اماں از فتنہ ٔصیاد خواہم

بھارت کا پرندہ سوفٹ لٹ(swiftlet) سری لنکا میں پائے جانے والے پرندوں میں زیادہ ممتاز نہیں کیونکہ یہاں ِدیدہ زیب پرندوں کی کئی نسلیں پائی جاتی ہیں، لیکن اس پر ایک اخبار نے پورے صفحے پر شائع ہونے والے فیچر میں قارئین کو بتایا کہ سوفٹ لٹ کے گھونسلوں سے انڈے نکال کرسمگل کرنے کا دھنداعروج پر ہے۔ ایک غار کے نزدیک ‘جس میں ان پرندوں نے گھونسلے بنائے ہوئے تھے‘ ان کے ٹوٹے ہوئے انڈے اور مردہ بچے پائے گئے۔ 
سری لنکا میں پرندوں کو ہلا ک کرنا یا اُن کے گھونسلے تباہ کرنا جرم ہے‘چنانچہ پولیس کواطلاع کی گئی۔ پولیس افسران نے علاقے میں سکیورٹی سخت کرنے کا وعدہ کیا تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے ۔ اس سے پہلے ، نوّے کی دہائی میں بھی پرندوں کی سمگلنگ کا دھنداہوتا تھا، لیکن پھر حکومت کے کریک ڈائون نے اس کا خاتمہ کردیا۔ ان پرندوں کا خریدار کون ہے؟میں نے بہت سی چینی کھانوں کی کتابوں میں اس پرندے کے انڈوں کو کھانوں میں استعمال کرنے کی ترکیبیں پڑھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان پرندوں کے نیم سیے جانے والے انڈوںکا مواد مخصوص سوپ کی لذت بڑھانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس عمل میں انڈے کو توڑنے کے ساتھ ہی نیم جان بچہ بھی مر جاتا ہے۔ اگرچہ میں کھانے پینے کے معاملے میں بہت روایتی یا قدامت پسند نہیں اور نہ ہی اس بات کی زیادہ چھان بین کرتا ہوں کہ ڈش میں کیا چیز شامل تھی لیکن اس ڈش کو کھانے کا تصور بھی سوہان ِروح ہے۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ سوفٹ لٹ ہی ایسے پرندے نہیں جو چینی دوستوں کی بے لگام خوش خوراکی کا نشانہ بنتے ہیں، وہ ہر ''چلنے، اُڑنے، تیرنے اور رینگنے‘‘والی چیز کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ تاہم سب جانوروں کو صرف خوراک کے لیے ہی ہلاک نہیں کیا جاتا، بہت سوں کو چین کی روایتی ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر شیر کی ہڈیوں کی اوسط قیمت تین ہزار ڈالر فی کلو ہوتی ہے۔ تائیوان میں تین سو بیس ڈالر خرچ کرکے آپ ٹائیگر کے مخصوص اعضا سے بنا ہوا سوپ حاصل کر سکتے ہیں جس کا استعمال آپ کے وجود میں شباب کی بجلیاں بھردیتا ہے۔ شیر کی آنکھوں کا جوڑا ایک سو ستر ڈالر میں مل جاتا ہے۔ شیر کے گوشت کی ڈشیں چین کے مخصوص ریستورانوں میں مل جاتی ہیں جہاں دولت مند کاروباری افراد اپنی دولت اجاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
''Convention on International Trade in Endangered Species‘‘ کے تحت شیر کے جسم کے اعضا کی خریدوفروخت پر مکمل پابندی کے باوجود سب کچھ ہورہا ہے۔ اگرچہ چین ‘بھی اس معاہدے پر دستخط کنندہ ہے لیکن اس نے اس کی تجارت کو روکنے کے لیے کبھی عمل اقدامات نہیں کئے۔ چین کی مارکیٹ میں ڈالروں کے عوض گوشت فروخت کرنے کے لیے شکار مافیا نے سائبیریاسے لے کر انڈونیشیا تک ، بہت سے جانوروں کی نسلیں ختم کرڈالی ہیں۔ ماضی میں انسانوں کو آدم خور شیروں کا خطرہ ہوتا تھا لیکن اب بھارت،بنگلہ دیش اورنیپال میں موجود مٹھی بھر شیر شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ ناپید ہوجانے کے خطرے سے دوچار ایک اور جانور ، گینڈا ہے۔ اس کا ایک کلو سینگ ایک لاکھ ڈالر میںفروخت ہوتا ہے۔ اس طرح یہ قیمت میں سونے سے بھی مہنگا ہے۔اگرچہ سائنسی تحقیقات ان باتوں کی نفی کرتی ہیں لیکن اس کے باجود مشرق کے حکیم اس کے پراسرار طبی خواص پریقین رکھتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ گینڈے کے سینگ کی قیمت میں چین کی بجائے ویت نام کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ خدا جانے کیوں اور کیسے وہاں کے ماہرین کو یقین ہوچلا ہے کہ اس بے زبان کے سینگ سے کینسر کا علاج ممکن ہے۔ اس طبی جہالت کی وجہ سے فطرت کی تخلیق کا شاہکار، یہ جانور شدید خطرے سے دوچار ہوچکا ہے۔ 
