چند دن پہلےsunbirds پرندوں کی ایک فیملی ہمارے گھر سے ہجرت کرگئی اور اب ان کا گھونسلہ ایک اجڑے ہوئے گھر کا منظر پیش کرتا ہے۔ میں نے چند دن بہت پرسکون انداز میں پیراکی کرتے ہوئے پرندوں کو ادھر اُدھر اڑتے دیکھا، وہ اپنی چونچوں میں کھانے کے ٹکڑے لے کر اپنے بچوں کو کھلا رہے تھے۔ ان کا گھونسلہ ایک بند ٹوکری کی طرح بُنا ہوا تھا اور اس میں ایک طرف سے داخل ہونے کاراستہ تھا۔ درخت کی ایک شاخ سے لٹکا ہو ا یہ گھونسلہ جب ہوا کے ساتھ جھولتا تو میں ڈرتا کہ یہ کسی بھی لمحے زمین پر گرسکتا ہے، لیکن یہ میرے انداز ے سے زیادہ مضبوط نکلا۔ ہمارے لیے پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہماری دوبلیاں تھیں جن کی آنکھیں پرندوں کو دیکھ کر چمک رہی تھیں۔ جب اُن میں سے کوئی ایک درخت پر چڑھ کر گھونسلے کے قریب ہونے کی کوشش کرتی تو دونوں پرندے شور مچانے لگتے، تو کوئی بھاگ کر آتا اور بلی کو بھگا کر اُن کی جان بچاتا۔ اس کے بعد میں نے ایک قریبی شاخ کاٹ دی تاکہ بلی آسانی سے اوپر چڑھ کر گھونسلے پر حملہ نہ کرسکے۔
جب تک ہم مسلسل نگرانی کے عمل سے تھک چکے تھے، پرندوں کے بچوں نے اُڑنا سیکھ لیا اور پھر وہ خاندان پرواز کرگیا۔ اب جبکہ ہمیں نگرانی کے فرائض سرانجام نہیں دینے پڑتے، مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں اُن کی غیر موجودگی کو محسوس کررہا ہوں اور ہماری زندگی میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ اب بلیاں بھی سارا دن پنکھے کے نیچے سوتی رہتی ہیں جبکہ میں اپنے کمپیوٹر پر مصروف رہتا ہوں۔ حسب ِمعمول ہمارے پانچ پالتو کتے، بلیوں کے پاس پڑے اونگھتے رہتے ہیں تاوقتیکہ گھنٹی کی آواز یا کھانے کے لیے بلاوہ اُن کی غنودگی میں حارج ہو۔ یہ کتوں کے لیے ایک پرسکون صورت ِحال ہے۔ اس دوران ہمارا سرخ مرغا، بالکل جیفری چوسر کے شانٹک لیر (Chauntecleer) کی طرح فخر سے گردن اکڑائے اپنی چھ عدد رفقائے حیات کے جلو میں نمودار ہوتا ہے۔ اُن کا رخ باغ کی طرف ہے، جہاں وہ دانا دنکا چگیں گے اور یوں ہمارے ناشتے کے لیے تازہ انڈوں کا اہتمام ہوگا۔ سری لنکا کے جنوبی ساحل پر واقع گھر میں پرسکون زندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم سب انسان، جانور اور پرندے مل کر مزے سے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے''نظریات‘‘ میں مداخلت نہیں کرتے اور سچی بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا حق بھی نہیں پہنچتا۔
ہمارے ہمسائے میں بہت سے موروں نے ٹھکانے بنالیے ہیں۔ ان موروں کو اپنے گانے کے فن پر جس میں نغمگی کم اورشور زیادہ ہے، بہت ناز ہے اور ہمہ وقت وہ اس کا اظہار کرتے نہیں تھکتے۔ مارخور موروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کام سے بھی نہیں تھکتے۔ بہرحال یہ خوشنما اور بلند آہنگ پرندے اگر ہمارے صحن میں داخل ہوکر ہمیں صوتی آلودگی کا شکار نہیں کر پاتے تو اس کی وجہ ہمارے پانچ کتے ہیں۔ یہ کتے بلیوں پر تو ہاتھ صاف نہیں کرتے، لیکن موروں کو دیکھ کر ان کے لیے اپنی طبیعت کو روکنا مشکل ہوگا۔ ہر ذی روح ایک خاص حد تک ہی سدھر سکتا ہے۔
جب ہم جزیرے پر ڈرائیو کرتے ہیں تو جنگلی حیات، انواع و اقسام کے رنگ برنگے پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی موجودگی بہت لطف دیتی ہے۔ جنگلی حیات کی بہتات کی وجہ یہاں شکار پر مکمل پابندی ہے کیونکہ یہاں خارجہ پالیسی کے ستون وغیرہ نہیں پائے جاتے۔ یہاں آتشیں اسلحے کا لائسنس شاید ہی کسی کو جاری کیا جائے۔ ہتھیاروں پر مکمل پابندی ہے۔ طویل خانہ جنگی کا عذاب سہنے کے باجود یہاں ہتھیار دکھائی نہیں
دیتے۔ اگر پاکستان میں ہتھیاروں کے حوالے سے سخت قوانین ہوتے تو شاید وہ بے زبان پینگوئن زندہ رہتا جسے حال ہی میں کراچی میں ایک سکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ اس بے چارے جانور کو ایشیا سے کم و بیش مٹا کررکھ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کا گوشت ہمارے چینی دوستوں کو بہت مرغوب ہے۔ ایک اور جانور جو ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، و ہ ہاتھی ہے ۔ اس کی وجہ اس کے دانت ہیں ۔ چند سال قبل کولمبو میں ہاتھی دانت کی ایک بھاری کھیپ پکڑی گئی ۔ یہ کھیپ کینیا سے آئی تھی۔ راجا پاکسے کی حکومت پر جانوروں کے شکار کی حوصلہ شکنی کرنے والے گروہوں کی طرف سے دبائو تھا کہ وہ انہیں تلف کردیں جبکہ بدھ مذہب کے راہبوں کا مطالبہ تھا کہ ہاتھی دانت اُن کے حوالے کیے جائیں کیونکہ وہ مندروں کو سجانے کے لیے ہیں۔ بہرحال سری لنکن حکومت نے کئی ملین ڈالر مالیت کے ڈیڑھ ٹن ہاتھی دانت تلف کردیے۔
پاکستان میں ہاتھی نہیں پائے جاتے۔ چند ایک ہاتھی جو چڑیاگھروں میں قید کر کے رکھے گئے ہیں، اُن کی حالت بہت خراب ہے۔ جس طرح ہاتھیوں کو زنجیروںسے باندھ کر رکھا جاتا ہے، میری خواہش ہے کہ کسی دن چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کو بھی اسی طرح باندھ کر اُس کے ساتھ رکھا جائے۔ پھر وہ (ہاتھی) جانے اور اُس کا کام جانے۔ آہ! بے چارہ تلور، لیکن کیا کیا جائے، ہماری خارجہ پالیسی کا ایک ستون اسی معصوم کے خون پر قائم ہے۔ سائنسی شہادت تو نہیں البتہ زبان خلق پر اعتماد کرلیا جائے تو اس پرندے کا گوشت ہمارے خلیجی مہمانوںکو مخصوص قوت کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتا۔ ویسے یہ پرندہ IUCN لسٹ کے مطابق ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ کافی احتجاج اور دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی اور ہم نے سوچا کہ آخر کار ہمارے ملک میں بھی قانون اپنا راستہ بنارہا ہے۔ تاہم حکومت نے کیس کو دوبارہ کھلوایا اور دلیل دی کہ اسی پرندے کا شکار ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ ِ بنیاد ہے۔ چنانچہ فاضل عدالت نے خارجہ پالیسی کی عمارت کو منہدم ہونے سے بچا لیا۔ پرندوں کا کیا ہے، یہ دنیا تو صرف اشرف المخلوقات کے لیے بنی ہے۔ پاکستان میں ویسے بھی جانوروں کی زندگی بہت اذیت کا شکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بچوں کو شروع سے ہی اذیت رسانی سکھائی جاتی ہے۔ وہ جانوروںسے پیار نہیں، نفرت کرتے ہیں۔ جب بھی پاکستانی لڑکوںکو کوئی کتا دکھائی دے تو اُن کی عقل فرار ہوجاتی ہے اور وہ اس پر پتھر برسانے لگتے ہیں؛ حالانکہ وہ کتا اُن کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں بن رہا ہوتا۔ اس پاک ریاست کو ہر قسم کے جانوروں اور اقلیتوں سے پاک کرنے میں تھوڑی ہی دیر باقی ہے۔