سکرین کا نشہ

پہلا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر جو میں نے کوئی تیس سال پہلے استعمال کیا، و ہ IBM-PC-AT تھا۔AT سے مراد''ایڈوانس ٹیکنالوجی‘‘ تھا اور اس کی رفتار6Mhz تھی۔ اُس وقت انتہائی تیز رفتاردکھائی دینے والی یہ مشین آج سکوت کا مظہر دکھائی دیتی ہے۔ آج کے معمولی اورکم قیمت سیل فونز بھی اس سے کہیں زیادہ تیز ی سے کام کرتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ترقی کے حوالے سے گزشتہ تین عشروں نے صدیوں پر محیط کام کیا ہے۔ اس دور نے دیکھا ہے کہ ہم کس طرح سکرینوں پر ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں اور ہر کام کے سلسلے میں کمپیوٹر پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ اس کے بغیر آج زندگی کا تصور بھی محال دکھائی دیتا ہے۔ 
میرے پوتے دانیال اور سلیمان نے‘ جن کی عمریں بالترتیب آٹھ اور پانچ سال ہیں‘ انہی مشینوں کو استعمال کرتے ہوئے ہوش سنبھالا ہے۔ تین سال کی عمر میں سلیمان کو سکائپ پربات کرنے کا علم تھا۔ دونوں بھائیوں نے ابھی چلنا بھی نہیں سیکھا تھا جب وہ اپنے باپ کے آئی فون کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا شروع ہوگئے تھے۔ ایک طرف تو میں خوش ہوںکہ وہ جدید ٹیکنالوجی سے آشنا ہیں تو دوسری طرف مجھے فکر لاحق ہے کہ ''سکرین ٹائم‘‘ اُن کی نشوونماکو کس حد تک متاثر کرے گا۔ بہت سی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں کیے گئے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ آٹھ سے دس سال کی عمر کے بچے اوسطاً آٹھ گھنٹے یومیہ کسی نہ کسی سکرین کے سامنے گزارتے ہیں۔ ٹین ایج میں یہ اوسط گیارہ گھنٹوں تک جا پہنچتی ہے۔
بہت سے جوان بھی سکرین کے سامنے کم وقت نہیں گزارتے۔ زیادہ تر لوگ اپنے ٹیبلٹس پر ہی مطالعہ کرلیتے ہیں ۔ ان کا بہت سا وقت ایک دوسرے کے ساتھ پیغام رسانی میں بسر ہوتا ہے۔ جرسی کے چند ایک گھروں میں‘ جہاں میرا آنا جانا ہے‘ شائع شدہ کوئی کتاب نہیں، وہ سب الیکٹرانک ریڈرز بن چکے ہیں۔ لندن کی ٹیوب ٹرین میں، میں دیکھتا ہوںکہ اکثر مسافر یا تو کانوں میں ہیڈ فون لگائے موسیقی سن رہے ہوتے ہیں یا سیل فونز پر گیمزکھیل رہے ہوتے ہیں۔ شہر میں چلتے ہوئے بہت سے افراد کان میں بلیو ٹوتھ لگائے کسی سے بات کر رہے ہوتے ہیں، یا چلتے ہوئے سر جھکا کر کسی کو ٹیکسٹ میسج کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے اردگرد کی دنیا سے بے خبرہوتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ مجھے طرزِ کہن پہ اَڑنے کا طعنہ سننے کو ملے، مجھے کہنے دیجیے کہ میں نئی ایجادات اور ان کے استعمال کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں خود کو نئی سائنسی پیش رفت سے ہم آہنگ رکھتا ہوں۔ میں کئی عشروںسے کمپوٹر استعمال کررہاہوں ، لیکن میں نے اسے ہمیشہ لکھنے، تحقیق کرنے اور پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ میں اپنے آئی پیڈ پر برج کھیل لیتا ہوں لیکن میں مجموعی طور پرکمپیوٹر گیمزمیں‘ جو بلاشبہ پرکشش ہوتی ہیں‘ ڈوبے رہنے کو وقت کا ضیاع سمجھتاہوں۔ ایسی ہی ایک آن لائن گیم ''ورلڈ آف وار کرافٹ‘‘ ہے جسے ہر وقت دنیا کے لاکھوں افراد کھیلتے رہتے ہیں۔ کھلاڑی جتنے دشمنوںکو ہلاک کرتے ہیں، اُنہیںاس کاانعام ملتا ہے۔ آپ کے سکور کردہ پوائنٹس آپ کی آن لائن حیثیت کا تعین کرتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں کچھ لوگ ان پوائنٹس کے عوض رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک طرح کی ''گھریلو صنعت ‘‘ ہے جس کے ذریعے کچھ لوگ رقم بھی کما سکتے ہیں۔
