خطے کی موجودہ صورت حال بہت سے عجائبات کو سامنے لا رہی ہے۔ پہلی عجیب بات یہ کہ تقریباً 80 بلین ڈالر کا دفاعی بجٹ رکھنے والی ریاست سعودی عرب، اُس ریاست (پاکستان) سے مدد کی خواہاں ہے جس کا دفاعی بجٹ محض سات بلین ڈالر کے قریب ہے۔ اس بوالعجبی (riddle) کا جواب یہ ہے کہ سعودی مملکت اپنے سپاہیوں کو خطرات میں جھونکنے کے خلاف ہے۔ جب صدام حسین نے 1990ء میں کویت پر چڑھائی کی اور سعودی عرب نے بھی خطرہ محسوس کرنا شروع کر دیا تو اُنہوں نے مدد کے لیے فوراً امریکیوںکو پکارا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ عراق سے حاصل ہونے والے تلخ تجربے کے بعد امریکی مشرق وسطیٰ کی کسی اور دلدل میں قدم رکھنے کے لیے تیار نہیں؛ چنانچہ اس مرتبہ پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ آل سعود کے لیے جنگ کرنے کی خاطر اپنے فوجی دستے بھجوائے۔ کئی برسوں سے سعودی عرب مختلف ممالک، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے جدید ہتھیار خریدتا رہا ہے۔ یہ چمک دار مہنگے ''کھلونے‘‘ صحرا کی ریت میں پڑے پڑے زنگ آلود ہو جاتے ہیں تو انہیں پھینک کر ان کی جگہ نئے اور مزید مہنگے ہتھیار خرید لیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
دوسری عجیب بات مملکت میں کیا گیا سعودی مردوں کو پاکستانی عورتوں سے شادی کرنے سے روکنے کا فیصلہ ہے۔ مانا کہ پاکستانیوں کو اس پر برا منانے یا چیں بجبیں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، لیکن اس سے ایک حقیقت کا برملا اظہار تو ہوتا ہے کہ سعودی ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ ہمارے دل خواہ ان کے لیے عقیدت بھرے جذبات سے لبریز کیوں نہ ہوں، وہ پاکستان اور جنوبی ایشیا کی دیگر اقوام کے ساتھ نسلی تعصب پر مبنی سلوک روا رکھتے ہیں۔ جن خوفناک حالات میں ''مہمان مزدوروں‘‘ کو خلیجی ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم چاہے لب بند رکھیں لیکن عالمی میڈیا اُن مزدوروں کی حالت زار بیان کرتا رہتا ہے۔
گزشتہ کئی عشروںسے ریت کے نیچے اچانک ملنے والی تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب نے اپنے لیے امریکی حفاظتی چھتری خرید رکھی تھی، لیکن امریکہ کے سمندری علاقوں میں ملنے والے تیل اورگیس کے ذخائر اور پھر ممکنہ طور پر امریکہ ـ ایران معاہدے نے سعودی عرب کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی سکیورٹی کے آپشنز پر نظرثانی کرے۔ اب تک سعودی فوج کو زیادہ تر مملکت میں داخلی طور پر باغی عناصر کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، اس لیے یہ اپنی سرحدوں پر یا سرحدوں سے باہر جا کر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتی۔ کئی عشرے قبل جب اس نے یمن میں مہم جوئی کی تو اس کا نتیجہ اس کے حق میں اچھا نہ نکلا۔ آج بھی دو ہفتوںسے جاری فضائی حملوں میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی چند سو سویلین کو ہلاک کرنے اور چند سکولوں اور ڈیری فارمز کو تباہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ اس دوران حوثی جنگجو بلاروک ٹوک آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں جبکہ منصور ہادی ابھی تک سعودی حمایت سے اپنی بحالی کا منتظر ہے۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا اس جنگ کا کیا نتیجہ برآمدہوگا، اس لیے اسے چھوڑیں اور ایک اور عجیب بات کی طرف دھیان دیں۔
تیسری عجیب بات یہ ہے کہ کئی ایک ممالک مل کر ایک رکن ملک پر حملہ آور ہورہے ہیں، لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے ایک بیان تک نہیں آیا۔ اگر یمن میں خانہ جنگی ہو رہی تھی تو بھی اسے جواز بنا کر دیگر ممالک کے پاس کوئی حق نہیں کہ وہ اس پر بمباری شروع کردیں۔ اب عالمی قوانین کہاں گئے؟ اس جنگ میں اگر کسی کی جیت ہوگی تووہ صرف اے کیو اے پی (القاعدہ کی جزیرہ نما عرب میں شاخ) ہے۔ اے کیو اے پی اب تک خطے کی حکومتوں کو امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ کئی ملین ڈالر کے ہتھیار لوٹ چکی ہے۔ اس انتہاپسند گروہ نے اپنے دائرہ ِ کار اور علاقے کو وسیع کرلیا ہے۔ ایسے گروہوںکو پنپنے اور اپنا مذموم ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے افراتفری اور انتشار کی ضرورت ہوتی ہے ؛ چنانچہ اس کے ارکان یمن میں سعودی بمباری پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہوںگے۔
جہاں تک سعودی عرب کی طرف سے فوری مددکی درخواست (اگر اسے درخواست کہا جاسکتاہے ) پر پاکستان کے رد ِعمل کا تعلق ہے تو ہم اس معاملے کی چوتھی عجیب چیزکو زیر ِ بحث لانے جارہے ہیں۔ اب تک کم و بیش پوری قوم نے یک زبان ہوکر یمن کے آتش فشاں میں کود پڑنے کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے پاکستانی سیاست دان شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے پر آمادہ دکھائی دیتے تھے۔ اگر ماضی میںسعودی عرب کی طرف سے ایسی کوئی درخواست آتی تو ہمارا رد ِعمل وہی ہوتا جس کا اظہار اٹھارویں صدی میں لکھے گئے ایک نرسری نغمے میں برملا کیا گیاتھا۔۔۔۔۔''Yes sir, yes sir, three bags full‘‘، لیکن تبدیل ہوتے ہوئے حالات (اور سوچ) میں محتاط الفاظ کا چنائو کیا جارہا ہے۔ اسی اثنا میں سیاست دانوںکی طرف سے دانائی پر مبنی آراء بھی سامنے آرہی ہیں۔۔۔۔۔ ہے نہ عجیب بات ! اس وقت سیاست اور میڈیا کے سرخیل، ماہر سفارت کار بنے، مضامین، اداریوں، ٹاک شوز اور بیانات کے ذریعے جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ دنیا کے ہمارے حصے میں ''ناگفتنی‘‘ کے زمرے میں آتا تھا۔
لیکن ٹھہریں، میرا تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے ہاں اس طرح کا قومی اتفاق ِ رائے صرف اُس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی ماہر ہاتھ پیچھے کرکے ڈور ہلارہا ہو۔ اس کے علاوہ وزیر ِ اعظم نواز شریف کی ایک اہم سیاسی حکمت ِعملی ایسے مشاورتی اجلاس بلاکر وقت گزارنا ہے۔ اس سے پہلے بھی اُنہوں نے طالبان سے نمٹنے کے لیے کل جماعتی کانفرنسیں بلائیں اور اُن خونیوں سے نمٹنے کے لیے پارلیمانی بحث کرائی۔ اس کارروائی کا مقصد فعالیت کو ٹالتے ہوئے مصیبت کے سر پر پڑنے کا انتظارکرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں یک لخت ہوش آجاتا ہے۔ اس حکمت عملی سے حکومت خود پر پڑنے والی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتی ہوئی قومی قیادت کو آگے کردیتی ہے۔ اگر جنرل راحیل شریف نے وزیر ِ اعظم کو بتایا ہوکہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کی وجہ سے فوج مصروف ہے، اس کے علاوہ مشرقی بارڈر پر بھی دبائو ہے؛ چنانچہ سعودی عرب کی درخواست پر ایک ڈویژن فوج بھیجنا ممکن نہیں تو چونکہ وزیر اعظم ایسے دوٹوک الفاظ میں سعودی بھائیوں کو یہ بات نہیں بتاسکتے، اس لیے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے اپنے سرپرستوںکو سمجھایا جائے گا کہ اُن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ چونکہ سعودی عرب نے گاہے ہماری مالی امداد کی ہے، اس لیے ہمیں اس موقعے پر اس کی فوجی مدد کرنی چاہیے۔ لیکن پھر امریکہ نے تو ہمیں اس سے کہیں زیادہ مالی امداد دی تھی لیکن ہم نے 2003ء میں عراق پر حملے کے وقت امریکی کولیشن کا حصہ بننے سے انکارکردیا تھا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا رہا ہے کہ ہمیں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ فریق نہیں بننا چاہیے۔ اس وقت ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے دفاعی ادارے بہتر فیصلہ کررہے ہیں کیونکہ ان کا کہیں بھی مالی مفاد وابستہ نہیں ہے۔