ایک اور سال شروع ہوا، وعدوں کا ایک اور سیٹ ترتیب پایا۔ خود سے کیے گئے ان وعدوں اور بنائی گئی قراردادوں کی میعاد ایک آدھ ہفتہ، یا دس دن ہوتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ میں نے ایک ایسا وعدہ کیا جو میں پورا سال نبھانے کا عزم رکھتا ہوں۔ دراصل گزشتہ کئی برسوںسے میں موٹاپے سے بچنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ ہر محاذ (اکثر کا تعلق دسترخوانوںسے ہے) پر بری طرح ہار تا جارہاہوں، چنانچہ جسم من مانی پر اتر آیا ہے۔ اگرچہ میں باتھ روم میں لگے ہوئے پیمانوں پر نگاہ رکھتا ہوں اور بیلٹ کا سوراخ بھی وہی ہے جو چند سال پہلے تھا لیکن پیٹ یقینا باہر نکل رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تین سال قبل کرائے گئے طبی معائنے میں ٹائپ ٹو شوگر ثابت ہوئی تھی۔ اگرچہ میرے معالج کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب صرف یومیہ گولیوں کی خوراک میں دوکا اضافہ ہے لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ دوگولیاں مزید بہت سی گولیوں کو دعوت دیں گی۔ چونکہ مجھے متعدد گولیاں صبح وشام کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے لینی پڑتی ہیں، اس لیے میں سوچتا ہوں کہ بس، بہت ہوگئی، اب یہ سلسلہ موقوف ہونا چاہیے۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ چار ہفتوں تک یومیہ چھ سو کیلوریزاُس سسٹم کو ہلاکر رکھ دیتی ہیں جو شوگر کا باعث بنتا ہے۔ یہ ایک بالغ شخص کی یومیہ خوراک میں پائی جانے والی کیلوریز کا ایک چوتھائی ہے۔ چنانچہ مجھ جیسے خوش خوراک شخص سے اس احتیاط کی توقع نہیں
کی جانی چاہیے، لیکن اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے اطلاع دی ہے کہ اُنھوں نے اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے شوگر پر کنٹرول پایا ہے، چنانچہ میں بھی دل پر پتھر رکھ کراس وادی میں قدم رکھنے جارہاہوں۔ دراصل گزشتہ چند ایک ماہ سے میں یہ تپسیا کرنے کا ارادہ باندھ رہاہوں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کیا میں ایسا کرپائوں گا؟لیکن پھر اُس وقت کویاد کرتا ہوں جب میں نے پچیس برس پہلے تمباکو نوشی ترک کردی تھی تو حوصلہ ہوتا ہے کہ مجھ میں درکار قوت ِ ارادی موجود ہے۔ میں اُس وقت سگریٹ کے دوپیکٹ یومیہ پی کر خود کو ہلاک کررہا تھا ، جب میں نے ایک صبح بیدار ہوتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بس، بہت ہوگئی۔ اس کے بعد میں تمباکو نوشی کے قریب بھی نہیں گیا۔
اس سے پہلے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتا اور ہر صبح تکلیف دہ بلغمی کھانسی ہوتی۔ اگرچہ اُس وقت ہمارے پاس اتنی طبی معلومات نہیں ہوتی تھیں جتنی آج ، لیکن میں اتنا ضرور جانتا تھا کہ سگریٹ میرے لیے اچھی نہیں۔ جب میں نے تمباکو نوشی ترک کرنی تھی تو میں نے کسی کو نہ بتایا، بس چپ چاپ وعدہ کیا اور اس پر کاربند ہوگیا۔ اس بات کو ربع صدی بیت چکی ، وعدہ قائم ہے۔ بتاتا چلوں کہ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ نکوٹین کے بغیر پہلے چند ایک دن بہت اذیت ناک تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ پھیپھڑوں کے اندر شدید کھجلی ہورہی ہے ، لیکن میں کہیں پڑھ چکا تھا کہ جسم میں نکوٹین کی طلب ایک ہفتہ میں ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہ طلب دماغ میں رہ جاتی ہے۔ پھر دماغ آپ کے ساتھ چالیں چلنے لگتا ہے۔ یہاں آپ کا قوت ِ ارادی اور عزم کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں خود بتاتا ۔۔۔''اب چونکہ تم سگریٹ نوشی چھوڑ چکے ، بہت اچھا کیا، تاہم ایک آدھ کش لگانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
خوش قسمتی سے میں اس چالباز شیطان(تمباکو) کو واپس ڈبی میں دھکیلنے میں کامیاب رہا۔ اس کے بعد میں نے کبھی کسی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اگرچہ اب بھی کافی وغیرہ پیتے ہوئے سگار سلگانے کو جی چاہتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ اب اس عادت کو موقع دینا حماقت ہوگی۔ انسان کو ڈھلوان پر کھڑے ہوکر ایک ٹانگ پر ناچنے سے گریز کرنا چاہیے۔
برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک تحقیق کے مطابق نکوٹین کی طلب سے جان چھڑانا ہیروئین کے نشے کو چھوڑنے سے بھی مشکل ہے۔ چنانچہ مجھے خوشی ہے کہ میں نے ایک بہت بڑا معرکہ سرکرلیا۔چونکہ میں ایسا کرچکا ہوں، اس لیے میں بہت فخر سے احباب کو بتا سکتا ہوں کہ وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ آج کے دور میں تو سگریٹ چھوڑنے کے لیے بہت سی ''معاونین‘‘ موجود ہیں، جیسا کہ ای سگریٹ۔ ایک تائب سموکر ہونے کے ناتے مجھے پر الزام رہا ہے کہ میں جہاں بھی ہوں ، اپنے اردگرد نان سموکنگ زون قائم کرلیتا ہوں۔ یہ بات درست ہے، کیونکہ اب مجھے سگریٹ کی بو نہایت ناگوار محسوس ہوتی ہے۔ پائپ اور سگار کا دھواں قابل ِ برداشت ہوتا ہے ، لیکن اُس صورت میں نہیں جب یہ گھنٹوں فضا میں آپ کے اردگرد موجود رہے۔ ا ب میرے لیے ایسی پارٹیوں میں موجود رہنا اذیت ناک لگتا ہے جہاں مہمان تمباکو نوشی کررہے ہوں۔
اب میں سوچ رہاہوں کہ چار ہفتے کی ڈائٹ کے بعدکیا ہوگا؟ کیا میں اس کے بعد معمول کی خوراک پر لوٹ جائوں گا یا پھر میں ایک مجاہدانہ زندگی بسر کرنا شروع کردوں گا؟اُبلے ہوئے انڈوں، بھنے ہوئے یا پکائے ہوئے گوشت کی خوشبوسے جی چرا کر گزرنے کا خیال سوہان روح لگتا ہے ۔ اس کے علاوہ شام کو دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر پسندیدہ مشروبات پینے کی بجائے محض پھیکے سوڈے پر گزار ا کرنا بھی دل خوش کن نہیں ۔ آخر میں، میں فرض کرتا ہوں کہ انسان کے سامنے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر یہ سوال ضرور کھڑ ا ہوجاتا ہے کہ اُسے مزید جینے کے لیے کون سی خوشی کو قربان کرنا ہوگا۔ یقینا قربانی دینا پڑتی ہے۔ اگرمیں نے لاہور کی ایبٹ روڈ سے گردے کپورے اور کڑاہی گوشت نہ کھایا ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ آج میری شریانوں میں اتنا کولیسٹرول نہ ہوتا کہ مجھے2000ء میں بائی پاس کرانا پڑتا۔ لیکن پھر زندگی اتنی مختصر ہے کہ محض اچھی صحت کے لیے تمام لذائذ سے کنارہ کشی اختیار کرنا بھی دانائی نہیں لگتا۔
جب میں اپنے ہم عمر دوستوںسے ملتا ہوں تو اُن میں سے زیادہ تر اپنی بیماریوں کے بارے میں باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ ان کا موضوع کتابیں، شاعری یا فلمیں نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے بیماری کی علامتوںسے لبریز گفتگوسننے سے خود بیمار ہونا بہتر ہے۔میں یہاں اپنے صحت مند نوجوان قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ انہیں بھی شاید بے کیف باتیں پڑھنے کو ملی ہیں۔ تاہم اگر اُن میں سے کوئی سموکر بھی ہے تو اُس کے لیے حوصلہ افزااور عملی نصیحت بھی موجود ہے۔