جس دوران ذوالفقارعلی بھٹو کی روح نے پی پی پی کوختم ہونے سے بچایا، اس نے اس جماعت کو وقت کے قدم سے قدم ملا کرچلنے ، آگے بڑھنے اور سیاسی میدان میںارتقائی عمل سے گزرنے سے روکے رکھا۔ ہر قسم کے سیاسی چیلنج کے مقابلے میں پارٹی کا نعرہ وہی ''روٹی، کپڑا اور مکان‘‘رہا۔ یقینا یہ چیزیں ہردور میں انسان کی اولین ضروریات میں سے ہیں لیکن جب ہر انتخابات کے موقع پر اس نعرے کو فراموشی کے تہہ خانے سے نکال کر، جھاڑ پونچھ کر عوام کے سامنے پیش کردیا جائے تو اُنہیں اس میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟دوسرا نعرہ ،''زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے‘‘بھی پارٹی پر ماضی کے سائے اور اس کے ایامِ رفتہ کے جال میں جکڑے ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ پارٹی کے رہنما اکثر اپنے ووٹ بینک کی بات کرتے تھے لیکن دیگر بینک بیلنس کو بڑھاتے بڑھاتے اپنے ووٹ بینک کو زیرو کربیٹھے ہیں۔
اب پی پی پی کا دور ِحاضر کے معاملات سے برائے نام واسطہ رہ گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس کے رہنماسوچتے ہیں کہ وہ پبلک سیکٹر میں چلنے والی بیمار کمپنیوں کی نج کاری کی مخالفت کرتے ہوئے مزدور پیشہ افراد کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں، تاہم ریلوے اور پاکستان سٹیل کئی برسوںسے قومی خزانے پر بھاری بوجھ ہیں۔ ٹیکس گزاروں کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے اُنہیں بمشکل زندہ رکھا جارہا ہے ۔ اگر انہیں نجی ملکیت میں دے دیا جاتا تو ان پر ہونے والے خسارے سے بچنے والی رقم تعلیم یا صحت پر صرف کی جاسکتی تھی۔ پی پی پی بھی شاید دل سے اس بات کو سمجھتی ہوگی لیکن چونکہ اس نے ستر کی دہائی میں اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ان کا کباڑا کردیا تھا، اس لیے وہ تبدیلی کی راہ پر قدم رکھنے سے گریزاں ہے۔
جب ساٹھ کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اُن وقتوں میں یہ ایک جدید اور ترقی پسند پارٹی تھی اور ملک کو درپیش چیلنجوں کے لیے اس کے پاس تازہ اور جدت پسند تصورات موجود تھے‘ لیکن آج یہ نظریات سے تہی داماں ایک بے جان پارٹی ہے۔ اس کی زیادہ تر قیادت اپنی جیبیں بھرنے کو ہی سیاست سمجھتی ہے۔ صرف چند ایک نظریاتی رہنما ہی اس کے ساتھ ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ کسی اور جماعت میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں جناب آصف علی زرداری نے بہت فخر سے کہا کہ اُن کی جماعت نے 2013ء میں سندھ میں انتخابی کامیابی حاصل کی۔ اس ''قابل ِفخر‘‘ کامیابی پر طمانیت کے اظہار سے پتہ چلتا ہے کہ پی پی پی کے عزائم یہ ہیں کہ اپنے آبائی حلقوں میں کامیابی حاصل کرکے جیسے تیسے حکومت قائم کرلی جائے اور پھراس بدقسمت صوبے میں جو کچھ بھی مل جائے، اُسے سمیٹ لیا جائے۔
میرا خیال ہے کہ پانچ سال تک وکلا، سابق چیف جسٹس، آرمی چیف اور میڈیا سے چومکھی لڑائی لڑتے لڑتے بے حال آصف علی زرداری اب سکون کا سانس لے رہے ہوںگے۔ اب چونکہ وہ لائم لائٹ میں نہیں، اس لیے سندھ میں وہ جوچاہے کرسکتے ہیں۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ پی پی پی اپنی اہمیت کھوچکی لیکن پاکستان کو بائیںبازو کی ایک لبرل اور ترقی پسند جماعت کی ضرورت ہے جو معاشرے کے کمزور پسے ہوئے طبقوں کی آواز بن سکے۔ پاکستان مسلم لیگ کے بہت سے نعرے پنجاب کے درمیانے اور خوشحال عوامی طبقات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی پی ٹی آئی نے صرف شہری علاقوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں اور پیشہ ور افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ اگرچہ اس کے رہنما جانتے ہیں کہ وہ بدعنوانی اور بد انتظامی کے خلاف انصاف کے علم بردار بن کر سامنے آئے ہیں لیکن وہ عملی طور پر اس علامت کو حقیقی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ ناقدین اُن کی کارکردگی کو خیبر پختونخواہ کی حکومت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
حالیہ برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی کی شکست کے بعد اس کے رہنما کو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوتے دیکھنا ایک متاثر کن تجربہ تھا ۔ اس سے یہ احساس مزید گہرا ہوا کہ گزشتہ انتخابات میں عبرت ناک شکست کے بعد پی پی پی کے رہنمائوں کو بھی ذمہ داری اٹھانا چاہیے تھی کیونکہ قومی سطح کی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ایک صوبے کے دیہی علاقے تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے شور نے پی پی پی کے رہنما ئوں کو ایک شک کا فائدہ دے دیا۔ زرداری صاحب نے بھی دعویٰ کیا کہ اگر منصفانہ انتخابات ہوتے تو ان کی جماعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی تھی، لیکن 2013ء کے انتخابات سے پہلے عوامی سطح پر اس کے بارے میں پنجاب میں کیا رائے تھی اور عوام اس کا کیا حشر کرنے والے تھے، یہ جاننے کے لیے کسی انتخابی نتیجے کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم بات یہ ہے کہ پی پی پی کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں ، کیونکہ اگر یہ جماعت بھی نہ ہو تو ملک کی اقلیتوں اور بے سہارا افراد کی آواز کون بنے گا؟افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کے بائیں بازو کے گروہوں کے درمیان پروان چڑھنے والے حسد ، رقابت اور مخاصمت کی وجہ سے وہ مل کر کوئی ایک متحرک اور فعال جماعت کا روپ نہ دھارسکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھی تو بائیں بازو کے بہت سے افراد اس کی صفوں میں شامل ہوگئے، لیکن بہت جلد چراغوںسے روشنی گل ہونے لگی۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی کی شکست کی ایک وجہ یہ تھی کہ ایڈ ملی بینڈ بہت حد تک بائیں بازو کی طرف چلے گئے تھے ، چنانچہ ایسا کرتے ہوئے وہ ان ووٹروں سے دور ہوتے گئے جو اپنا کاروبار چلانا اور گھر خریدنا چاہتے تھے۔ انتخابات سے پہلے پارٹی کے Blairite ونگ نے اس پیش رفت سے خبردار کیا تھا لیکن ملی بینڈ یہ بات نہ سمجھ سکے۔ اس سے پہلے ٹونی بلیئر نے مرکزی دھارے سے وابستہ رہتے ہوئے تین انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم پی پی پی اس طرح تجزیہ کرنے اور معاملات کا جائزہ لینے کی قائل نہیں۔ جناب آصف زرداری اور ان کے سیاست دان صاحبزادے بلاول بھٹو پارٹی میں کچھ جدت لانے ، جیسا کہ پارٹی میں انتخابات کرانے، کے لیے تیار نہیں۔ ان کے لیے بے نظیر بھٹو ایک بلینک چیک تھیں، لیکن کیا اس میں اب سیاسی کیش باقی ہے؟ ٹی وی انٹرویومیں زرداری صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آرمی چیف اپنے کام سے کام رکھیں، وہ (زرداری) سندھ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