عرصہ ہوا پاکستان عالمی میڈیا کی خبروں میں موجود نہیں اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم سوچتے ہیں کہ خبروں کا حصہ نہ بننا اچھی خبر نہیں۔ کئی برسوںسے بیرونی دنیا سے پاکستان سے متعلق کوریج تکلیف دہ مناظر اور واقعات سے لبریز ہوتی تھی۔ ٹی وی نشریات میں خود کش حملوں کی تصویریں، بہتا ہوا خون ، لاشیں اور زخمی دکھائی دیتے تھے۔ واشنگٹن سے وارسا تک کے سیاسی پنڈت بطور ریاست پاکستان کے یقینی طور پر تباہی سے دوچار ہونے کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ بہت سے نام نہاد دفاعی تجزیہ کاروں کو ہمارے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جاتے دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کی گراوٹ ، ہمارے زرِ مبادلہ کے سکڑتے ہوئے ذخائر اور گرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ ہمارے راتوں رات دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ظاہرکرتی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ کی ایگزیکٹو اتھارٹی میں مسلسل مداخلت کی مثال دے کر پاکستانی ریاست کے غیر فعال ہونے کی بات کی جاتی۔ عمرا ن خان کی طرف سے حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے احتجاجی سیاست‘ ملک میں ایک اور مارشل لالگانے کی کوشش سمجھی جاتی۔ بدتر یہ کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھی مسلسل ہار رہی تھی۔
یہاں مجھے اعتراف کرنے دیجیے کہ میں بھی اسی گروہ میں شامل تھا کیونکہ میں ایک پیشہ ور صحافی ہوں اور مجھے اپنے قارئین تک بات پہنچانی ہوتی ہے۔ چند سال پہلے تک اس دیس سے چونکہ کوئی خیر کی خبر نہیں آتی تھی ، اس لیے میرے قلم نے بھی قارئین تک افسوس ناک خبریں ہی پہنچائیں۔ یہ وقت وہ تھا جب جہادی دستے اپنے شکاروں کے گلے کاٹ رہے تھے اور ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ پی ایم ایل (ن) کی نئی منتخب حکومت بے عملی کا مظہر تھی۔ سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ پلنے والے مافیاز کے ہاتھوںکراچی لہولہان تھا تو پی پی پی کی صوبائی حکومت خاموشی سے لوٹ مار میں اس طرح مگن تھی کہ تن من کا ہوش تک نہ تھا۔
پھر حیرت انگیز تیزی سے بربادی کی لہر نے پلٹا کھانا شروع کیا۔ مایوسی کے سیاہ بادل چھٹنے لگے اور کراچی میں رینجرز کے آپریشن نے جرائم پیشہ عناصر پر بہت مضبوط ہاتھ ڈالا۔فوج نے قبائلی علاقوں میںجہادی دستوں کا صفایا شروع کردیا۔اس کے ساتھ ہی معاشی راہداری کی تعمیر کے لیے چین سے 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید سنائی دی۔ یہ سرمایہ کاری گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ زر ِمبادلہ کے ذخائر اٹھارہ بلین ڈالر تک پہنچ گئے، سٹاک مارکیٹ سے بھی اچھی خبریں آنے لگیں۔ اس دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہوگئی۔ ان اچھی خبروں کے دوران یہ ہرگز نہ بھولیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے سری لنکا کو ان کے دیس میں شکست دی۔ دوسرا ٹی20 ملک کے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں بہت کچھ کہتا دکھائی دیا۔ حالیہ دنوں پے در پے آنے والی اچھی خبروں میں ایک انتہا پسند کی اپنے ساتھیوں سمیت ہلاکت کی خبر بھی شامل ہے۔ انتہا پسند گروہ کے لیڈر کے ہاتھ پر سیکڑوں افراد کا خون تھا۔ وہ اس انجام کا بجاطور پر مستحق تھا۔ اسی طرح سانحہ صفورا گوٹھ میں درجنوں معصوم شہریوں کو ہلاک کرنے والا گروہ بھی پکڑا گیا جس نے سعد عزیز اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا بھی اعتراف کیا ۔
کیا ہماری قسمت کے ستارے عروج پر ہیں؟ ایک منٹ ٹھہریں، اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی اچھی اور مثبت تبدیلیوں کی وجہ فوج ، سویلین حکومت اور عدلیہ کے درمیان نایاب ہم آہنگی ہے۔ دنیا کے ہمارے حصے میں یہ ایک نایاب پیشرفت ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہے۔ اسی طرح حالیہ دنوں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف کی گئی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ملک کے دونوں طاقتور اداروں کے درمیان ممکنہ تنائو کے تاثر کو ختم کردیا۔ تاہم ، جیسا کہ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں یہ مثبت تبدیلیاں اُن شخصیات کی مرہون ِمنت ہیں جو اپنے اپنے اداروں کی قیادت کر رہی ہیں۔ منزل کے حصول سے پہلے کوئی تبدیلی اس عمل کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے اور ہم ایک مرتبہ پھر تباہی کے گڑھے کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔
ہمیں جس سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے ، وہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف فاٹا میں انتہائی کامیاب فوجی آپریشن جاری ہے، لیکن انتہا پسندی پھیلانے والے زہریلے نظریات کا سدّ باب کرنا ابھی باقی ہے۔ یہ نظریات ہمارے بعض تعلیمی اداروں، مدرسوں ، مساجد اور میڈیا کے کچھ حلقوں کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں ان نظریات کے پھیلائو کو روکنے کے عزم کے باوجود اس ضمن میں بہت کم پیشرفت دکھائی دی ہے۔ ملک میں ان کے خلاف ایکشن تو ہو رہا ہے جن کے ہاتھ میں بندوق ہے ، لیکن جس نظریے نے اُن کے ہاتھ بندوق تھمائی اُس کے خلاف کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
کچھ دوسری ضروری طویل المدت اصلاحات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام اور صحت کی سہولیات عملی طور پر ناکارہ ہیں۔ ملک میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سب سے خطرناک بلکہ ان تمام مسائل کی وجہ تیزی سے اور بلاروک ٹوک بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔اس پر قابوپانے کا کوئی منصوبہ زیر ِ غور نہیں ۔ حکومتی اقدامات سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔ توانائی کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے ، اس کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں تعطل کاشکار ہیں۔ بلوچستان میں بے رحم شورش پسندی اور ریاست کی طرف سے اسے کچلنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال بہت زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ سندھ پرابھی تک پی پی پی کی کمزور، عمر رسیدہ اور ازکارفتہ قیادت براجمان ہے۔
دیکھیے، میں پھر دکھ بھری کہانیاں سنانے کی طرف آگیا ہوں، لیکن اگر ہم نے پاکستان کو امن اور خوشحالی کے راستے پر چلتا رکھنا ہے تو کچھ سنجیدہ نوعیت کے فیصلے کرنے ہوںگے۔ ان فیصلوں کے لیے ہمیں وسیع تراتفاق ِرائے کی ضرورت ہوگی۔
بے شک فوج نے دہشت گردوں کو شہ رگ سے پکڑ لیا ہے لیکن یہ معاشی اور سماجی محاذوں پر کچھ نہیں کرسکتی۔ ہمارے سامنے بہت بڑا مسئلہ مدرسوں کے نصاب کی اصلاح اور سکول کے نصاب کوجدید بنانا ہے؛ تاہم اس راہ پر ہمیں ایک طبقے کے شدید رد ِعمل کا اندیشہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کی سٹریٹ پاور میں اضافہ ہوچکا ہے، اگرچہ اسمبلی میں ان کی موجودگی برائے نام ہے۔ اپنی طاقت کے پورے عروج میں مشرف بھی مدرسوں کی اصلاح کے عزم سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اس مشکل کام کے لیے قوم میں اتفاقِ رائے کیسے پیدا کیا جائے؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ضیا دور سے انتہا پسندی کو فروغ دینے والے اس ملک میں کوئی سیاست دان بھی انتہا پسند طبقے سے ٹکرلینے کی جرأت نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں عقلی اور منطقی دلائل دینے کی گنجائش بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن کس نے کہا ہے کہ گلاس ہمیشہ بھرا ہواہونا چاہیے؟ آدھے گلاس سے بھی خوشی منائی جاتی ہے۔ چنانچہ آپ بھی نصف گلاس اٹھائیے اور خوشی کے لمحات کا لطف دوبالا کیجیے۔