باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشت گردوں کا حالیہ حملہ انتہائی اندوہناک ، اور پاکستانی نوجوانوں کے خلاف نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کا ایک اور خونیں باب تھا۔خدشہ ہے کہ یہ آخری نہیںہوگا۔ اس سے پہلے بھی ہم جنونی دہشت گردوں کے پرامن شہریوں پر حملے دیکھ چکے ہیں۔ ان سب کی مجموعی تصویر ایک دہشت ناک ،لہو میں ڈوبے ہوئے شیطانی کھیل کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو یادداشت کا حصہ بن کر ذہن سے چپک جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں کی تعداد نہیں بلکہ خوف اور دہشت کے سیاہ ہیولے ہیں جو زہریلے ناگوں کی طرح سوچ کے بہائوکو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
میرے خیال میں ملالہ یوسفزئی پر ہونے والا حملہ ان خونی واقعات میں سے ایک تھا۔ ایک طرف چودہ سالہ چھوٹی سی سکول جانے والی لڑکی تھی جسے سر میں گولی ماری گئی ۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پاکستانی لڑکیوں کی تعلیم کے حق کی بات کرتی تھی۔ اس افسوس ناک واقعے نے پاکستان کے ساتھ دنیا بھر کو صدمے سے ساکت کردیا کہ انتہا پسند ایسی بربریت پر بھی اتر سکتے ہیں۔یہ بات قابل فہم ہے کہ اس کے بعد ملالہ کو اس طرح عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ اُس کے عزم، فصاحت اور صاف گوئی کو دنیابھر نے سراہا۔ اس کے بعد آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ ، جس میں ایک سوچالیس کے قریب طلبہ اور اساتذہ جاں بحق ہوئے تھے، انتہائی
دہشت ناک تھا۔ انتہا پسندوں نے اس حملے میں جس سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ، اس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ حملہ اتنا لرزہ خیز تھا کہ اس نے بے حس سیاست دانوں کو بھی روایتی غفلت کی چادر اتار پھینکنے اور اپنے ''بھٹکے ہوئے بھائیوں ‘‘ ، طالبان، کے خلاف کارروائی پر فوج کا ساتھ دینے پر مجبور کردیا۔ اس سے پہلے وہ ان درندوں کو بات چیت کے ذریعے رام کرنے کی کوشش میں تھے ، جبکہ وہ بے خوفی سے شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔ اے پی ایس حملے کے بعد عوام نے بھی ضرب ِ عضب آپریشن کی بھرپور حمایت کی ۔ اس آپریشن نے دشمن کی صفیں الٹا دیں ، اُن کے مورچے تباہ کردیے ، اُنہیں بھاگنے پر مجبور کردیا ، لیکن اس جنگ کو ختم سمجھنا درست نہیں۔
دہشت گردی کی اس لہر کی مذمت کرتے ہوئے بہتر ہے کہ اس حقیقت کو فراموش نہ کیا جائے کہ یہ واقعات کسی خلا میں انہونے طریقے سے پیش نہیں آرہے۔ ریاست نے ماضی میں ایسا ماحول پید اکیا تھا جس میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو، ایسی زمین تیار کی جس میں ڈریگن کے زہریلے دانت کاشت کیے جائیں ،چنانچہ یہ انتہائی جاں گسل واقعات ناگہانی ہر گز نہیں۔ بہت سے دہشت گرد گروہ، جو آج فعال ہیں، کو ماضی میں ہمارے اداروں نے ہی کسی بیرونی ایجنڈے کے لیے تیار کیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست نے ملک بھر میں ان کے نیٹ ورک کو پھیلنے اور فروغ پانے کا موقع دیا۔ ان میں سے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں مذہب کی تشدد آمیز تشریح اتاری جاتی ہے۔ مخصوص نظریات کی تبلیغ کرنے والوں کو بیرون ملک سے بھاری فنڈنگ بھی ہوتی ہے۔
حالیہ دور میں ناپختہ جمہوری قدروں کی وجہ سے بہت سے مذہبی رہنماسیاسی طاقت حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اسمبلیوں میں جا پہنچتے ہیں، چنانچہ اُنھوں نے سیاسی طاقت کی بدولت روایتی تعلیم کے ایک بڑے حصے کو بھی اپنے دقیانوسی نظریات کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر جہادی کلچر ضیا دور میں پھیلا لیکن بعد میں آنے والے فوجی یا سویلین حکمرانوں نے بھی اس کے تدارک کے لیے کچھ نہ کیا۔ جمہوریت کے چمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے بھی ملک کو واپس معقولیت کی راہوں پر گامزن نہ کیا۔ بلکہ اقتدار سنبھالنے کے لیے اُن میں سے کچھ کو انہی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا۔ ایک مرتبہ روسی رہنما لینن نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا۔۔۔''سنگین سے ٹٹولیں، اگر آگے فولادی دیوار ہوتو ہاتھ روک لیں، ورنہ آگے بڑھتے جائیں۔‘‘پاکستان میں اس طبقے کو ہمیشہ سے نرم رکاوٹ کا ہی سامنا کرنا پڑا، چنانچہ اُن کی سنگین کے سامنے کوئی فولادی دیوار حائل نہ ہوئی۔
قارئین نے خبر سنی ہوگی ، جب ایک نوعمر لڑکے نے توہین کے خوف سے ڈر کر اپنا ہاتھ ہی کاٹ لیا۔ ایسی قوم کے بارے کیا کہا جائے؟پندرہ سالہ انور نے غلطی سے اُس وقت اپنا ہاتھ کھڑا کردیا جب مسجد کے امام، شبیر احمد ، نے پوچھا کہ کون ہے جو رسول ِ اکرمﷺ سے محبت نہیں رکھتا۔ اس پر انور پر توہین کا سنگین الزام لگا دیا گیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایسے گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو عبرت ناک سزا ملتی ہے، وہ بھاگ کر گھر گیا اور اپنا ہاتھ کاٹا اور پلیٹ میں رکھ کر امام کے سامنے پیش کر دیا۔ اس لرزہ خیز حرکت کو سراہا گیا، لڑکے کی پرہیزگاری کی تعریف کی گئی اور یہ دیکھ کر اُس کے والدین کے سر فخر سے بلند ہوگئے ۔ واقعے کا علم ہونے پر امام کو گرفتار کیا گیا لیکن جب کسی نے اُس پر الزام نہ لگایا تو اُسے رہا کرنا پڑا۔ جب یہ کہانی دنیا بھر میں پھیلی تو امام ، شبیر احمد کو پھر گرفتار کرلیا گیا۔
بہتر ہے کہ اب ان واقعات پر تاسف سے ہاتھ ملنے یا مگر مچھ کے آنسو بہانے کی بجائے ہم ایسے واقعات کا بغور جائزہ لیں۔ جب ممتاز قادری عدالت میں پیش ہوا تو کچھ وکلا نے اُس پر پھولوںکی پتیاں نچھاور کیں ۔وکلا کو اس ملک کا سب سے تعلیم یافتہ طبقہ سمجھا جاتا ہے ۔ چنانچہ جب پڑھے لگے قانون دان ہی ایسا کرنے لگیں تو اس معاشرے کے بارے میں مزید کوئی اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ بہت سے انتہائی تعلیم یافتہ نوجوان بھی دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ وہ گرفتار ہوئے ہیں اور اُنھوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں اس دلیل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ جدید تعلیم انتہا پسندی اور تشدد کا خاتمہ کردے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے کلاس رومز میں علم اور تحقیق کا کوئی گزر نہیں ہوتا، وہاں زیادہ تر عقائد درست کرائے جاتے ہیں اور نفرت اور انتہا پسندی کا زہر ذہن میں اتارا جاتا ہے۔ جب تک ہم ان حقائق کا سامنا نہیں کرتے، ہم تباہی کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ یہ جنگ صرف چند ایک جہادیوں کو ہلاک یا گرفتار کرکے نہیں جیتی جاسکتی۔ پول سروے ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے نوجوان بنیاد پرستی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ ہمارا معیار ِتعلیم مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور کچھ نہ کچھ میڈیا بھی دقیانوسیت کی تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں مزید ہاتھ قلم ہوتے رہیںگے، اور ہم حکایات ِ خونچکاں لکھتے رہیںگے۔