اجنبی مسافر‘ عجیب راہیں

نئے ہزاری سال(New millennium)کے آغاز کے فوراً بعد ہم چند دوست بیٹھے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہے تھے کہ شروع ہونے والی یہ صدی اپنے دامن میں کیا کیا امکانات رکھتی ہے۔ یہ کوئی سنجیدہ بحث تو نہیں بلکہ دوستوں کے درمیا ن ایک ایسی گپ شپ تھی جو اگلی صبح تک ذہن سے محو ہوجاتی ہے،تاہم مجھے یاد ہے کہ اُس موقع پر میں نے ایک پیشین گوئی کی تھی کہ اس صدی میں ہم غیر معمولی حد تک وسیع ہجرت دیکھیں گے۔ میری پیشین گوئی کی بنیاد بڑی حد تک ترقی پذیر ممالک کی بڑھتی ہوئی غیر فعالیت تھی۔اگرچہ ''ترقی پذیر ممالک‘‘ کی اصطلاح ظاہر کرتی ہے کہ یہ ممالک ترقی کی راہ پر گامز ن ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک اپنے شہریوں کو اچھی زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے حوالے سے مزید پسماندگی کا شکار ہورہے ہیں۔ 
اگرچہ میری خدشات سے پرُ پیشین گوئی نائن الیون سے پہلے کی گئی تھی لیکن اس حملے کے نتیجے میں مستقبل میں رونما والے واقعات نے میری بات کو سچ ثابت کرنا شروع کردیا۔ افغانستان سے لے کر لیبیا تک بہت سے ممالک میں مذہبی دہشت گردفعال ہوگئے ، اُنھوں نے ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا تاکہ دیگر افراد کو ڈرا کر اپنی بات ماننے پر مجبور کیا جاسکے۔ امریکی کولیشن فورسز کے افغانستان اور عراق پر حملے اور قبضے کے نتیجے میں خطہ ناقابل ِ بیان تشدد، فرقہ وارانہ اور قبائلی دہشت گردی کی آگ میں جل اُٹھا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پروان چڑھنے والی رقابت کے نتیجے میں مختلف ممالک میں پراکسی جنگ دیکھنے میں آئی۔ ان بیرونی عوامل کے علاوہ، کثرت ِ آبادی، جامد ، بلکہ انحطاط پذیر معیشت اورحکومتوں کے غیر پیداواری منصوبوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں ایسے ایسے جرائم پیشہ گروہ فعال ہوگئے جنہیں کنٹرول کرنا کمزور ریاستوں کے بس میں نہ تھا۔ ناقص گورننس کی وجہ سے تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی واقع ہوئی۔ ان عوامل کی وجہ سے لوگ اپنی تمام جمع پونجی ،حتی کہ انتہائی خطرات مول لے کر اپنی زندگیوں اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والے ایسے پرامن معاشروں، جہاں کی مالی اور سماجی حالت سے قطع نظر آپ کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں، کی کشش بھی اُنہیں دیار ِ غیر میں کھینچ لائی۔ جدید ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے دنیا کے دور دراز کے خطوں میں رہنے والے غریب ممالک کے افراد نے بھی دیکھا ہے کہ مغربی معاشرے کس طرح ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں اور وہاں لوگ بھوک سے نہیں مرتے۔ 
بے شک بعض اوقات سچائی دکھائی دینے والی صورت ِحال سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ قانونی اور غیر قانونی طریقے سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں اکثر نئے معاشرے ، جہاں وہ آباد ہونا چاہیں، ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ اُنہیں ایسے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے جن کے وہ اپنے معاشروں میں عادی نہیں ہوتے۔نئے دیس اور اس کے طور طریقوں سے ناواقف، ابلاغ سے قاصر اور نئے اطوار اپنانے سے گریزاں ، وہ اجنبی قرار پاتے ہیں۔ تاہم ابتدائی مشکلات کے باوجود ، اُن میں سے کئی ایک مشکلات پر قابو پاتے ہوئے نئے حالات سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے اُن ہم وطنوں سے بھی سبق سیکھتے ہیں جو اُن سے پہلے وہاں آکر آباد ہوئے اور اُنہوںنے مہذب انداز اپنا لیے۔ 
