جب دہشت گردوں نے سوسہ (Sousse) کے ایک تفریحی مقام پر اڑتیس غیر ملکی سیاحوں کو ہلاک کر دیا تو تیونس کی حکومت نے انتہا پسندی پھیلانے کی پاداش میں 80 مساجد کو بند کر دیا۔ برطانوی ہوم سیکرٹری تریسا مے تیونس گئیں جہاں غیر ملکیوں کو‘ جن میں زیادہ تر برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے‘ ہلاک کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے تیونس کے ہم منصب سے مستقبل میں درکار سکیورٹی انتظامات پر بھی بات چیت کی۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ایک بڑی ٹیم جرم کی تحقیقات کے لیے وہاں گئی اور ڈیوڈ کیمرون نے کئی گھنٹے ہائوس آف کامنز میں گزارے اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا اعلان کیا۔ اُنہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اُن کی حکومت اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کرے گی۔ ان اقدامات میں پولیس میں کمانڈو دستے قائم کرنا بھی شامل ہے تاکہ ممبئی اور نیروبی طرز کے حملوں کا تدارک کیا جا سکے۔ لندن کی گلیوں میں بھرپور مشقیں کی گئیں تاکہ پولیس فورس کے ردِعمل کا جائزہ لیا جا سکے۔
میں یہ احساس دلانے کے لیے کچھ مثالیں اس لیے دے رہا ہوں تاکہ دیکھا جا سکے کہ زندہ اور مہذب ریاستیں اپنے شہریوں کو منظم دہشت گردی اور وحشت سے بچانے کے لیے کیا کرتی ہیں۔ تیونس اور برطانیہ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، اور ان کی تیاری کا یہ عالم ہے کہ وہ انتہا پسندوں کو روکنے کے لیے بھرپور قومی تیاری کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں نے پچاس ہزار سے زائد افراد کو خون میں نہلا دیا اور ابھی تک ہم تذبذب کے عالم میں ہیں۔ روایتی سستی، غفلت، خوف اور سیاسی عزم کا فقدان غالب ہے۔ فوج واحد ادارہ ہے‘ جو دوٹوک انداز میں جرأت اور حوصلے کے ساتھ طالبان کے خلاف آپریشن کر رہا ہے۔ جہاں تک دیگر اداروں کا تعلق ہے، اب تک نیشل ایکشن پلان مرحوم و مغفور ہو چکا اور احباب نے جتنا پلائو کھانا تھا‘ وہ کھا کر فارغ ہو چکے ہیں۔
جہاں تک وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزیرِ داخلہ کا تعلق ہے، وہ اب تک انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے سربراہ ہی مقرر نہیں کر پائے۔ 2009ء میں قائم کی گئی اس اتھارٹی کو 2013ء میں فعال کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا‘ لیکن آج تک یہ ایک بے کار اور بے مقصد ادارہ ہے۔ اس سے عملی طور پر ایک تنکا بھی دہرا نہیں ہو سکتا، یہ دہشت گردوں کے خلاف کیا کرے گی۔ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دیتے ہوئے فیصلہ کیا کہ 140 سے زائد بچوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور بلند بانگ دعوے کیے گئے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ ایک دعویٰ یہ بھی تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث تمام گروہوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے گی اور اُنہیں کسی بھی دوسرے نام سے کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں مذہبی جہادی کلچر اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے مدرسوں کو کنٹرول کیا جائے گا، انہیں ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ کا راستہ روکا جائے گا جبکہ دہشت گردوںکو سزا دینے کے لیے عدالتی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔
یہ پلان چھ ماہ پہلے بنا تھا‘ لیکن اسے سنجیدگی سے نافذ کرنے کے لیے آج تک کچھ نہیں کیا گیا۔ پشاور حملے کے بعد کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے 24 دسمبر 2014ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہمیں تیزرفتاری سے کارروائی کرنی ہے، جس پلان پر ہم متفق ہوئے ہیں اسے فوراً عملی شکل دینی ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے اور ہم اس ملک سے دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیںگے‘‘۔ وزیر اعظم کو یہ دلیرانہ الفاظ ادا کیے چھ ماہ گزر چکے‘ لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔ پولیس کے جوان اور عام شہری انتہا پسندوں کا نشانہ بن رہے ہیں (تعداد میں کچھ کمی ضرور واقع ہوئی لیکن دہشت گردی اور اسے مہمیز دینے والے انتہا پسند نظریات کا خاتمہ ابھی دور کی بات ہے) وزیر اعظم کی طرف سے واضح اور فوری اقدامات سے مراد یقیناً کچھ اور ہو گی۔ ہو سکتا ہے، ان کے نزدیک اس سے مراد تیزی سے پل، ایکسپریس وے اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل ہو، لیکن قوم اسے دہشت گردی سے نجات کا مژدہ سمجھ بیٹھی۔ بہرحال، اب غلط فہمی دور ہو چکی ہے۔
جن اقدامات کا وزیر اعظم نے چھ ماہ پہلے خود اعلان کیا تھا، وہ ان سے قدم پیچھے کیوں ہٹا رہے ہیں؟ یقیناً ان کا دل سخت فیصلے کرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف اُن کے وزیرِ داخلہ ایک ایسے شخص ہیں جن کے مقدر نے جب اُنہیں سکندر کے روبرو کیا تو موصوف چشمہ ٔ حیواں میں پانی کے گلاس گننے لگے۔ پشاور سکول پر حملے سے پہلے وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کے سب سے بڑے حامی تھے۔ پوری قوم کہہ رہی تھی کہ یہ صحرا کی ریت چھاننے کے مترادف ہے لیکن وہ بضد رہے کہ بم بردار دستے باتوں سے ہی رام ہو جائیں گے۔ عقل اور عزم کے اسی معیار کے ساتھ اب وہ دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہیں۔
اگرچہ کراچی میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کا ملک میں خیر مقدم کیا گیا اور اس میں کچھ کامیابی بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن جنوبی پنجاب اپنی جگہ پر موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ صوبہ شریف برادران کا حلقہ ٔ انتخاب ہے، اس لیے اسے استثنا حاصل ہے؛ تاہم سب سے اہم سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ تعلیمی نصاب سے نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی کی بات کریں تو سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں۔ اور تو اور اپنی تمام روشن خیالی اور طاقت کے باوجود مشرف بھی یہ کام نہیں کر سکے تھے، اس لیے وزیر اعظم نواز شریف اور چودھری نثار علی کو مدرسوں میں اصلاحات سے معذور سمجھا جائے۔
ترکی میں علما کو طے شدہ خطبے دیے جاتے ہیں‘ جو وہ نماز جمعہ سے پہلے پڑھ دیتے ہیں۔ وہ سرکاری ملازم ہیں اور وزارتِ مذہبی امور اُنہیں امتحان لے کر ملازمت دیتی ہے۔ کوئی مسجد سے پیسہ کمانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف پاکستانی ہر طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ بہت سے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ انتہا پسندی اور جہادی کلچر کو صرف مسلح افواج شکست نہیں دے سکتیں، اس کے لیے سیاسی قیادت کو سخت فیصلے کرتے ہوئے بنیادی فکری اصلاحات لانی چاہئیں۔ پاکستان میں یہ رائے پروان چڑھ رہی ہے کہ تمام اداروں کو ضروری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ وقتی روپوشی کے بعد طالبان پھر سر اٹھانا شروع ہو جائیں گے اور پاکستانیوں کا خون بہتا رہے گا۔