شام کے قدیم شہر تدمر(Palmyra)پر داعش کے وحشیوں کے کنٹرول کے بعد اب دنیا اس شہر میں موجود بیش قیمت نوادرات کی تباہی کی ویڈیوز کے منظر ِعام پر آنے کا انتظار کررہی ہے۔ اس سے پہلے بھی نام نہاد جہاد ی دستے خوبصورتی اور فن کے نمونوں کے لیے اپنی دائمی نفرت کا عملی ثبوت عراق کے شہر نینوا(Nineveh)کے قدیم مجسموں کو تباہ کرکے دے چکے ہیں۔ انسانیت کے ورثے کی تباہی میں داعش ہی اکیلی نہیں، جب 1996ء میں طالبان کابل پر قابض تھے تو انہوں نے اس کے عجائب گھر، جسے پہلے ہی جنگ کی وجہ سے نقصان پہنچ چکا تھا، کو تاراج کردیا۔ اُنھوں نے دنیا بھر کی درخواست ، احتجاج اور التجا کو بہت رعونت سے ٹھکراتے ہوئے گوتم بدھ کے عظیم الشان مجسموں کو تباہ کردیا اور ، ایسا کرتے ہوئے عالمی تنہائی کا نشانہ بنے۔ انھوں نے اپنے طرز ِعمل سے بارہا ثابت کیا کہ وہ فن ِ لطیف اور دوسرے افراد کے عقائد کا بالکل لحاظ نہیں رکھتے۔
ان تاریک طاقتوں کے پاکستانی کزنوں نے بھی انہی کارروائیوں کا اعادہ کرنا چاہا لیکن خوش قسمتی سے وہ اُس پیمانے پر نہ کرسکے۔ اس کے باوجود جہادی دستوں نے ملک کے شمالی علاقوں میں موجود بدھا کی کچھ مورتیوں کو نقصان پہنچایا۔ نوادرات کی تباہی کی داستان مالی میں بھی دہرائی گئی جہاں نام نہاد جہادی دستوں نے ٹمبکٹو کے شہر میں مسلمان سکالرز کے جمع کردہ بیش قیمت مسودوں کو نذر ِ آتش اور اُن کے مزارات کو مسمار کردیا۔ یہ شہرسینکڑوں سال پہلے اسلامی تعلیمات کے مراکز میں سے ایک تھا لیکن علم اور تہذیب سے نفرت کرنے والے ان درندوں نے اس کے تمام خدوخال مٹا کررکھ دیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتہا پسند قدیم عمارتوں اور مجسموں کو تباہ اور نادر قلمی نسخوں کو جلانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟اس کے جواب کے لیے اور کہیں نہیں، صرف ایک عرب ملک پر ایک نظر ڈال لیں۔ اسلامک ہیریٹیج ریسرچ فائونڈیشن، لندن کے مطابق 1985ء سے لے کر اب تک ملک کے98فیصد تاریخی اور مذہبی مقامات کو تباہ کیا جاچکا ہے۔ اس مہم کے دوران ابتدائی دور کے مسلمانوں کے مکانات، مزارات اور نوادرات کو بھی نہیں بخشا گیا۔ دراصل اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ مزارات اور قبریں عبادت گاہیں بن سکتی ہیں، اس لیے انہیں تباہ کیا جانا چاہیے۔جب اسلام کے ابتدائی دور کی عظیم ہستیوں کی نشانیوں کو نہیں بخشا گیا توبدھ کے مجسموں ، تدمر اور نینوا کے نوادرات کی کیا اوقات؟
ماضی میں مسلمانوں نے ان خطوں پر حکومت کی لیکن اُنھوں نے قدیم نوادرات کو نقصان نہ پہنچایا ۔ مثال کے طور پر تدمر کا شہر 7500 قبل مسیح کی نشانیاں رکھتا ہے اور یہاں پر 634 ء کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کی حکومت رہی ہے لیکن کبھی کسی نے یہاں موجود نوادرات کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان، مالی کے جنگجو اور داعش کے نام نہاد جہادی عرب ملک کی تقلید کرتے ہوئے ان مقامات کو تباہ کررہے ہیں۔ ان لوگوں کے ہاتھوں ماضی کو تباہ ہوتا دیکھ کربہت سے مغربی افراد یہ کہتے ہیں کہ ان کے آباواجداد نے نوآبادیاتی دور میں ان ممالک سے نوادرات کو نکال کر محفوظ کرکے اچھا کیا ورنہ یہ انتہا پسنداُنہیں بھی تباہ کر ڈالتے۔ اب یہ نوادرات ان کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔ دراصل اس بحث کا آغاز اُس وقت ہوا جب یونانیوں نے Elgin marbles کی واپسی کا مطالبہ کیا جو ایک صدی پہلے ایتھنز سے لے جاکر لندن کے عجائب گھر کی زینت بنائے گئے تھے۔ بھارتی حکومت بھی کوہ ِ نور ہیرے، جواب برطانوی شاہی زیورات کا حصہ ہے، کی واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک نے بھی اپنے تاریخی نوادرات کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ دراصل اُس زمانے میں نوآبادیاتی حکمرانوں سے زیادہ نجی طور پر نوادرات جمع کرنے والے افراد نے محکوم ممالک میں لوٹ مارکی اور تاریخی اشیاء پر ہاتھ صاف کیا۔ جن افراد نے انڈیانا جونز کی فلمیں دیکھی ہوئی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس طرح بھاری مقدار میں نوادرات ٹرانسپورٹ کی گئیں اور ان کی منزل کون سے ممالک بنے۔
پاکستان کو بھی گندھارا دوار کے بہت سے نادر نمونوںسے ہاتھ دھونا پڑے۔ مسلح گروہ اور ان سے وابستہ سنگدل تاجر ان نمونوں کی سمگلنگ سے مال کماتے رہے ہیں۔ ان کی غیر قانونی تجارت کی خبریں اُس وقت آتی ہیں جب ایسے گروہ غیر متوقع مقامات سے نادر اشیا نکال کر بیرونی خریداروں کے ہاتھ فروخت کرچکے ہوتے ہیں۔ ان میں کبھی کبھار کوئی ''مال‘‘ ائیرپورٹ پر پکڑا بھی جاتا ہے لیکن وہ خوش قسمت دن کبھی کبھار آتا ہے، عام طورپر بیش قیمت نوادرات ہمارے ہاں سے سمگل ہوکر ٹوکیو سے نیویارک تک بلا روک ٹوک پہنچ جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
انتہا پسندگروہوںکے ہاتھو ں ماضی کی نشانیوں کی تباہی کو دیکھتے ہوئے یہ بات کی جارہی ہے کہ یہ ممالک انسانیت کے مشترکہ ورثے کی حفاظت کے اہل نہیں، چنانچہ جو بچ گئے ہیں اُنہیں جلد از جلد محفوظ مقامات پر منتقل کردیا جائے۔ اس دلیل میں وزن ہے کیونکہ یہ نوادرات کسی ایک ملک سے متعلق نہیں، یہ تمام انسانیت کا ورثہ ہیں۔ کئی سال پہلے پاکستانی آثار ِقدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل نے مجھے بتایا تھا کہ گندھارا دور کی بہت سی نشانیوں کو ہنوز تلاش نہیں کیا گیا ہے لیکن وہ ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے ۔ مسلح گروہ ان کی تلاش جاری رکھتے ہیں اور پھر ہمارے عجائب گھروں میںاُنہیں محفوظ کرنے لیے جگہ بھی نہیں ۔ اس کے علاوہ فنڈز کی کمی کا مسئلہ تو ہمیں ہمیشہ سے ہی درپیش رہتا ہے۔ ہم انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی ہمیں پیسے دے تاکہ ہم یہ کام کرسکیں۔ اصل بات یہ ہے کہ غریب مسلمان ممالک کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ان مقامات کو محفوظ کرسکیں جبکہ امیر ممالک ، جیسا کہ سعودی عرب میں ان آثار قدیمہ کو کفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ عُمان (Oman) نے اسلامی فن کو ایک عجائب گھر میں محفوظ کیا ہے لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جس دوران ایک عرب ملک میں ماضی کو مسخ کیا جارہا تھا، تمام اسلامی ممالک نے چپ سادھ رکھی تھی۔ کیا ابتدائی دور کے مسلمانوں کے مزارات تمام مسلمانوں کا عقیدت بھرا ورثہ نہ تھے؟ انتہائی دل خراش بات یہ ہے کہ بہت سے مقدس مقامات کو مسمار کرکے وہاں ہوٹل اور کارپارکنگ بنائی گئیں۔ اس کے باوجود خود کو مقاماتِ مقدسہ کا خادم اور محافظ قرار دیا جاتا ہے۔ خداجانے حفاظت اور خدمت کسے کہتے ہیں؟اس طرح کی ہی ''خدمت‘‘ طالبان اور دیگر انتہا پسند دیگر مسلم ممالک میں سرانجام دے رہے ہیں۔