چین، ویت نام اور تائیوان جیسے ممالک کی آمدنی میں خاص طور پر گزشتہ چند عشروں کے دوران اضافہ ہوا ہے، یہاں نیا نیا امیر ہونے والا طبقہ وجود میں آیا ہے جس کے دستر خوان پر شارک، پنگوئین، کوبرے کا دل، یاک کے اعضا سمیت کسی چیز کی ممانعت نہیں۔ بلاتحقیق نتائج نکالنے والے معالجوں کے ابروئے خمدار کا اشارہ پاتے ہی وہ کسی بھی ایسے جانور، پرندے، کیڑے وغیرہ پر پل پڑتے ہیں جس سے کسی قسم کی قوت ملنے کا ذرا سی بھی احتمال ہو۔ عملی طور پر چین میں جانوروں اور پرندوں کی بہت سی اقسام ناپید ہوچکی ہیں ؛ چنانچہ دولت مند خوش خوراک دنیا کے دیگر ممالک سے ان جانوروں اورپرندوں کا گوشت کسی بھی قیمت پر منگوانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ 
ایک اور شریف النفس جانور، جو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے، وہ ہاتھی ہے۔ہرسال افریقہ میں پنتیس ہزار ہاتھی ہلاک کیے جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ صرف اس کے دانت ہیں جو پچیس سوڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ تاہم چینی حکومت کی طرف اس کے دانتوں کی خریدوفروخت پر قدغن لگانے کی وجہ سے اس کی قیمت میں خاطرخواہ کمی واقع ہوئی۔ اس کے باوجود شکار مافیا پورے افریقہ میں ہاتھیوں کو چیونٹیوں کی طرح مسلتا چلا جارہا ہے اور اُن کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ چین میں ایک جماعت کی سخت گیر حکومت ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ ممنوعہ جانوروں کے جسم کے حصوں کی تجارت روکنے میں بے بس ہے۔ دوسری طرف معمولی سے جرائم کی پاداش میں شہریوں کو قیدوبند کی سخت سزائیں دی جاتی ہیںاور ہر قسم کے اختلاف کو سختی سے دبادیا جاتا ہے ۔ اگر یہ سیاسی مخالفین کی ویب سائٹس بند کرسکتی ہے تو ممنوعہ جانوروں کے گوشت کی سمگلنگ روکنا اس کے لیے کیا مشکل ہوسکتا ہے؟اس کے بعد جاپانی دوست بھی ''ریسرچ‘‘ کے نام پر وہیل مچھلی پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ پانی میں رہنے والے اس انتہائی ذہین جانور کے شکار پر دنیا بھر میں پابندی ہے لیکن جاپان کے بحری جہازہرسال بہت سی وہیل مچھلیوں کا شکار کرلیتے ہیں۔ ''گرین پیس‘‘ جیسے ماحول دوست گروپس کی تنقید اور مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جاپانی ہر سال بہت سی وہیل مچھلیاں کھا جاتے ہیں۔ 1986 ء میں بنائے جانے والے انٹر نیشنل وہیلنگ کمیشن کا ضابطہ اس عظیم مچھلی کو ناپید ہونے سے بمشکل ہی بچا پایا ہے۔ 
انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے جانوروں کی بہت سی اقسام صفحہ ٔہستی سے مٹتی جارہی ہیں۔ پھیلتے ہوئے شہروں اور کاشت کاری کے لیے استعمال میں لائی جانے والی زمین پر جانوروں اور پرندوں کے قدرتی مسکن ختم ہوتے جارہے ہیں۔ شہروں کے پھیلنے کی وجہ سے جانور اور پرندے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔دنیامیں جو کبھی ان کی ہی تھی ان کے لیے بہت کم جگہ بچی ہے۔ جب یہ اپنے پرانے مسکنوں میں لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو انسان انہیں گولی کا نشانہ بناتے ہیں یا جال بچھا کر پکڑ لیتے ہیں۔ چونکہ اپنی جسامت کے لحاظ سے ہاتھیوں کو بہت زیادہ خوراک درکار ہوتی ہے ، اس لیے بسا اوقات اُن کا مقامی کسانوں کے ساتھ تصادم ہوجاتا ہے ۔ چونکہ ہاتھیوں کے پاس جدید خودکار بندوقوں کے مقابلے میں پرانے ازکارفتہ، لیکن قیمتی، دانت ہوتے ہیں، اس لیے وہ یہ لڑائی ہاررہے ہیں۔ دنیا بھر میں مچھلی کوخوراک کے لیے بکثرت استعمال کیا جارہا ہے، چنانچہ یہ مخلوق بھی بہت دبائو کا شکار ہے۔ جدید ٹرالر، جو تیرتی ہوئی فیکٹریاں ہوتے ہیں، سمندروں کو تیزی سے خالی کرتے جارہے ہیں۔ وہ ایساباریک جال استعمال کرتے ہیں جس کا استعمال ممنوع ہے۔ جب چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑی جاتی ہیں تو اُنہیں واپس پانی میں پھینک دیا جاتا ہے ، لیکن اُ س وقت تک وہ مر چکی ہوتی ہیں۔ 
یورپ کی سمندری حدود میں شکار کا کوٹہ مقرر ہے۔ وہاں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کوٹے سے زیادہ مچھلی نہ پکڑی جائے ، لیکن ایشیائی سمندروں میں کوئی روک ٹوک نہیں۔ اس وقت دنیا میں دولت کی فراوانی ہے لہذا مچھلی کے گوشت کی‘ جس کے بہت سے طبی خواص بھی ہیں طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔اگرچہ مچھلیوں کے فارمز بھی قائم کیے جارہے ہیں ، لیکن انسانی آبادی میں بلاروک ٹوک اضافے کا پہلا نشانہ جنگلی حیات ہی بنتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں