جنوبی افریقہ کے کچھ حقائق

حال ہی میں جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ سیاسی چال بازیوں کی بھاری معاشی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ جب اس ماہ کے آغاز میںقابل ِ احترام فنانس منسٹرنہلانہلانی نی(Nhlanhla Nene)کو ہٹاکر پچھلے بنچوں پر بیٹھنے والے ایک گمنام سیاست دان ڈیوڈ وان روئن کو یہ وزارت دی تو معیشت سر کے بل زمین پر آرہی۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر افریقی کرنسی، رانڈ، کی قدرمیں 2.5 فیصدکمی ہوئی جبکہ سٹاک مارکیٹ کو 11.3 بلین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ ایک امریکی ریٹنگ فرمFitch نے جنوبی افریقہ کے بانڈ کو ڈائون گریڈ کرکے BBBکے درجے تک پہنچا دیا۔ یہ پست ترین سطح سے بمشکل ہی چند درجے اوپر ہے۔ معاشی خرابی اس قدر نمایاں دکھائی دینے لگی کہ صدر زوما کو روئن کو ہٹا کرایک تجربہ کار معاشی ماہر پراوین گوردھان کو فنانس منسٹر بناتے ہوئے مکمل معاشی تباہی کا راستہ روکنا پڑا۔ اس طرح ایک ہفتے کے دوران جنوبی افریقہ کی کابینہ میں یکے بعد دیگرے تین فنانس منسٹر کام کرتے دکھائی دیے۔ 
صدر جیکب زوما نے اپنے ملک کو اس انتہائی ناپسندیدہ تجربے کی نذر کیوں کیا؟اس کی بظاہر وجہ ، جو قومی میڈیا میں رپورٹ ہوئی، وہ نی نی کادادو میانی، جو جنوبی افریقہ کی ائیرلائن کی چیئرپرسن ہیں، کے ساتھ پیدا ہونے والا تنازع تھا۔ پریس رپورٹس کے مطابق میانی کے پاس ائیرلائن چلانے کا کوئی سابق تجربہ نہ تھا، لیکن وہ ایک مقامی بروکر کے ذریعے ائیربس کی لیزنگ ڈیل حاصل کرنا چاہتی تھی، تاہم پہلے نی نی ، اور اب گوردھان نے اصرار کیا کہ بروکر کو بیچ میں سے نکال کر یہ ڈیل شفاف طریقے سے کی جائے ۔ بروکر کو نکال کر براہ ِراست ڈیل کرنے سے جنوبی افریقہ کے خزانے کو کئی ملین ڈالر کا فائدہ ہوتا۔ پریس رپورٹس کے مطابق دادو میانی صدر زوما کی محبوبہ ہے، چنانچہ اُسے اپنے عاشق کی آشیر باد حاصل تھی ۔ اصولوں کی پاس دار ی کرتے ہوئے فنانس منسٹر نہلا نہلا نی نی نے صدر کی طرف سے پڑنے والے دبائو کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا، چنانچہ اُنہیں گھر کی راہ دکھائی دی گئی۔ تاہم اس اقدام کا اتنا شدید رد ِعمل ہوا کہ صدرزوما کو گرتی ہوئی معیشت سنبھالنے کے لیے گوردھان کو وزارت سونپنی پڑی تاکہ مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ 
اب صدر زوما کے خلاف سوشل میڈیا ، خاص طور پر ٹوئٹر پرغصیلے جذبات کا اظہار ہورہا ہے۔ اس کی قیادت کے انداز پر افریقی نیشنل کانگرس میں سنجیدہ تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ اس کے ناپسندیدہ فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہورہی ہے، لیکن عوامی سطح پر پارٹی کے رہنما صدر کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک قاری نے'' جوہانسبرگ سٹار‘‘ میں ایڈیٹر کے نام خط میں لکھا۔۔۔''جنوبی افریقہ پہلے ہی زوما کی چار بیویوں کو ایک نئے صدارتی محل میں رکھنے کا معاشی بوجھ اٹھا رہا ہے۔ اب ملک صدر کی مزید محبوبائوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘یہ سب کچھ بر ِ اعظم افریقہ کے سب سے صنعتی ملک میںہونا سفید فام کاروباری افراد کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے ۔ وہ اپنے صدر کے عجیب و غریب رویے پر افسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت سفید فاموں کی طرف سے 'ان افراد‘ کے بارے میں تنقیدی کلمات نسل پرستی کے جذبات کے علاوہ ہیں۔ اگرچہ نسلی بنیادوں پر امتیاز کی دیواریں دوعشرے قبل ڈھائی جاچکی ہیں لیکن حقیقت ہے کہ جنوبی افریقہ آج بھی ایک منقسم معاشرہ رکھتا ہے۔ اب جلد کی رنگت کی بجائے معاشرے کو تقسیم کرنے والی لکیر معیشت ہے۔ بلاشبہ سفید فام معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں جبکہ سیاہ فاموں کے پاس سیاسی طاقت ہے۔ 
یہ صورت ِحال جوہانسبرگ اور کیپ ٹائون کے بڑے بڑے چمکدار شاپنگ مالز اور جدید ریستورانوںکو دیکھ عیاں ہوتی ہے کہ ان میں زیادہ تر گاہک سفید فام ، اور کچھ انڈین، ہیں جبکہ وہاں ملازمت کرنے والے افراد سیاہ فام ہیں۔ آمدنی کی تفاوت کی وجہ سے ملک بھر میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے سفید فام کسانوں کو لوٹنے اور بے دردی سے قتل کردینے کی وارداتیں عام سننے کو ملتی ہیں۔ شہری علاقوں میں نقب زنی اور ڈکیتی کی وارداتیں معمول ہیں۔ اس کی وجہ سے سکیورٹی میں استعمال ہونے والے آلات اور سروسز کی مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقوں میں بڑے بڑے گھر وں کے گرد الیکٹرانک سکیورٹی آلات، فنگر پرنٹس سے کھلنے والے گیٹ اور مسلح محافظ ایک ضرورت بن چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ سیاہ فام باشندے بھی ایسے بڑے گھروں میں رہتے ہیں ، لیکن یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ ایسی زندگی سفید فاموں کے نصیب میں ہی ہے۔ 
جب جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی دیواریں گرادی گئیں اور سیاہ فاموں کو بھی مساوی شہریت کے حقوق مل گئے توسفید فام آباد کاروں کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ یہ ملک بھی زمباوے کی راہ پر چل سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ کے معاشی دارالحکومت جوہانسبرگ کی خوشحال آبادی کا رجحان مضافاتی علاقوں کی طرف ہوگیا۔ بنک اور مالیاتی فرموں کے دفاتر شہر کے مرکز سے نکل کر ان علاقوں میں منتقل ہوتے گئے۔ سفید فام شہریوں نے بھی مضافاتی علاقوں میں وسیع جاگیر خرید کر بڑے بڑے مکانات بنا کر اُنہیں کلوز سرکٹ ٹی وی، خاردار تار اور مسلح گارڈز کی مدد سے محفوظ بنانا شروع کردیا۔ اس کے برعکس شہر کے پرانے علاقے خستہ حالی اور افلاس کی تصویر دکھائی دینے لگے۔ جس دوران سفید فام شہری 'ان لوگوں‘ کے رویے کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، اُن کی اپنی زندگیاں بہت پرآسائش ہیں۔ ان کی خدمت کے لیے گھریلو ملازم ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق زمبابوے سے ہوتا ہے۔ زمبابوے کے شہری بھی معاشی ناہمواری کا شکار ہیں، اور اس کی ذمہ داری ایک اور عجیب طبیعت رکھنے والے رہنما، رابرٹ مگابے پر عائد ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے سیاہ فام، جنھوں نے آزادی کے لیے طویل عرصہ تک جدوجہد کی اور ہیروقرار پائے، وہ آزادی پانے کے بعد، اپنی آزاد ریاستوںمیں ناکام منتظم ثابت ہوئے۔ سیاحوں کے لیے جنوبی افریقہ کی کرنسی، رانڈ کے کمزور ہونے کی وجہ سے سستی تفریح میسر آجاتی ہے۔ کئی حوالوں سے جنوبی افریقہ کے پاس دنیا کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس کے بے مثال قدرتی پارک جنگلی جانوروںسے بھرے ہوئے ہیں، طویل اور خوبصورت ساحلی پٹی ہے، شاندار ہوٹل اور ریستوران ، تفریح کے عمدہ مواقع اور سب سے بڑھ کر، بہترین مشروبات ہیں۔ صرف جوہانسبرگ میں ہی دنیا بھر کی مصنوعات سے بھرے ہوئے دودرجن سے زائد شاپنگ مالز ہیں۔ تصویر کا دوسرا رخ اتنا دیدہ زیب نہیں۔ صارفین کی جنت ہونے کے باوجود جب کوئی سیاح، چاہے وہ بہت حساس طبیعت نہ بھی رکھتا ہو، نسلی امتیاز کے دورکی یاد دلانے والے میوزیم کا دورہ کرتا ہے، تو تلخ حقائق اُس کی روح کو زخمی کردیتے ہیں۔ بدنام ِ زمانہ ''راہداری قوانین‘‘ (Pass Laws)سفید فاموں کے آہنی جبر اور استعماریت کی سفاک علامت تھے۔ اس کی ایک جھلک کیپ ٹائون کے ڈسٹرکٹ 6میں ملتی ہے ۔ یہ سیاہ فام افراد کا علاقہ تھا اور یہاں رہائشگاہوں کو بلڈوزروں سے مسمار کرکے سفید فاموں کے لیے الگ راستہ نکالاگیا۔ اس پر احتجاج کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، اُن پر تشدد کیا گیا، جبکہ کچھ کو گولی مار کر ہلاک بھی کردیا گیا۔ تاہم ، جیسا کہ ہم نے دیکھاکہ نسلی امتیاز کے قوانین کے خاتمے سے نسلی امتیاز ختم نہ ہوسکا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور ہنر کا فرق دور ہونے میں بھی بہت دیر لگے گی۔ ان حقائق کے باوجود جنوبی افریقہ ایک مردم زرخیز خطہ ہے۔ یہاں کے لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت توانا ہیں۔ بس یہاں گڈ گورننس کی کمی ہے۔ پاکستانی قارئین کو کچھ مماثلت دکھائی دی ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں