جب تین دائود بہنوں نے برطانیہ میں اپنے شوہروں کو چھوڑ کرداعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے شام کی راہ لی تو برطانیہ بھر کے اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخیوں میں شائع کیا۔ سیاست دان، سیاسی تجزیہ کار اور سماجی علوم کے ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ کس طرح نو بچوں (جن کی عمریں تین سے پندرہ سال کے درمیان ہیں) کی مائیں ایسا قدم اٹھا سکتی ہیں کہ وہ دنیا کے محفوظ ترین اور انتہائی لبرل معاشرے کو چھوڑ کر انتہائی عدم برداشت رکھنے والے خطرناک خطے کی طرف روانہ ہوجائیں۔پاکستانی نژاد تینوں شوہروں کو متعدد بار ٹی وی پر دکھایا گیا۔ وہ بھیگی آنکھوں سے اپنی بیگمات سے التجا کررہے تھے کہ وہ گھر لوٹ آئیں۔ کالم نگاروں اور ادارتی نوٹ لکھنے والوں نے صفحات کے صفحات سیاہ کرتے ہوئے اپنے قارئین کو سمجھانے کی کوشش کی کہ سینکڑوں برطانوی شہری اپنے پرسکون گھروں کو چھوڑ کر داعش میں شامل ہونے کے لیے شام کیوں جارہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ‘ جن کے شہری فضائی سفر کرتے ہوئے تر کی اور پھر وہاںسے زمینی راستے کے ذریعے شام میں داخل ہورہے ہیں، میں بھی یہی سوال پوچھا جارہا ہے۔ اگرچہ آج کل ترکی جہادی بننے کے آرزومندوں کو روکنے کی کوشش کررہا ہے لیکن چند ماہ پہلے تک ایسی کوئی روک ٹوک نہ تھی اور ایسے لوگ آرام سے سرحد پار کر لیتے تھے۔بہرحال یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکی شام میں لڑنے والے انتہا پسندوں کی کسی نہ کسی طور پر حمایت کررہا ہے۔
بے چینی کے عالم میں یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ داعش کے دستوں میں شامل ہونے والے یورپی مسلمانوں کی وجہ سے ان ممالک میں دہشت گردی کے حملوںکا خطرہ کس حد تک بڑھ چکا ہے؟خدشہ ہے کہ شام جانے والے یورپی شہریوں میں سے اگر کچھ زندہ بچ کر لوٹ آئے تو وہ اپنے اپنے ممالک کی سکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ بن جائیں گے۔ چونکہ وہ تربیت یافتہ اور انتہائی جنونی جہادی بن چکے ہوں گے ، اس لیے وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ایسے بہت سے افراد کو واپس لوٹنے پر برطانیہ میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انہیں انسداد ِ دہشت گردی کے سخت قانون کے تحت مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا۔
تیزو تند کالم لکھنے والے روڈ لیڈل(Rod Liddle)، جن کا تعلق دائیں بازو سے ہے، نے سپیکٹیٹر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں ایک پندرہ سالہ لڑکی، عمیرہ عباس (Amira Abase)کے بارے میں لکھا جو گزشتہ فروری کو اپنی دودوستوں کے ہمراہ لندن سے فرار ہوکر شام چلی گئی تھی۔ اُس کے والد حسن عباس، جو ایتھوپیا سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے،نے پولیس کو مورد ِ الزام ٹھہرایا کہ اُس نے گٹ وک ائیرپورٹ پر اُس کی بیٹی کو نہیں روکا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے دو ایسے جلسوں میں شرکت کی تھی جن کا اہتمام ایک انتہا پسند گروہ، المہاجرون ، نے کیا تھا۔ حسن عباس کی تصویر بھی دکھائی دی جب وہ ریلی میں شامل ہوکر امریکی پرچم جلارہا تھا۔ لیڈل لکھتے ہیں کہ حسن عباس ایسی ہی دوریلیوں میں اپنی نوعمر بیٹی عمیرہ کو بھی ساتھ لے کر گیا تھا۔ لیڈل کے بقول۔۔۔'' حسن کا تعلق ایتھوپیاسے ہے اور وہ یقینی طور پر بے روزگار تھا۔ وہ اس ملک میں آزادی اور جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے آیا تھا۔ اُسے اور اُس کے خاندان کو برطانوی ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سے سبسڈی دی گئی۔ اس احمقانہ،بلکہ پاگل پن قراردی جانے والی فیاضی کا صلہ اُنھوں نے یوں دیا کہ اُنھوںنے اس معاشرے کو تہذیب کی تباہی کی علامت قرار دینے والوں کی آواز کے ساتھ آواز ملانا شروع کردی۔ اس طرح حسن اور اُس جیسے بہت سے ہمارے پیسوں پر پلتے ہوئے ہماری مکمل تباہی کا سامان کرنے کے لیے آتے ہیں۔‘‘ایک اور کالم میں لیڈل کا کہنا ہے کہ داعش کے لیے لڑنے والوں کو واپس برطانیہ آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ بہت سے لبرل افراد بھی اس موقف کے ساتھ متفق دکھائی دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں تیونس کے ساحل پر تفریح کرنے والوں پر حملے، جن کے نتیجے میں چالیس کے قریب افراد ہلاک ہوئے، کے بعد داعش کے تربیت یافتہ افراد کی کارروائیوں کا خطرہ اور خوف بڑھ گیا ہے۔
اس موضوع پر سوچاجارہا ہے کہ مڈل کلاس برطانوی مسلمانوں کے لیے داعش کی دہشت میں کیا کشش ہے؟دکھائی یہی دیتا ہے کہ سیاہ یونیفارم میں ملبوس ، ہاتھ میں کلاشنکوف لیے مغرب اوراس کے عرب اتحادیوںسے لڑنے والے نوجوانوں کی تصاویر بہت کشش رکھتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر ایسی ہیجان خیز تصاویر ،ویڈیوز اور متعدد نوعمر لڑکیوں کو بطور بیوی حاصل کرنے کی توقع یقینا نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بڑھا دیتی ہے۔ایسے امکانات اُن نوعمر لڑکوں کو بہت بھاتے ہیں جو یورپی معاشرے میں گرلز فرینڈز تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
لڑکیوں اور ہتھیاروں میں لڑکوں کو کشش ایک طرف، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان عورتیںداعش کی صفوں میں کیوں شامل ہو رہی ہیں؟ایک صحافی ، جس نے بہت سی ''جہادی دلہنوں ‘‘ سے انٹرویو کیا ہے، کا کہنا ہے کہ والدین یا شوہروں کی طرف سے کی جانے والی سختی گھر سے بھاگنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ مثال کے طور پر دائود سسٹرز برطانیہ میں پیدا ہوئیں لیکن اُن کی شادی والدین کی مرضی سے پاکستانی مردوں سے کی گئی۔ اس میں ان کی پسند شامل نہ تھی۔ دوسری طرف داعش دیگر اسلامی معاشروں کے برعکس عورتوں کو آسانی سے طلاق کا حق دیتی ہے۔ برطانیہ میں مقیم قدامت پسند مسلمان خاندان معاشرے سے دور رہتے ہوئے اپنی لڑکیوں کو یہاں میسر سماجی آزادی سے محروم کردیتے ہیں۔ اس لیے مردوں اورعورتوں، دونوں کے لیے داعش ایک ''مساوی اور منصفانہ معاشرے‘‘ کا وعدہ کرتی ہے۔
جب ایک مرتبہ داعش میں شامل ہوجائیں تو پھر وہاں سے واپس آنا آسان نہیں۔ رپورٹس کے مطابق چارسو کے قریب ایسے یورپی رضاکاروں کو داعش کے جنگجو ہلاک کرچکے ہیں جو بھیانک حقائق کاعلم ہونے کے بعد وہاں سے واپس اپنے ملکوں میں آنے کی کوشش میں تھے۔ شام اور عراق سے آنے والی خون منجمد کردینے والی کہانیوں کے باوجود مغربی ممالک سے اُس طرف سفر کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شام کے اندھیروں میں کھونے سے بچائیں۔ اُنھوں نے ان کے دقیانوسی نظریات پر تنقید بھی کی۔ بہت سے لبرل مبصرین نے برطانوی وزیر ِ اعظم کو اس تقریر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر یورپی مسلمان نوجوان داعش میں شامل ہونے کے لیے جارہے ہیں تو اس میں بنیادی قصور ان کے اہل ِخانہ کاہی ہے، لیکن درحقیقت ان نوجوانوں، جو اسلامی روایات سے نسبتاً دور ہوتے ہیں، کو داعش کی طرف سے ترغیب آن لائن ذرائع سے ملتی ہے اور ان کے والدین اور مقامی علماء کا اثر ان پر بہت کم ہوتا ہے۔ یہ رویہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے گھروالوں سے بغاوت کرکے نوجوان جرائم پیشہ گروہوں میں شامل ہوجائیں۔ گزشتہ چند برسوںسے برطانیہ ''Prevent‘‘ کے نام سے ایک مہم چلارہا ہے جس کا مقصد نوجوان مسلمانوں کو انتہا پسندی سے بچانا ہے۔ اس پر لاکھوں پائونڈزخرچ کیے جارہے ہیں لیکن فی الحال کسی خاطر خواہ کامیابی کی شہادت نہیں ملی۔ بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش ِنظر امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی طرز پر بنائے گئے برطانوی GCHQ کے ذریعے آن لائن پرائیویسی میں نقب زنی ناگزیر ہوجائے گی۔ بہرحال داعش کے پرتشدد کھیل اور اس میں برطانوی مسلمانوں کی شمولیت کی وجہ سے یورپ میں مسلمان تارکین ِوطن کی پوزیشن مزید خراب ہورہی ہے۔