دھاندلی کا ذمہ دار کون؟

لاہور کے حلقے این اے 125 میں ووٹوں کی گنتی میں ہونے والی بے ضابطگیوںکی شکایات کی تحقیقات کرنے والے الیکشن ٹربیونل نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ فیصلے کے مطابق اس حلقے کے سات پولنگ بوتھوں سے ملنے والے تھیلوں میں ووٹوں کی بجائے ردی کاغذات بھرے ہوئے تھے۔ ٹربیونل کی ایک رولنگ یہ بھی تھی کہ ''ہر پولنگ سٹیشن سے ملنے والے بیگ ظاہر کرتے ہیں کہ انتخابی عمل انتہائی بدنظمی کا شکار رہا۔ ‘‘
کیا واقعی ایسا ہی ہوا؟ کیا ہمیں اس پر حیران ہونا چاہیے؟ اگر ایک لمحے کے لیے دھاندلی کے کیس کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات پر دھیان دیں کہ پولنگ سٹاف، ریٹرننگ آفیسرز (ROs) کی تعلیمی قابلیت اور تربیت کتنی ناقص ہوتی ہے اور وہ بھی دیگر سرکاری اہل کاروں کی طرح اپنا کام نہایت بے دلی سے کرتے ہیں۔ ہمیں اُن سے بہترین کارکردگی کی توقع کیوں کرنی چاہیے؟ہم جو ایک طویل عرصے سے حکومت کے ہر محکمے میں ہونے والی بدعنوانی اور بدنظمی کے عادی تھے‘ الیکشن کمیشن اور اس کے انتخابی عملے سے اتنی اعلیٰ کارکردگی کی توقع کیوں لگاچکے ہیں؟الیکشن کمیشن زیادہ تر ریٹائرڈ اور حاضر سروس جج حضرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا کیا معیار ہے؟
ریٹرننگ آفیسرز عام طور پر نچلے درجے کے سول سرونٹ ہوتے ہیں۔ وہ سیاست دانوں اور اپنے سینئر افسران کی طاقت اور اختیار کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ کسی اوپر والے کی آنکھ کا ایک اشارہ ان کا کیریئر بنا اورخراب کرسکتا ہے۔ کم تعلیم یافتہ ہوں تو ہوں، اتنے کم عقل ہرگز نہیں ہوتے کہ بیٹھے بٹھائے اپنا کیریئر دائو پر لگالیں۔ دائوپیچ کھیلنے کو اور جو بہت سے میدان ہوتے ہیں، اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ دھیان سے ملازمت کی جائے اور اپنے کام (یا افسر کے کام)سے کام رکھاجائے۔ پریزائڈنگ آفیسرزبھی کم درجے کے ملازمین ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ ہوتے ہیں۔ یہ اساتذہ کسی قسم کا دبائو برداشت نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان سے ایسی کوئی توقع وابستہ رکھنی چاہیے۔
کئی عشروںسے ہم ریاستی اداروں کی فعالیت میں دیانت داری اور اہلیت کابتدریج فقدان دیکھ رہے ہیں۔ پولیس سے لے کر محصولات جمع کرنے والے محکمے، سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے صفائی پسند ہیں۔ ان سب کی گراوٹ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن سیاست دان ان محکموں کا قبلہ درست کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ محض زبانی جمع خرچ کے طور پر کچھ بیانات دے کر اپنی فعالیت ظاہر کرنے کی کوشش کریں لیکن اوپر سے لے کر نیچے تک، سب کی نظر مالی مفاد پر مرکوز ہوتی ہے۔ اس ضمن میں عدلیہ کے بارے میں کچھ نہ ہی کہنا بہتر ہوگا۔ ریاستی کنٹرول میں چلنے والی کارپوریشنیں حاصل خودمختاری کے باوجود پیہم زوال کا شکار ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز سمیت کئی بڑے اداروں کو حکومت آکسیجن فراہم کرتی ہے تو یہ کچھ سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان پر عوام سے حاصل کردہ بھاری وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ پاکستان ریلوے ، جس میں پاک فوج کے بعد سب سے زیادہ افراد ملازم ہیں، کا حال نہایت ابتر ہے۔
