مہمانوں کا استقبال کرنے میں اہل برطانیہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن چینی صدر کے لیے تو اُنہوں نے تمام حدیںہی پار کرلیں۔ ''ہارس گارڈ کیلوری‘‘ کی اسکارٹ میں ملکہ کے ساتھ بگھی میں سفر اور اکتالیس توپوں کی سلامی سے لے کر ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ اُن کی رہائش گاہ، چیکرزکے نزدیک مقامی بار میں مشروب کا ایک جام پینے تک، مسٹر ژی جن پنگ کو بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ ملکہ صاحبہ نے چینی صدر اور ان کی بیگم پنگ لیان (Peng Liyun)کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے برطانوی ملکہ نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ''نئی بلندیوں ‘‘کو چھولی گے۔ چینی صدر نے بھی چین اور برطانیہ کے درمیان ''گہرے دوستانہ تعلقات‘‘ کی بات کی۔ جذباتی مبالغہ آرائی کے اس بیرونی دائرے کے اندر بہت سے پریشان کن مسائل موجود ہیں۔ ان میں سے ایک انیسویں صدی کے دوران انڈیا سے ٹنوں کے حساب سے افیون رائل نیوی کے تعاون سے چین بھجوائے جانے کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے، لیکن آج کل اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔
ڈیوڈ کیمرون نے دونوں ممالک کے تعلقات کے''سنہرے دور‘‘ کا ذکرکیا۔ بہرحال یہ اصطلاح مبالغہ آرائی یا لفاظی پر مبنی نہیں، حقیقت ہے، کیونکہ چینی صدر نے حالیہ دورے میں چالیس بلین پائونڈز مالیت کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اس رقم کا زیادہ ترحصہ ایک اہم نیوکلیئر پلانٹ، ہنکلی پوائنٹ (Hinkley Point) کی تعمیر پر صرف ہوگا۔ اس منصوبے پر بہت سے حلقوں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ اس کی تعمیر میں غیر تصدیق شدہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ اس کے علاوہ جب ایک عشرے کے بعد یہ پلانٹ اپنی پیداوار شروع کرے گا تو بجلی کی لاگت بہت زیادہ ہوگی۔ دوسری طرف چینیوں کا اصرار ہے کہ ان کی سرمایہ کاری اور اس کی واپسی کی ضمانت برطانوی حکومت دے۔ ایک اور انفراسٹرکچر منصوبے میں چینی سرمایہ کار ہائی سپیڈ ٹرین پر سرمایہ لگائیں گے۔
حالیہ دنوں برطانیہ کا دورہ کرنے والوں میں مصرکے جنرل السیسی بھی شامل تھے، اگرچہ اُن کی اس طرح پذیرائی نہیں کی گئی جتنی چینی رہنما کی۔ درحقیقت جنرل السیسی کے برطانیہ کا دورہ کرنے کی ٹائمنگ اتنی خراب نہ ہوتی اگر اس دوران صحرائے سینا میں روسی مسافر طیارہ شرم الشیخ سے پرواز کے فوراً بعد نہ گر جاتا۔ مصری یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ کیا مسافر طیارے کا گرنا ایک حادثہ تھا یا یہ داعش کی دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا۔ فکرکی بڑی وجہ یہ تھی کہ مصر میں روس اور برطانیہ سے سالانہ ایک کروڑ سے زائد سیاح آتے ہیں اور ان کا رخ شرم الشیخ کے ساحل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دہشت گردی کا واقعہ سیاحوں کو خوفزدہ کردے گا اور ان کی معیشت، جس کا بڑی حد تک دار و مدار سیاحت پر ہے، بری طرح متاثر ہوگی۔ پہلے ہی تحریر چوک سے اٹھنے والے انقلاب کی لہر اور اس کے نتیجے میں ایک فوجی آمر کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے سیاح قاہرہ یا ملک کے دیگر مقامات کا رخ کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔ جب برطانوی حکومت نے السیسی کے دورے کے دوران ہی اعلان کردیا کہ وہ شرم الشیخ کے پروازیں منسوخ کر رہی ہے تو مصریوں کو غصہ بھی آیا اور وہ پریشان بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ دورے کے دوران جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہرے السیسی کے تعاقب میں رہے۔ وہ جہاں بھی جاتے، مظاہرین نے جمہوریت کے حق میں پلے کارڈز اٹھائے ہوتے اور وہ نعرے بازی کرتے۔
برطانیہ کا دورہ کرنے والے ایک اور آمر قازقستان کے صدر نورسلطان نذر بایوف تھے جنہیں انسانی حقوق کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں پر تنقید کاسامنا رہا ہے۔ وسطی ایشیا کی اس اسلامی ریاست پر گزشتہ پچیس برس سے حکمرانی کرنے والے نذر بایوف نے شہریوں کو سختی سے دبایا ہوا ہے، جبکہ بہت سے اپوزیشن لیڈر اور صحافی جیلوں میں بند ہیں۔ اُن کے لیے لندن میں سرخ کارپٹ کیوںبچھایا گیا؟ خیر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ قازقستان وسطی ایشیائی ریاستوں میں تیل اور گیس کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے۔
ہیتھرو ایئرپورٹ پر ژی جن پنگ کا جہازاترنے سے پہلے برطانیہ کی دو بڑی سٹیل ملیں بند ہوچکی تھیں۔ اس کی وجہ چین سے درآمد کیا جانے والا سستا سٹیل تھا۔ یونین لیڈروں نے الزام لگایا کہ چین لاگت سے بھی کم پر سٹیل فروخت کر رہا ہے اور یہ ''ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ‘‘ کے قوانین کی صریحاً خلا ف ورزی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا مسٹر کیمرون یہ معاملہ چینی مہمان کے سامنے اٹھائیں، لیکن جہاں تک ہم جانتے ہیں، یہ معاملہ ایجنڈے کا حصہ نہ تھا۔ برطانوی فارن آفس نے بہت غیر معمولی انداز میں اس بات کی وضاحت کردی کہ جب ایسے مہمان، جن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ داغدار ہو، برطانیہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں تو اُن سے کڑے سوالات کیوں نہیں پوچھے جاتے۔ فارن آفس کے ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت کی پہلی ترجیح انسانی حقوق نہیں، تجارت ہے؛ چنانچہ بے سر و پا باتیں کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس پالیسی کے باوجود جب چند سال پہلے دولت ِ مشترکہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے ڈیوڈ کیمرون سری لنکا کے دورے پر گئے تواُنہوں نے کھلے عام سابق صدر، راجا پاکسے کو تامل شہریوں سے سفاکانہ سلوک پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سری لنکا جیسے چھوٹے سے ملک کے پاس نہ تو تیل ہے اور نہ ہی گیس اور پھر تامل باشندے برطانیہ میں ایک اہم ووٹنگ بلاک رکھتے ہیں۔ یہ طرز عمل دیکھتے ہوئے برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟ بہرحال یہ کوئی نیا طرز عمل نہیں کیونکہ ہم عشروں سے انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب کرنے والے ایک اہم عرب ملک کو ہتھیار فراہم کرنے اور اس کی برطانیہ میں سرمایہ کاری کے گواہ ہیں۔ یقیناً تمام ممالک اپنے قومی مفادات کو اصولوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ریاستوںکو سزا دینے کے لیے انسانی حقوق کو ایک چھڑی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو، لیکن ضروری ہے کہ وہ ریاست ایسی ہو جہاںسے سرمایہ کاری یا دیگر مفادات کے حصول کا کوئی امکان نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام ریاستیںانسانی حقوق اور معاشی اور سیاسی تقاضوں کے درمیان انتخاب کرنے میں مفاد پرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسی طرح جب ایک سیاست دان اپوزیشن میں ہو تو آزادی اور جمہوریت کاعلم بردار دکھائی دیتا ہے لیکن اقتدار میں آتے ہی وہ ایک مختلف سیاست دان ہوتا ہے۔ جب گزشتہ پارلیمنٹ میں کنزرویٹو اور لبرل ڈیموکریٹس کے درمیان شراکت ِ اقتدار تھی تو وہ اپنے پارٹنرز کے دبائو کی وجہ سے انسانی حقوق کی بات کرتے دکھائی دیتے تھے۔ تاہم حالیہ انتخابی فتح نے اس ''پابندی ‘‘ سے نجات دلا دی ہے۔ اب برطانوی حکومت کی خارجہ پالیسی قطعی طور پر عملیت پسندی کی مظہر ہے۔ ژی جن پنگ کے سامنے سرخ قالین بچھانا ہو یا السیسی کا استقبال کرنا ہو، ڈیوڈ کیمرون اور اُن کی کابینہ کے پیش ِنظر معاشی مفاد ہے۔