بلاول بھٹو زرداری اب کیا کھیل کھیلنے جا رہے ہیں؟ اگر اُن کے اب تک سیاسی ٹریک ریکارڈ کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اُن میں اُس شعلگی اور شعبدہ بازی کا فقدان ہے‘ جس کی وجہ سے اُن کی والدہ اور نانا بام عروج تک پہنچے۔ لیکن کہا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی سیاست میں نو وارد ہیں اور میرا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے حسن ظن رکھتے ہوئے اپنی غلطی کے بارے میں پُرامید رہنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ڈائریکٹر آف کمیونی کیشنز، الیسٹیئر کیمبل (Alastair Campbell) تھے‘ جنہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا: ''ہر بحران میں کوئی نہ کوئی موقع نکلتا ہے‘‘۔ مسئلہ صرف اسے تلاش کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔
پی پی پی کے بحران کی وجہ سندھ میں اس کی قیادت اور قیادت کے دست راست افراد کے خلاف رینجرز کا آپریشن ہے۔ قومی اسمبلی میں پی پی پی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور آصف علی زرداری نے اس پر مشتعل ہوتے ہوئے وزیر اعظم کو دھمکیاں دینے اور جوابی الزامات عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ درحقیقت زرداری صاحب نے اپنی پارٹی کے جیالوںکو حکم دیا ہے کہ وہ رہنمائوں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کے لیے نکل کھڑے ہوں‘ لیکن آصف زرداری الطاف حسین نہیں اور نہ ہی پی پی پی ایم کیو ایم ہے؛ چنانچہ جیالوں کو گلیوں میں آ کر احتجاجی معرکہ گرم کرنے پر آپ کو دم بخود ہونے کی ضرورت نہیں، اطمینان سے اپنی سانسیں بحال رکھیں۔ یہ خیال ہی مضحکہ خیز ہے کہ پارٹی کے جیالے زرداری کے دست راست، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کا خطرہ مول لیں گے۔ سابق صدر اس وقت میدان سے نہیں‘ بلکہ لندن کے کسی محفوظ مقام سے حکم صادر کرتے ہوئے جیالوں کے لیے طبل جنگ بجا رہے ہیں۔
پارٹی کے کچھ اور فعال بازوئوں، جو سندھ سے تعلق رکھنے والے سینئر سرکاری ملازمین ہیں، کی گرفتاریوں کے وارنٹ بھی جاری ہوئے ہیں۔ اُن میں سے کئی ایک روپوش ہیں جبکہ کچھ نے ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ حراست میں آنے کے بعد مینا کی طرح گانے لگیں گے۔ ڈاکٹر عاصم نے نغمگی شروع کر دی ہے۔ سکیورٹی ادارے واقعی اچھی دھنیں بجانا جانتے ہیں؛ چنانچہ آصف زرداری کو بجا طور پر خدشہ ہے کہ ان افراد میں سے بہت سوں کی انگلیاں اُن کی طرف اٹھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جارحانہ بیانات دے کر اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں ہیں۔
یہ ہے وہ بحران جس کا پی پی پی کو سامنا ہے، لیکن پھر اس میں سے کوئی موقع کیسے نکلتا ہے؟ موقع یہ ہے کہ بلاول سامنے آ کر اعلان کر دیں کہ چونکہ پارٹی کی سینئر قیادت مختلف قسم کے سنگین الزامات کی زد میں ہے، اس لیے وہ قیادت سنبھال رہے ہیں۔ پھر وہ اپنے والد بزرگوار کو کسی بیماری میں مبتلا بتا کر اُن کی غیر حاضری کا جواز پیش کریں۔ اس کے بعد وہ ان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں اور پارٹی کو جدید خطوط پر چلانے کا پروگرام پیش کریں۔ اس سے بلاول پر اپنے والد کو پیچھے ہٹا کر اُن کی جگہ لینے کا الزام نہیں لگے گا۔ یقیناً پارٹی کے کچھ سینئر رہنما اس ''شب خون‘‘ کی مخالفت کریں گے‘ اور یہ بات نوجوان بلاول کے حق میں بہت اچھی ہو گی کیونکہ اُنہیں بہت سے انکلز اور آنٹیز کا بھاری بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا۔ یہ وہی سینئر رہنما ہو سکتے ہیں‘ جنھوں نے اقتدار کی بہتی گنگا میں جی بھر کے ہاتھ دھوئے اور جن کی وجہ سے پارٹی کو بدعنوانی اور ناقص کارکردگی کے سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
جو قارئین ابھی تک پی پی پی کے لیے نیک تمنائیں رکھتے ہیں، شاید سوچیں کہ اس سے تو معاملات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں، لیکن اُنہیں سوچنا چاہیے کہ اس وقت پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ اپنی موجودہ ساکھ کے ساتھ یہ تو کسی دیہاتی کونسل کا الیکشن لڑنے کے بھی قابل نہیں۔ اس وقت بننے والے قومی منظرنامے میں یہ غیر اہم ہو چکی ہے۔ یہ اُس پیرِ ہشت پا کی طرح ہے جو سندباد کے کندھوں پر سوار ہو کر اُسے جکڑ لیتا ہے۔ سند باد کئی روز تک اُسے اپنی گردن پر اٹھائے پھرتا ہے، یہاں تک کہ اُسے اتارنے کے لیے کوئی تدبیر کرنا پڑتی ہے۔ جنرل ضیا اور ان کے چالاک وزیر اعلیٰ سندھ، جام صادق نے اسیّ کی دہائی میں پی پی پی کو توڑنے کی بہت کوشش کی، بہت سے ارکان اور حامی جیلوں میں ڈال دیے گئے، اُن پر تشدد کیا گیا، انہیں کوڑے مارے گئے، لیکن بے نظیر بھٹو زیر حراست رہنے کے باوجود یا بیرون ملک سے بھی پارٹی کو متحد اور فعال رکھنے میں کامیاب رہیں۔ بہت سے عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں بھی پارٹی کے ساتھ تھیں‘ مگر اب وہ دن جا چکے۔ برس ہا برس تک بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے آصف زرداری کی ساکھ سے خود پارٹی کے حامی اتنے شرمندہ ہو چکے ہیں کہ‘ وہ ان کا دفاع کرنے کے قابل نہیں۔ بہت سے لوگ اب بھی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اُن کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اُن میںسے بہت سے لبرل اور سیکولر نظریات رکھتے ہیں، اس لیے کسی اور پارٹی میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ کچھ نے پی ٹی آئی یا پی ایم ایل (ن) کی صفوں میں شمولیت اختیار کی ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ اب پی پی پی کو کبھی انتخابی کامیابی نہیں ملے گی۔
یہی وہ بحران ہے‘ جو بلاول کے سامنے امکانات کی کھڑکی کھولتا ہے۔ اگر وہ حوصلہ دکھاتے ہوئے پارٹی کے داغدار ماضی سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور ایک نئے پیغام کے ساتھ قوم کے سامنے جائیں، تو وہ نہ صرف پی پی پی بلکہ تمام قوم پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اس وقت ملک میں دو بڑی جماعتیں ہیں، پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی۔ دونوں ہی دائیں بازو کی قدامت پسند جماعتیں ہیں۔ ان کے انتخابی حلقے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ ایم کیو ایم سیکولر نظریات ضرور رکھتی ہے لیکن موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کا سندھ کے شہری علاقوں سے آگے نکلنا ممکن نہیں۔ یہاں سے بھی اس کے ووٹ بینک پر زد پڑتی دکھائی دیتی ہے۔
ان حالات میں ملک کو بائیں بازو کی ایک ترقی پسند جماعت کی ضرورت ہے۔ اگرچہ گزشتہ ایک ربع صدی سے پی پی پی تبدیل ہو چکی لیکن اس کا تشخص ایک سیکولر جماعت کے طور پر اب بھی برقرار ہے۔ اگر اصلاحی عمل کے ذریعے اسے پٹڑی پر ڈال دیا جائے‘ تو یہ اب بھی اُن افراد کی توجہ حاصل کر سکتی ہے جو دائیں بازو کی جماعتوں سے تنگ ہیں۔ اس وقت احتجاجی سیاست پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے‘ جس کی تمام تر توانائی کا دارومدار اس کے پُرکشش لیڈر پر ہے۔ یہ بلاول کے لیے ایک سنہرا وقت ہے۔ اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں تو وہ پی پی پی کے تن مردہ میں زندگی کی روح دوڑا سکتے ہیں۔ یہاں مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں بہت بڑی بات کر رہا ہوں، لیکن پھر تاریخ ایسے پُرعزم نوجوانوں سے بھری ہوئی ہے‘ جنہوں نے اپنے معمر والد کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا۔ کچھ نے تو ظالمانہ طریقے بھی استعمال کیے۔ بلاول بھی ایک دو راہے پر کھڑے ہیں... ایک طرف سُستی اور سیاسی منظرنامے سے صفایا ہے‘ تو دوسری طرف توانائی اور سیاسی حیات نو ہے۔ قوم انتخابات میں ووٹ بعد میں ڈالے گی، پہلا انتخاب بلاول کے سامنے ہے۔