اگرچہ ایسی تمام گیمز لطف کے لیے کھیلی جاتی ہیں لیکن ان کے نشہ آور اثر ات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جب میں یہ سوچتا ہوں کہ لاکھوں افراد ایسی گیمز میں مگن رہتے ہیں تو میں حیران ہوتا ہوں کہ وہ اس دنیا سے باہر نکل کر دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کیسے کریں گے؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ان کے سامنے موجود سکرین ہے اور تمام زندگی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اگرچہ ویڈیو گیمز کچھ ذہنی فعالیت میں اضافہ بھی کردیتی ہیں، لیکن وہ عادی کھلاڑیوں کو دنیاوی مسائل پر گہرا غور وخوض کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہیں۔ ان کی وجہ سے دیگر انسانوں کے ساتھ تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ اگر تعلقات مکمل طور پر منقطع نہ ہوں توبھی ان میں گہرائی اور انسیت باقی نہیں رہتی۔ انگلینڈ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق بیس سے تیس سال کے مردوں کی اکثریت نے کہا کہ وہ سیکس کے بغیر تو رہ سکتے ہیں لیکن اپنے سیل فون اور لیپ ٹاپ کے بغیر نہیں۔
بہت سے والدین ٹیلی ویژن اور ویڈیو گیمزکو بچوں کو بہلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ بچوں کا جی اُن میں لگا رہے اور والدین کو ان پر زیادہ وقت دینے اوران کے ساتھ کھیلنے کی ضرورت پیش نہ آئے کیونکہ وہ دن بھر کام کاج کے بعد تھکے ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین ِ اطفال کا کہنا ہے کہ والدین کا بچوں کے ساتھ اچھی طرح وقت گزارنا ان کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مجھے سوتے وقت بستر پر لیٹ کر کہانیا ں سنانے کا زمانہ یاد ہے۔ میں اپنے بیٹے شاکرکو جانی پائلٹ کی کہانی سنایا کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا جو میں نے گزارا۔ بستر پرلیٹ کر ایک باپ کا اپنے بیٹے کو کہانی سناناایسی نعمت ہے جس سے ہمیں سکرین نے محروم کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ اب زندگی بے حد مصروف ہوگئی ہے، لوگ دیر تک کام کرتے رہتے ہیں اور پھر زندگی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ماں اور باپ، دونوںکو کام کرنا پڑتا ہے، اس میں بچوں کاکوئی قصور نہیں اور نہ ہی اُنہیں سکرینوں کے حوالے کیا جاناچاہیے۔ اور پھر سکرین سے وہ مزہ بھی نہیں آتا جو بچوں کوکمر پر بٹھا کر گھوڑے کی طرح چلنے یا ان سے توتلی زبان میں باتیں کرنے میں آتا ہے۔
ویڈیو گیمز کی وجہ سے نفسیاتی عارضے بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ پُرتشدد گیمز بچوں میں اذیت کا احساس ختم کردیتی ہیں۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل نوعمرافراد اندھا دھند فائرنگ کرکے لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں، اُن میں سے کچھ کے پیچھے ویڈیو گیمز کی کارفرمائی ضرور ہوگی۔ اگر نوعمر لڑکے اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں (اور یہ بڑی بات ہوگی) تو مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے ایک اکتایا ہوا بوڑھا اور قنوطی شخص سمجھیںگے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سکرین کا نشہ بچوں کو خراب کررہا ہے۔ اگر والدین سوچیں تو یہ آج اُن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یقیناً انٹر نیٹ معلومات کا بہت بڑا ذریعہ ہے، لیکن یہ تنقیدی سوچ اور تجزیاتی صلاحیت پیدا نہیںکرتا۔ ہم بغیر سوچے سمجھے بہت سے حقائق کو جان لیتے ہیں، لیکن ہم ان کا تجزیہ نہیں کرپاتے۔ انٹرنیٹ سے قطع تعلق بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ بڑے لوگ تو سوچ سکتے ہیں کہ کیا چیز درست ہے اورکیا غلط لیکن بچوں کو یہ بات کو ن سمجھائے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں