل ہیں۔ تجربے نے مجھے یہ سکھایاہے ، جو ہر کالم نگار کو سیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔''محفوظ اور درست کے درمیان تفاوت میں جتنی لچک موجود ہے، اس سے استفادہ کریں ، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔ دلیر ایڈیٹر صرف وہی ہوتے ہیں جو اس تفاوت کا باوقار انداز میں استفادہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