جب میں اس صبح اپنے پفن، پالتوکتے جیک رسل، کوساتھ لے کر ایک پارک میں سیرکے لیے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک بھاگتی ہوئی گلہری کے پیچھے لپکا اور جب وہ تیزی سے درخت پر چڑھ گئی تو ہمارا پفن بس تنے کے پاس سے ہی سینہ تان کرلوٹ آیا۔ ایک وقت تھا جب وہ جوش میں اچھل کر چار فٹ تک درخت کے تنے پر چڑھ جاتا تھا، لیکن اب اس کا رد ِعمل خاصا فکرانگیز تھا۔ وہ تنے تک گیا، سراٹھا کر بھونکا، تھوڑی سی تان تنک دکھائی اور پھر واپس لوٹ آیا۔ مجھے اُس پر ترس آیا ۔ میںاُسے بتانا چاہتا تھا کہ اب اُس کی عمر بارہ سال ہے (انسانی عمر کی مناسبت سے وہ چوراسی سال کا ہے)، ا وراس عمر میں خوشنما گلہریوںکا تعاقب ممکن نہیں،خاص طور پر جب اُن کے پاس درخت پر چڑھ جانے کا آپشن موجود ہو۔ اگرچہ پفن اپنی عمر کی مناسبت سے فٹ ہے لیکن جسمانی طور پر سست ہوچکا ہے۔ مجھے معمر اور عمر رسیدہ افراد کو وہیل چیئرز پر حرکت کرتے یا چھڑیوں کے سہارے چلتے د یکھ کر ترس آتاتھا ، لیکن اب یہ احساس جاگزیںہے کہ چند سال بعد، ممکن ہے کہ چند مزید سال بعد، میرا بھی حال یہی ہوگا۔
یوسفی صاحب کی طرح مریدی کا تو نہیں لیکن پیری کا قائل ضرور ہوں، اور سچ پوچھیں تو یہ بڑھاپا بہت ظالم چیز ہے۔ اپنے اردگرد افراد ، جن کی حرکت خیزی(چنانچہ ہر قسم کی تحریک) اور شخصی عظمت وقت کے گرداب میں کھوچکی ہوتی ہے، کو دیکھ کراُس دن سے خوف محسوس ہوتا ہے جب میرے جسم میں بھی اتنی سکت نہیں ہوگی کہ میں اپنے پائوں پر کھڑاہوسکوں۔ پہلے ہی یاد داشت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ میں نام اور تاریخوں کو یاد کرنے کے لیے گوگل کا سہارا لینے پر مجبور ہوچکا ہوں،اور یادداشت سے دست کش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی۔ بسااوقات ملاقاتیوں کا نام یادنہیں رہتا اور شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ اسے دوسرے بے اعتنائی سمجھتے ہیں، تاہم جب عمر کے اس حصے میں پہنچیں گے تو اس کی وجہ بھی سمجھ جائیںگے۔
رات گئے تک جو کام کرنے کے عادت تھی، اب ان امور سے احتراز ہی بہتر ، پرہیز ہی میں دانائی ہے، چنانچہ اب مجھے ریستوران اچھے نہیں لگتے کیونکہ ساتھ والی میزوںسے اتنا شور بلند ہورہا ہوتا ہے کہ میں ساتھ آنے والے مہمان کی بات بھی نہیں سن سکتا۔ پھر وہی مسئلہ ، قوت ِ سماعت کی کمزوری بھی اس عمر کا امتیازی نشان ہے۔درحقیقت اپنی لاابالی جوانی میں کیے گئے کاموں کی فہرست طویل ہے لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ''دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘۔ جب پرانے دوستوںسے ملاقات ہوتی ہے تو گفتگو کا موضوع بیماری کی علامات اور نئی طبی ایجادات کی خبریں ہوتا ہے۔ میرا 'ان باکس‘ صحت ،خاص طور پر بڑھاپے کو بھگانے والی ادویات کی تیاری، کے بارے میں خبریں وصول کرتا رہتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ انسان عمر کو طویل کرنے کے لیے کتنی جدوجہد کررہا ہے۔یہ اچھی خبرسہی لیکن میرا نہیں خیال کہ ایک خاص
مقام کے بعد زندگی کی کوالٹی متاثر کن اور دل پذیر رہ سکتی ہے۔ اگر انسان بنیادی ضروریات کے لیے دوسروں کا محتاج رہتا ہے توکیا اس کے لیے زندگی میں خوشی کی کوئی رمق ہوگی؟میرا خیال ہے کہ ہر شخص کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے کہ اُس کا ٹکٹ کب کٹنا ہے۔ اگر چہ زیادہ تر معاشرے انسان کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں لیکن میں اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔
Dignitas ایک سوئس تنظیم ہے جہاں آکر اپنی زندگی کے بوجھ، اگر اسے برداشت کرنا اب ممکن نہیں رہا، سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔ اس کا مستعدسٹاف اس ''کام‘‘ میں آپ کی مدد کرے گا۔تاہم ایسی مدد صرف سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے، دنیا کاکوئی اور ملک اتنا لبرل نہیں۔ انگلینڈ میںاس بات پر بحث جاری ہے کہ ایسے افراد کوزندگی کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے جن کی بیماری انتہائی تکلیف دہ ہے اور ان کے اب صحت یاب ہونے کاکوئی امکان نہیں۔ چند سال پہلے میں نے بے بسی سے دیکھا تھا کہ میرے قریب ایک شخص دوہفتوں تک جان بچانے والی مشین پر موت وحیات کی کشمکش کے درمیان رہا اور اس کے جانبر ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جب اُس کے اہل ِخانہ نے ڈاکٹروںسے التجائیں کیں کہ اُس کو اس کرب سے نجات دلا دی جائے (اس کے لیے اُنہیں صرف کچھ ٹیوبیں کھنچنا تھیں) تو اُن کا جواب تھا کہ اخلاقی ذمہ داری اُنہیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ایسے حالات میں مریض اور اس کے اہل ِخانہ انتہائی تکلیف سے گزرتے ہیں۔ چند دن بعد اُس مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اُسے اتنے دن تک بلاجواز اذیت میں مبتلا رکھا گیا۔ یہ سوچ دل میں پیدا ہوتی ہے کہ اگر اُس کے جانبر ہونے کے امکانات نہ تھے تو معاشرہ اور ڈاکٹر اس کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرتے ہوئے اُسے اس اذیت سے نجات دلاسکتے تھے۔ یقینا جنوبی ایشیا ،جہاںیہ اخبار پڑھا جائے گا، میں زیر ِ بحث لانے کے لیے یہ ایک مشکل موضوع ہے۔ فی الحال ہم اس پر بات بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوںگے ۔جب صدیاں پہلے اہم مذاہب وجود میں آئے تو زیادہ تر عام افراد کی زندگی جنگ وجدل کی نذر ہو کر ادھوری رہ جاتی تھی۔ اس کے علاوہ زیادہ تربیماریاں لاعلاج تھیں اور جسم کے جو حصے ناکارہ ہوجاتے تھے، ان کا کوئی متبادل نہ تھا، لیکن اب میڈیکل کے شعبے میں ہونے والی ایجادات اور دریافتوں کی وجہ سے انسانی عمر اور صحت کے معیار میں اضافہ ہوچکا ہے۔ مغربی معاشروں میں افراداسی سال تک اچھی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ تاہم اس طویل عمر کابوجھ اُس شخص اور معاشرے کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ طبی سہولیات کے ذریعے معمر افراد کو زندہ رکھا جاتاہے لیکن ان کی زندگی کی کوالٹی میں بہت فرق آجانالازمی ہے۔ صنعتی معاشروں میں صحت عامہ پر بہت زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس وقت برطانیہ معمر افراد پر سالانہ دس بلین پائونڈ خرچ کررہا ہے۔
اب جس طرح کینسر کا علاج ممکن ہوچکاہے،اور جسم کے اعضا کی پیوندکاری بھی ممکن ہے تو زندگی کی طوالت میں اضافہ لازمی ہے۔تاہم یہ علاج بہت مہنگا ہے اور تمام افراد اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ چنانچہ جلدہی انسانیت کو دوگروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔۔۔ وہ دولت مند جودیر تک زندہ رہناچاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی کی ڈور جلد لپیٹ دی جائے۔ تاہم جس دوران ہم اس دنیا سے اپنی مرضی سے جانے کے موضوع پر بات کررہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر زندگی کے آخری لمحے تک زندہ رہنا چاہتے ہیں، چاہے اُنہیں مرنے کے بعد کی خوبصورت زندگی پر یقین ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عقیدے کے ہوتے ہوئے موت کو اتنا خوفناک نہیںہوناچاہیے۔ جہاںتک میرا تعلق ہے تو میں خوش ہوں کہ چوراسی برس کی عمر میں بھی کافی حدتک فٹ ہوں۔ اور ہمارا پفن، چلیں گلہری پکڑنہ سکا، اُس کے پیچھے بھاگا تو سہی۔ یہ بھی غنیمت ہے۔