لوزان میں عالمی طاقتوں اور ایران کی جیت

جس دوران ایرانی باشندے لوزان(Lausanne)میں ہونے والے معاہدے پر گلیوں میں خوشی سے رقص کناں تھے، اسرائیل اور ایک عرب ملک میں غمزدہ اور فکرمند چہرے دکھائی دے رہے تھے۔ ایران اور سکیورٹی کونسل کی پانچ مستقل ریاستوں اور جرمنی کے درمیان کئی مہینوں پر محیط پیچیدہ اور متعد دبار اتار چڑھائو کا شکارہونے والے یہ مذاکرات آخر کار نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور عالمی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام اور عزائم کو ایک سخت حد میں رکھنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مشرق ِوسطیٰ سے اچھی خبریں کم کم ہی آتی ہیں، تاہم یہ ایک فیصلہ کن اور نایاب لمحہ ہے۔ اگرچہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والی عرب ریاستیں اسے بدترین نتیجہ قرار دیں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک ذمہ دار ممبر کے طور پر عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرنے والا ایران خطے میں بہتر کردار ادا کرسکتا ہے۔یہ کئی سالوںکی عالمی تنہائی اور پابندیاں، جنھوں نے اس کی معیشت کا کباڑا کردیا تھا، ختم ہونے کے بعد اپنی معیشت کو توانا کرنے کے قابل ہوگاتو اس کے شہری علاقائی اور عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے۔
تاہم اسرائیل اور بہت سی عرب ریاستیں اس صورت ِحال کو اس انداز سے نہیں دیکھتیں۔ ان کے لیے ایران ایک براہِ راست خطرہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عراق پر امریکی حملے نے تہران کو عراق میں غالب کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس کی ''بے قاعدہ افواج‘‘ داعش کے خلاف لڑتے ہوئے اسے سعودی عرب کے نزدیک دھکیل رہی ہیں۔ بعض خلیجی ریاستوں کے لیے ایک طاقتور ایران ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ تاہم اگر خطے کے حالات و واقعات کا معروضی انداز میں جائزہ لیں تو دکھائی یہ دیتا ہے کہ یہاں مسلکی گروہوں سے زیادہ داعش اور القاعدہ اور ان سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے دیگر انتہا پسندگروہوں سے خطرہ لاحق ہے۔ اب ایران بھی اپنا اسلامی انقلاب دیگر ممالک تک پھیلانے کا اُس طرح خواہاں نہیں جتنا کبھی آیت اﷲ خمینی کے دور میں تھا۔ ا ب یہ انقلاب سے زیادہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روز گار فراہم کرنے اور اپنی معیشت کو بہتر بنانے، نہ کہ دنیا بھر سے فوجی تنائو رکھنے ، میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس وقت ایران کسی نہ کسی طور پر عراق، شام اور لبنان میں الجھاہوا ہے۔ اگرچہ یمن میں حوثی قبائل کی کامیابیوں پر اسے خوشی ہوگی لیکن اس نے اشارہ کیا ہے کہ وہ اس جنگجو قبیلے کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سعووی عرب کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس وقت جنگ پر آمادہ ملک ایران کی تعاون کی پالیسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔
تاحال ایٹمی معاہدے کا فریم ورک مکمل نہیں ہوا اور بہت سی تفاصیل طے کی جانی باقی ہیںاورتل ابیب ، واشنگٹن اور ریاض میں جارحانہ سوچ رکھنے والے امریکی کانگرس کوقائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ایران کو دبانے کے لیے جارحانہ اقدامات کیے جائیں۔ تاہم زیادہ تر امریکی اس مسئلے کاسفارتی حل چاہتے ہیں۔ وہ جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے ایران پر بمباری کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ اپنے ملک کی طرف سے دنیا کے دور دراز کے خطوں میں عشروں پر محیط فوجی کارروائی سے تنگ آچکے ہیں۔ لیوسن (Lausanne) میں ہونے والے کامیاب معاہدے کے بعد صدر اوباما نے کہا کہ ایران کے مسئلے پر سفارت کاری کے علاوہ مذکرات معطل کرتے ہوئے ایران کو تنہائی کا شکار کرنے کا بھی آپشن موجود تھا لیکن اس کے نتیجے میںایران یقینی طور پر جوہری ہتھیار بنا لیتا۔ اگر امریکہ اس کی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرتا تو وہ ایک اور نہ ختم ہونے والی کشمکش میں الجھ جاتا۔ اب تک ہونے والے تجربات یہ باور کرانے کے لیے کافی تھے کہ ایسی کشمکش میں فاتح بن کر ابھرنا مشکل ہوتا ہے؛ تاہم یمن پر بمباری پر آمادہ ممالک کو یہ سبق سیکھنا ابھی باقی ہے۔
بہت سے ناقدین صدراوباما کے عزم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ امریکی صدر اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اُنھوں نے شام پر اُس وقت بھی بمباری نہیں کی جب اُس نے امریکی پیمانے کے مطابق سرخ لکیر عبور کرلی اور اپوزیشن کو کچلنے کے لیے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ نیتن یاھو اور دائیں بازو کے امریکی رہنمائوں کی طرف سے پڑنے والے دبائو کے باجوود صدر اوباما نے جنگ کی دلدل میں قدم رکھنے کی حماقت نہ کی۔
ایران کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے، جس میں سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کی ان تھک محنت شامل تھی، کو اوباما صدارت کی ایک اہم کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے حریف، دائیں بازو کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور ریپبلکن پارٹی کے رہنما اُنہیں ایک کمزور اور فوری فیصلے نہ کرنے والاصدر قرار دیتے رہے ہیں لیکن موجودہ کامیابی یقینا ان کے دور کے ایک نمایاں کارنامے کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور پر ابھرا۔ اس نے خود کو عالمی قوانین اور کسی قسم کے مذاکرات کی ضرورت سے بالا تر سمجھ لیا۔ جان بش کے پاس یواین کے لیے بھی کوئی وقت نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے افہام و تفہیم کرنے کے لیے تیار تھے۔چونکہ امریکی صدور طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں، اس لیے صدر اوباما کی طر ف سے عقل، سفارتی ذرائع اور مذاکرات کے ذریعے کسی تصفیے کے نتیجے پر پہنچنا ''غیر امریکی رویہ‘‘ لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما کے سخت رویہ نہ اپنانے کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کے لیے اس میں ناکامی یا ہزیمت کا کوئی پہلو نہیں۔ تہران میں سخت گیر عناصر کو شکست ہوچکی جبکہ صدر روحانی ایک معتدل رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ تہران اور امریکہ کے درمیان کئی ایک معاملات پر اختلافات موجود رہیں گے لیکن ان کے درمیان اہم ترین تنازعہ حل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ایٹمی تنصیبات کے معائنے کو توہین آمیز سمجھا جاسکتا ہے لیکن پابندیاں اٹھنے سے ملنے والے فوائد کے مقابلے میں یہ نقصان کچھ بھی نہیں۔ اس معاہدے کے مطابق ایران ایٹمی ریسرچ ورک کرسکے گا۔ اس طرح صدر روحانی اپنے عوام کو ایک طرح کی تسلی دے سکتے ہیں۔ اگرچہ ایران کے سپریم لیڈر، آیت اﷲ خمینی نے ایٹمی ہتھیاوں کو''شیطانی ہتھیار‘‘ قرار دیتے ہوئے دنیا کو یقین دلایا تھا کہ تہران انہیں کبھی نہیں بنائے گا، تاہم مجھے شک ہے کہ تہران کے جوہری عزائم اتنے 'معصوم‘‘ نہیں تھے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ایران جیسے ایک ملک کو اربوں ڈالر خرچ کرکے بجلی پیدا کرنے کے لیے ایٹمی پروگرام کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک اور بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر سابق صدر احمدی نژاد یہودیوں کے خلاف ایسی بیان بازی نہ کرتے رہتے تو شاید ایران کا پروگرام دنیا کی نظروں میں نہ کھٹکتا اور نہ اس پر اتنی سخت نگاہ رکھی جاتی ۔ ان کی دھمکی آمیز تقریروں سے تل ابیب اور واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بج جاتیں۔ تاہم صدر روحانی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جرمنی سمیت پانچ عالمی طاقتوں نے ایران کو ایک سنجیدہ ریاست سمجھ کر مذاکرات کی طرف قدم بڑھایا ۔
مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں ایران کی طرف سے ایٹمی ہتھیار بنانے کا خطرہ محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اس کاکوئی علاج نہیں ہے، تاہم وہ جون میں ہونے والے حتمی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہوں گے کیونکہ وہ ایران کو پہنچنے والے کسی فائدہ کو ہضم نہیں کرسکتے۔حالیہ دنوں یمن پر ہونے والے بمباری میں تہران کے لیے بھی ایک سبق موجود ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں