پچا س کی دہائی میں جب ہم پیر س میں سکولوں میںزیر ِتعلیم تھے تو جس دن سکول کے کچن میں ایک حرام جانور کے گوشت کی ڈشز ہوتیں، مجھے اور میرے دوبھائیوںکو فرائی کیے ہوئے انڈوں کی ڈش ملتی۔ پچیس سال بعد جب میں پبلک فنانس پر ایک ایڈوانس کورس کررہا تھا تو میرا بیٹا ، شاکر، جس کی عمر اُس وقت پانچ برس تھی ،وہ اور اُس کی والدہ مجھ سے ملنے پیر س میں آئے ۔ ایک دن سیر کے دوران شاکر نے ایک کیفے میں ham sandwich کی طرف اشارہ کیا کہ وہ یہ کھانا چاہتا ہے تو اُ س کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں کھا سکتا کیونکہ ہمارے مذہب میں یہ گوشت منع ہے۔
تیز رفتاری سے پچیس برس کا ایک اور عرصہ بیت جاتا ہے، اور آج پورک(مسلمانوں کے لیے ممنوع گوشت)کھانے کا مسئلہ فرانس کا ایک اہم تنازع بن چکا ہے ۔ اس مرتبہ شہر کی دائیں بازوسے تعلق رکھنے والی بہت سی کونسلوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمان اور یہودی بچوں کوپورک ڈے پر کوئی ڈش الگ سے پیش نہیں کریں گے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ فرانس کے آئین کے سیکولرپہلو کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ آئین کے مطابق مذہب کو ریاست کے امور میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اگرچہ کونسلوں کے اس فیصلے کوآئین پر پابندی کا رنگ دیا گیا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے تارکین وطن سے تعصب اور فرانس میں دائیں بازوکے جذبات کے توانا ہونے کا اظہار ملتا ہے۔اگرچہ میرین لی پن کی جماعت ''نیشنل فرنٹ‘‘کا موقف بھی یہی تھا ، لیکن جس میئر نے''پورک یا کچھ بھی نہیں‘‘ کی پالیسی اپنائی و ہ نکلولس سرکوزی کی مرکزی جماعت ، رپبلکنز پارٹی سے تعلق رکھنے والے جین پال بینو تویو (Jean-Paul Beneytou)ہیں۔ یہ بات پریشان کن ہے کیونکہ سرکوزی اگلے انتخابات میں پھر صدر منتخب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
دراصل 1789ء کے انقلاب ِ فرانس کے بعد تخلیق ہونے والے آئین میں چرچ کو ریاست سے الگ کردیا گیا تھا۔ یہ دراصل چرچ کی طرف سے صدیوں تک طاقت، دولت اور اختیارات کے بے دریغ استعمال کے خلاف عوام کا آئینی رد ِعمل تھا۔ تاہم اب اس اصول کو دائیں بازو کی طرف سے ہی ایک ڈنڈے کے طور پرمسلمان تارکین ِوطن کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے خواتین کی طرف سے چہرے پر نقاب پہننا سیکولر قوانین کی پامالی قراردیا گیا تھا جبکہ سرکوزی حکومت نے عوامی مقامات پر برقع اور اس طرح کے تمام ملبوسات پر پابندی لگادی تھی۔ عدالت کی طرف سے اس پابندی کی حمایت نے اسے ایک قانون کا درجہ دے دیا۔دوسری طرف مذہبی امور پر نگاہ رکھنے والے ایک مورخ، ویلنٹائن ذوبر(Valentine Zuber)کا کہنا ہے۔۔۔''فرانس کا سیکولرازم یہ کہیںنہیں کہتا کہ تمام شہری ایک خوراک کھائیں، ایک لباس پہنیںاور ایک مشروب پئیں۔ یہ پابندی بذات ِخود سماجی آزادی کی نفی ہے۔‘‘Chilly-Mazarin کے ایک سکول کے ایک ہیڈ ٹیچر نے دی گارڈین کو بتایا،''سیکولرازم کا تعلق پورک سے نہیں،
دوسرے افراد کے مذہبی جذبات کے احترام سے ہے۔ یہ مذہب کی نفی نہیں کرتا۔ میرے اور میرے سکول کے اساتذہ کے لیے پورک کے علاوہ دیگر کھانوں پر پابندی انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ سکول کا مقصد بچوں کو مذہبی اختلافات کے باوجود دوسروں کا احترام کرنا سکھانا ہوتا ہے، تاہم یہ قانون سکول کے بنیادی مقصد کی نفی کرتا ہے۔ ‘‘
فرانسیسی معاشرے کے لبرل حلقوں نے دائیں بازو کی طرف سے پورک کو فرانسیسی شناخت کی علامت بنانے کے عمل کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ان کے ملک، جہاں اسلام کو اپنے مقام کے لیے ایک چیلنج درپیش ہے، کو مزید گروہی تقسیم کا شکار کردے گا۔ درحقیقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد کسی بھی مغربی ملک سے زیادہ ہے، لیکن یہاں مسلمان مقامی سیکولر معاشرے میں ضم ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ کئی برسوںسے عام طورپر شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارکین ِوطن بڑے شہروں کی مضافاتی بستیوں میں بوسیدہ فلیٹس میں رہتے ہیں۔عام طور پر جب مسلمان نوجوان ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں تو اُن کے ناموں کی وجہ سے اُنہیں مسترد کردیا جاتا ہے(فرانس میں کسی سے اُس کا مذہب پوچھنا منع ہے)۔ یہ تلخ حقیقت مسلمان تارکین ِوطن کے لیے اپنے پسماندہ فلیٹس سے نکل کہ اچھی زندگی گزارنا مشکل بھی بناتی ہے اور اُن کے دل میں غصیلے جذبات بھی پرورش پاتے ہیں۔اکثر اوقات یہ غصیلے جذبات پھٹ پڑتے ہیں اور پرتشدد فسادات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے دائیں بازو کا بیانیہ مزید تقویت پاجاتا ہے کہ مسلمان فرانس کے لبرل معاشرے میں ضم ہونے کے قابل نہیں ہیں۔ اس طرح فرانس کے 4.7 ملین مسلمان، جو آبادی کا 7.5 فیصد ہیں، محسوس کرتے ہیں کہ اُن کااس نظام میں کوئی حصہ نہیں۔یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ مسلمان گریجوئیٹس میں بیروزگاری کاتناسب 26.5 فیصد جبکہ قومی سطح پر اوسط بیروزگاری کی شرح صرف پانچ فیصد ہے۔
شامی مہاجرین کے سیلاب کوحالیہ دنوں یورپ کا رخ کرتے دیکھ کر مسلمان تارکین ِوطن کے خلاف جذبات مزید بھڑکے ہیں۔ اب سیاست دانوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ تارکین وطن کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائیں۔ دائیں بازو کے علاوہ معاشرے کے معتدل مزاج طبقے بھی ملک کوافریقہ اور ایشیا سے آنے والے غیر ملکیوں کے ''سیلاب میں غرق‘‘ہوتا دیکھ کر پریشان ہیں۔ دوسری طرف جرمنی میں شامی مہاجرین سے مختلف سلوک کیا گیا۔ اندازہ ہے کہ اس سال پندرہ لاکھ تارکین وطن ترکی کی سرحد کے قریب بنے کیمپوں اور یونان کے جزیروںسے ہوتے ہوئے جرمنی میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد یورپ میں ہونے والی انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت ہے۔ تارکین ِ وطن کے بڑھتے ہوئے دبائو کی وجہ سے اب جرمنی میں بھی پریشانی اور اکتاہٹ کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ نرم دل چانسلر اینجلا مرکل پر سیاسی مخالفین کی طرف سے دبائو بڑھ رہا ہے۔
فرانس کو اپنی تاریخ پر ناز تھا کہ ان کا ملک دنیا بھر سے جبر کا شکار ہونے والے طبقوں کے لیے محفوظ پناہ گا ہ ہے لیکن افسوس، ہماری آنکھوں کے سامنے اس کا چہرہ تبدیل ہورہا ہے۔ اب یہ نسل پرستی کے جذبات کا ایسا گڑھ بنتا جارہا ہے جس کا میں اُس وقت تصور بھی نہیں کرسکتا تھا جب میں یہاں پوکر کی جگہ انڈے کھانے والا ایک سکول بوائے تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کبھی فرانس کے دانشور اورلبرل حلقے سیکولر ازم کا پرچار کرتے تھے، لیکن اب اسے دائیں بازو نے اغواکرلیا ہے۔ ریاست کو چر چ سے الگ کرنے کے اصول کی آڑ میں مسلمان تارکین وطن کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ انقلاب ِ فرانس کے علم بردار اپنی قبروں میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہے ہوںگے۔