ریاستی اداروں میں سے فوج نے خود کو دیگر اداروں کی صف سے الگ رکھا ، اس لیے وہ اس زوال کا شکار نہیں جو ہمارا قومی خاصا بن چکا ہے۔ فوج کے پاس اپنی تعلیمی اور تربیتی سہولیات ہیں ۔ اس نے بہرحال اپنا ایک معیار قائم رکھا ہوا ہے۔ ہر ادارے کی تباہی کے پیچھے جو وجہ مشترک ہے وہ ملک میں تعلیمی نظام کی مکمل تباہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت اور سرکاری سکولوں کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے پاکستانیوں کی گزشتہ دونسلوں کو نہایت ناقص تعلیم حاصل ہوئی ۔ جب نوجوان گریجویٹس سول سروس میں جاتے ہیںتو ان کی قابلیت جو گُل کھلاتی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں طلبہ دینی مدرسوں میں داخلہ لیتے ہیںجہاں انہیں مخصوص مسلک کے نظریات کی تعلیم دیتے ہوئے انتہا پسندی کی طر ف مائل کیا جاتا ہے۔ اس عالم میں صرف نجی سکول اور کالج ہی نظام کو قدرے زندہ رکھے ہوئے ہیں ، لیکن آٹے میں بس نمک کے برابر۔ پاکستانی اشرافیہ اپنے بچوں کو مہنگے تعلیمی اداروں میں بھیجتی ہے، چنانچہ اُنہیں سرکاری تعلیمی نظام کو درست کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ اشرافیہ ہمیشہ کے لیے اپنے من پسند حجروں میں ، عوام سے کٹ کر، نہیں رہ سکتی، انہیں زندگی کے کسی نہ کسی شعبے میں ناقص نظام ِتعلیم کے شاہکاروں سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ پھر وہ ان تعلیم یافتہ جاہل افراد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں۔
وہ افراد‘ جن کے پاس مالی وسائل کی بہتات ہوتی ہے، اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم اور اعلیٰ ملازمتوں کا اہتمام کرلیتے ہیں، لیکن دیگر کو ان سنگ دل سیاست دانوں اور بدعنوان سرکاری افسران کے ہاتھوں میں کھیلنا پڑتا ہے۔ برائی کے خلاف اس طبقے کی قوت ، مزاحمت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کا آئین حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر شہری کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے لیکن آج کے پاکستان میں پانچ سے سولہ برس کی عمر کے کم و بیش 92لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ ہمارے ہاں چائلڈ ورک فورس میں ایک کروڑ بچے مختلف کام کررہے ہیں؛ چنانچہ اگر معاشرے میں جرائم اور انتہا پسندی بڑھ رہے ہیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ستم یہ ہے کہ جو بچے سرکاری سکولوں میں داخل ہوتے ہیں، اُنہیں بھی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ کم تعلیم یافتہ اساتذہ ان کی صلاحیتوں کو نہیں پہچان پاتے اور نہ ہی انہیں جلا بخشنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہمارا نصاب مہذب دنیا کے علمی تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ ہماری تعلیم میں کچھ سوالات یاد کرکے امتحان پاس کر لیا جاتا ہے۔ اس میں نہ تحقیقی کام کا کوئی دخل ہے نہ تنقیدی رجحانات کا۔
معاف کیجیے میں این اے 125سے بہت دور نکل آیا، لیکن اگر ہم وہاںہونے والی بے قاعدگیوں کی حقیقت کی تفہیم چاہتے ہیں تو ہمیں ان معروضات کو پیش ِ نظر رکھنا ہوگا۔ہمارا ناقص تعلیمی نظام ہر مسئلے کی جڑ ہے، چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے کیوںنہ ہو۔ ایک اور ایشو یہ ہے کہ ہمارا انتخابی نظام احتساب کی روایت نہیں رکھتا۔ کئی برسوں سے ایسا ہوتا چلا آرہا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد ہارنے والے امیدوار اور جماعتیں دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیتی ہیں‘ لیکن کسی سے کوئی باز پرس نہیںہوتی۔ درحقیقت ہمارے پاس قوانین کی کمی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا نفاذ کرنے والا نظام زمین بوس ہوچکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں