چلیں ایک اور قدم اٹھانے میں کیا حرج ہے؟ پاکستانی اور بھارتی سینئر افسران کے درمیان اعلیٰ سطحی میٹنگ ہونے جا رہی ہے‘ جس پر شور و غل تو بہت ہے لیکن توقعات بہت کم۔ جس دوران سائپرس کے ادغام کے مسئلے پر ترکی اور یونان کے درمیان یہ احساس جاگزیں ہے کہ طرفین کے درمیان تنائو اور کشمکش کی گنجائش نہیں اور یہ طرز عمل دونوں کے لیے نقصان دہ ہو گا، پاکستان اپنے یک نکاتی ایجنڈے، کشمیر، پر لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں۔
بہرحال، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دفتر خارجہ نے اپنی روایتی دانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے مشیر برائے قومی سلامتی، سرتاج عزیز کی حریت رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کر ڈالا ہے۔ اس پیش رفت نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو مشتعل کرتے ہوئے سرتاج عزیز اور ان کے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوول کے درمیان دہشت گردی پر ہونے والی بات چیت کے امکانات کو دھندلا دیا۔ اس بات کی تفہیم کے لیے کسی کو عالمی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا حامل ہونے کی ضرورت نہیں کہ آپ ایک اہم ملاقات کے موقع پر اپنے میزبان کو زک پہنچانے کے لیے اپنی مرضی نہیںکر سکتے۔ جہاں تک بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق ہے تو انھوں نے یو اے ای کے حالیہ دورے کے دوران مشترکہ اعلامیے کے ذریعے پاکستان کو دفاعی قدموں پر لا کھڑا کیا۔ لیکن یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہم نے ہی اُنہیں اس وار کا موقع فراہم کیا تھا۔ ہم نے یمن جنگ میں سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی ایما پر اپنے فوجی دستے بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ اگرچہ میں اس عقل مندانہ فیصلے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بنائی گئی پالیسیوں اور کیے گئے اقدامات کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ مودی کے دورے کے دوران یو اے ای کی طرف سے بھارتی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی بات سننے میں آئی۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کو افغانستان تک زمینی راستہ فراہم کرنے سے انکار پر متبادل راستے تلاش کرنے کی کوشش میں اب بھارت ایران کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس کی چاہ بہار (Chabahar) بندرگاہ، جو خلیج فارس میں پاکستانی سرحد کے قریب ہے، کو جدید بنانے اور وسعت دینے کی پیش کش کر رہا ہے۔ تہران میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کو جبر و تشدد کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشمکش کی صورت میں ہمیں سعودی کیمپ میں سمجھا جاتا ہے۔ یہ عوامل نئی دہلی اور تہران کے درمیان بہتر اور قریبی تعلقات کا باعث بن سکتے ہیں۔
ڈان اپنے بیس اگست کے اداریے میں لکھتا ہے۔۔۔''پرانی دنیا سے باہر نکل کر اپنے خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھنا ہو گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے‘‘۔ کئی عشروں سے ہمارے سفارت کاروں کی سوچ کا محور مسئلہ کشمیر رہا ہے اور وہ آج بھی خطے کو اسی یک رنگی عینک سے دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت کوئی بھی ہمارے کشمیر موقف کا حامی نہیں، خود کشمیر ی بھی پاکستان کے ساتھ ملنے کے لیے تیار نہیں۔ جو گروہ کشمیر کے لیے ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں، وہ آزادی کے لیے ہیں، نہ کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے۔ اس کے باوجود ہمارے سفارت کار وہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔
اب جبکہ ایران ایک طاقت ور علاقائی کھلاڑی کے طور پر عالمی برداری میں ایک فعال ریاست کا کردار ادا کرنے جا رہا ہے، ہمیں تہران کے ساتھ قریبی روابط کی ضرورت ہو گی۔ افغانستان میں صدر اشرف غنی، جو کہ ایک عملیت پسند شخص ہیں، پر دبائو ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے سخت موقف اختیار کریں۔ ہماری مشرقی سرحد بھارت کے ساتھ مسلح تصادم اور کشیدگی کی تاریخ رکھتی ہے۔ اگرچہ ہمیں چین کا دوستانہ تعاون حاصل ہے، لیکن اُس کی طرف سے بھی ہمیں بارہا کہا گیا کہ ہم مسئلہ کشمیر کا عملی، نہ کہ جذباتی، حل تلاش کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کریں۔ درحقیقت اس نے اپنے طرز عمل سے ایک مثال بھی قائم کی جس پر ہم بھی عمل کر سکتے ہیں کہ اس نے تائیوان کے ساتھ اپنے مسائل کے باوجود تجارتی روابط قائم کیے ہیں۔
پوری دنیا میں بھارت کو ایک پُرکشش مارکیٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے کوئی ملک بھی اسے ناراض کرنا پسند نہیں کرتا۔ ایک اہم مارکیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت ایک مقبول تفریحی مقام بھی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا اس سے کوئی مقابلہ نہیں۔ ایک مرتبہ آئن سٹائن نے پاگل پن کی اس طرح وضاحت کی تھی۔۔۔ ''ایک ہی عمل کو دہراتے رہنا اور ہر بار مختلف نتائج کی توقع کرنا‘‘۔ ہم کشمیر پر ایک ہی عمل بار بار دہراتے ہوئے آئن سٹائن کے فارمولے پر پورا اترنے کی کوشش میں ہیں۔ اب تک ہمیں سمجھ آجانی چاہیے تھی کہ نہ تو ہتھیار اور نہ ہی سفارت کاری کشمیر پر موجودہ صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ پرویز مشرف نے بیک چینل سفارت کاری کے ذریعے کسی عملی حل کی طرف قدم بڑھایا تھا اور اس میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن پھر اُن کے خلاف چلنے والی تحریک اور اٹھنے والے سیاسی طوفان نے تمام معاملات چوپٹ کر دیے۔
اُس وقت سے لے کر اب تک طرفین کسی نئی سوچ، کسی تازہ خیال کو سامنے لانے سے قاصر ہیں۔ جس دوران انڈیا اپنی سفارت کاری کی سرحدیں وسیع کرتے ہوئے پاکستان کے روایتی دوستوں، ایران اور خلیجی ریاستوں، کو اپنے قریب لانے کے لیے کوشاں ہے، پاکستان روایتی سوچ کے دائرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی روایتی سوچ نے سیاست دانوں کے پر کاٹ رکھے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کا رویہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اُس کے سرکاری سطح پر اعتراف کہ وہ اُن دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے جو پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں، نے اُس سے اخلاقی جواز چھین لیا ہے۔ اب اس کے خلاف سرگرم عمل جہادیوں کی حمایت کرنے والوں کو بھی جواز مل گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے درمیان اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی چلتی رہے گی۔
اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف ذاتی طور پر بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنانے کے حق میں ہیں‘ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کی وجہ سے انڈیا کو ایف ایم این کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔ اس کے علاوہ ہم نے انڈیا کو افغانستان تک زمینی راستہ دینے سے بھی انکار کر دیا۔ بہرحال ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جس دوران ہم عشروں پرانے تصورات کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