تاہم پناہ کی تلاش کرنے والے افراد کو جنوبی چین کے سمندر میں ڈوبتے دیکھ کر ہمارے جذبات کو اتنا صدمہ پہنچا اور ہم نے جذباتی اور جوشیلے مضامین سے ادارتی صفحات اس طرح سیاہ کردیے جیسا کہ یہ دنیا میں پیش آنے والا پہلا اور اپنی قبیل کا کوئی نادر واقعہ ہو ، یا کسی دشمن نے اسلام کے خلاف کوئی بہت بڑی سازش کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق میں ایسی ہجرتیں معمول کی بات ہیں۔ لوگ اپنی سرزمین پر بپا ہونے والی ابتلا سے بچنے یا مہذب معاشروں میں اچھی زندگی گزارنے کے لیے ہجرت کرتے رہے ہیں۔جب سے (اور یہ کوئی سوا لاکھ سال پہلے کی بات ہے) انسان افریقہ سے یورپ اور ایشیا میں پہنچا، انسان پیہم ہجرت کا اسیر ہے۔ ہزاروں سال پہلے وسطی ایشیا سے طاقتور قبائل نے اپنے حریفوں کو یورپ اور انڈیا کی طرف دھکیل دیا۔ ان افراد کی آمد سے ان خطوں میں پہلے سے مقیم آبادی کو مزید آگے کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ سولہویں صدی میں امریکہ کی دریافت نے یورپی اقوام کو چرچ کی بالا دستی سے نکلنے اور اپنی زمینیں خود آباد کرنے کا موقع دے دیا، چنانچہ وہ قطار درقطار امریکہ کی طرف ہجرت کرتے دکھائی دیئے۔ امریکہ کے مقامی باشندوں جو نوآبادیاتی نظام کی یلغار سے بچ گئے، کو نہایت نامساعد حالات میں انسانیت سوز سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی امریکہ میںپرتگال اور سپین سے آنے والے آبادکاروں نے مقامی افراد کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کردیا۔ اپنے گنے اور کپاس کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے یورپی شہریوں نے سیاہ فام افریقی غلاموں کی بھاری کھیپ خریدنے کی روایت اپنائی۔ غلاموں کی وسیع پیمانے پر تجارت عربوں کا طرۂ امتیاز تھا۔ اُسی زمانے میں آسٹریلیا کو جیل قرار دے کر وہاں مجرموں کو رکھا جانے لگا۔ اس دوران مقامی آسٹریلوی باشندوں کا ہزاروں کی تعداد میں شکار کھیلا گیا۔ آج بھی مقامی آسٹریلوی باشندے بہت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ پر قبضے کے دوران Maoris باشندوں کو بے گھر کیا گیا۔ عرب اور وسطی ایشیا سے آنے والے مسلم حملہ آور بھی توسیع پسند انہ عزائم کے ساتھ لشکر کشی کرتے دکھائی دیے۔ مشرق ِ وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے کئی علاقے ایک ایک کرکے اسلام کے پرچم تلے سرنگوں ہوتے گئے۔ دوسری طرف صدیوں تک افغان حملہ آوروں کی یلغارسے ہندوستان میں خونریزی اور بربادی کی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔ افغان حملہ آوروں کی برِ صغیر میں فوج کشی کی داستان آج بھی پتھر کا کلیجہ شق کردیتی ہے۔ 
ان واقعات کا لیا گیا طائرانہ جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تاریخ خون اور ہجرت کے آنسوؤں سے تحریر کی گئی ہے۔اس پس ِ منظر کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں ، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ جدید ریاستیں اپنی سرحدوں کو محفوظ کرتے ہوئے اجنبی افراد کا داخلہ بند کرسکتی ہیں۔ تاہم لوگ خطرات مول لیتے ہوئے جدید ریاستوں میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگلے دن برطانیہ کے چینل 4 نے پناہ کی تلاش میں آنے والے افراد کی تین گروہوں میں درجہ بندی کی۔ پہلے گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جو چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں لیبیا سے سمندر کے راستے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ یہاںسے یورپی یونین کے دیگر ممالک تک پہنچ سکتے ہیں۔ حال ہی میں اطالوی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ افسوس، اٹلی کو ان پناہ گزینوں کو ''قبول ‘‘کرنا پڑتا ہے ۔ دوسرے گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جو ترکی اور یونان کے راستے یورپ میں غیر قانونی طور پر داخلے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں یا تو بہت سوں کو پولیس گرفتارکرکے پناہ گزینوں کے کیمپ میں ڈال دیتی ہے یا پھر وہ جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ تیسرے گروہ کا آج کل میڈیا میں ایک خاص مذہبی حوالے سے تذکرہ ہورہا ہے۔ دراصل روہنگیا افراد نے میانمار سے ملائشیا یا تھائی لینڈ جانے کے لیے انسانی سمگلروں کو ادائیگی کی تھی لیکن اُنہیں جنگل میں واقع کیمپ نما جیل میں قید کردیا گیا۔ وہاں اُن میں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ صرف چند ایک اُن گروہوں کی کہانیاں ہیں جو اپنے قدموں سے اپنے آبائی ممالک کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ ریاستیں بدانتظامی کا شکار رہتی ہیں، ایسے انسانی المیوںکو روکنا ناممکن ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں