خوابیدہ سویلین قیادت

ایک دوست کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مخفف ،NAP، بہت مناسب اور برمحل ہے کیونکہ جس دوران فوج پوری جانفشانی سے دہشت گردوں کے خلاف لڑرہی ہے ، سویلینز، جنہوں نے اس پلان کے غیر فوجی حصے پر کام کرنا تھا، آرام سے سورہے ہیں۔ اگرچہ بہت سے سیاست دان چیں بجبیں ہوئے کہ آخر فوج کے شعبہ تعلقات ِعامہ کے ترجمان نے عوامی سطح پر حکومت کو ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے جاگنے کے لیے کیوں کہا، لیکن یہ غیرت مند سیاست دان اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ آیا دہشت گردی صرف فوج کا ہی مسئلہ ہے اور کیا حکمرانوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر، اسٹیرنگ سنبھال کر، سوجانا زیب دیتا ہے؟خیر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ جب اہم فیصلے کرنے کا وقت آئے تو ہمارے سیاست دان اور سرکاری افسران بلاوجہ لپک جھپک اور تیزرفتار فعالیت کی شہرت نہیں رکھتے۔ 
سیاست دان اور بیوروکریسی کم کوش ہی سہی اور ان کی ترجیحات کا فوکس بھی کسی اور طرف ہوگا لیکن ہمارا خیال تھا کہ جب خطرہ سر پر منڈلا رہا ہو تو انسان کی بہت سی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں؛ چنانچہ اب جبکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے تو ہماری حکومت بھی متحرک دکھائی دے گی۔ کئی سالوں کے تذبذب اور ہزاروں جانوں کے ضیاع کے بعد کہیں جا کے پی پی پی حکومت نے 2009ء میں نیشنل کائونٹر ٹیررازم بل،نیکٹا(NACTA) پاس کیا تھا۔ اس قانون سازی کا مقصد 
انسداد ِ دہشت گردی کے لیے ایک سپریم باڈی بنا کر تمام انٹیلی جنس اداروں اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگ کرنا تھا۔ نیکٹانے براہ ِر است وزیر ِ اعظم کو رپورٹ پیش کرنا تھی۔ 
اب یہاں مسئلہ یہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ ہمارے بعض طاقتور وزیر ِ کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی پولیس افسر یا سرکاری افسراُنہیں بائی پاس کرتے ہوئے ''کسی اور‘‘ کو رپورٹ پیش کردے؟نہ ہی وہ میڈیا کی چکاچوند کوریج میں اپنے ساتھ کسی کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی حکومتیں اُن پر توجہ دیتے ہوئے پاکستان کے اہم ترین مسئلے، دہشت گردی، پر اُن کے ساتھ بات کررہی ہیں۔ دوسرا مسئلہ انٹیلی جنس اداروں کا ہے ۔ وہ بوجوہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنی معلومات کا تبادلہ کرنے سے گریزاں ہیں ۔ خیر یہ مسئلہ پوری دنیا میں ہے کیونکہ سراغ رساں ایجنسیاں اکثراپنی معلومات اور ذرائع دوسروںسے پوشیدہ رکھتی ہیں۔ اس میں اپنے ذرائع کو تحفظ دینے کے علاوہ رقابت کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے۔ چنانچہ سبھی ممالک میںوفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والی سول ایجنسیوں میں ربط پیدا کرنا ایک مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ 
ان مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ نیکٹا کے ''قائم مقام کوآرڈی نیٹر کے سامنے کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس ادارے کی پانچ سو آسامیوں میں سے صرف ستاون پر بھرتیاں کی گئی ہیں، اور پھر اسے مطلوبہ بجٹ سے بہت کم رقم ملتی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ اپنے قیام کے چھ سال بعد بھی اس کے سروس رولز نہیں بن پائے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی سول حکومت نے اتنی ہی سستی، بلکہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ طے کیا گیا تھا کہ انتہا پسندتنظیموں کی فنڈنگ روکی جائے گی ، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ ہزاروں مدرسوں کی اصلاحات اور ریگولیشنز کا عمل ابھی تک شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگرچہ چند ایک مدرسوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو انتہا پسند ی کی تعلیم دے رہے تھے لیکن مجموعی طور پر ان کا نیٹ ورک، نصاب ، فنانسنگ، طریقہ ٔ تدریس وغیرہ چیک ہونا باقی ہے۔ ملک کو درپیش سکیورٹی کے مسائل کے علاوہ بھی اگر ان کی اصلاح کردی جاتی تو ملک کے لاکھوں بچوں کا بھلا ہوجاتا۔ 
تاہم مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان اس پنڈورا باکس کو کھولنے کے لیے تیار نہیں۔ اور تو اور، حکومت ان عناصر کو بھی کنٹرول نہیں کرسکتی‘جن کی وجہ سے درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں ، لیکن وہ پھر انہی نظریات کا پرچار کررہے ہیں۔ ہم سوجوتے اور سو پیاز کھانے کی عادت سے کب باز آئیں گے؟ نیشنل ایکشن پلان کریمنل جسٹس میں اصلاحات کی ضرورت پر زور بھی دیتا ہے۔ اس وقت اس کے پیچ و خم دہشت گردوں کو صاف بچ نکلنے میں بہت معاون ثابت ہورہے ہیں۔رنگے ہاتھوں اسلحے سمیت پکڑے جانے والوں کے خلاف بھی ثبوت نہیں ملتا اور وہ بری کردیے جاتے ہیں یا ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملک سے فرار ہوجاتے ہیں۔ اُن کے ڈر سے گواہ بھی پیش ہونے سے کتراتے ہیں۔ 
ان حالات کودیکھتے ہوئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مسلح افواج نیشنل ایکشن پلان میں سول حکومت کی کارکردگی پر غیر مطمئن ہیں۔ پشاور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد کہیں ہمارے سیاست دان دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے کسی پلان پر متفق ہوئے تھے۔ اس سے پہلے تو اُن سے مذاکرات ہورہے تھے ۔ دہشت گرد پورے ملک میں بم دھماکے کررہے تھے اور حکومت طالبان کو رام کرنے کی کوشش میں تھی، لیکن پھر آپریشن ضرب ِ عضب نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی کمرتوڑ دی اور کراچی میں رینجرز نے جرائم پیشہ عناصر اور مافیاکو لگا م ڈال دی۔ سیاسی جماعتوں کی صفوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں پر بھی ہاتھ ڈالا گیا، یہاں تک کہ کراچی کا امن لوٹنے لگا۔ تاہم زیادہ تر کیسز میں جرائم پیشہ تنظیموں کے باس بیرونی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں یہاں پاکستان میں بھی محفوظ پناہ گاہوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
فوج کی ناراضی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے سینکڑوں جوانوں اور افسروں کی قربانی دی ہے لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس جنگ سے قدم پیچھے ہٹارہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ فوج کی ہائی کمان نے بارہا نجی ملاقاتوں میں سیاسی قیادت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہو لیکن جب اس کا کوئی نتیجہ نظر نہ آیا تو پھر آئی ایس پی آر کے ذریعے عوام کو بھی اس تشویش میں شامل کرنا ضروری سمجھا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ سویلین ادارے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے جو وہ اس وقت کررہے ہیں‘ اُن سے عرض ہے کہ سول سروس میں تیس سال گزارنے کے بعد میں جانتا ہوں کہ جب بیوروکریسی نے فعالیت دکھانی ہو تووہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اس کے لیے سیاسی فعالیت اور قیادت درکار ہے۔ کیا ہمارے پاس ایسی قیادت موجود ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں