شام میں روس ، امریکہ اور عرب اتحاد کا کردار

شام کی لہو رنگ سرزمین کو دیکھتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ وہاں کون سے گروہ اچھے اور کون سے برے ہیں۔ جب 2011ء میں اسد مخالف مظاہرے شرو ع ہوئے تو ہم سب نے جمہوریت نواز قوتوں کے متحرک ہونے کو خو ش آئند قرار دیا کیونکہ شام کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عوام پر ظلم اور جبر ایک معمول تھا ، ہزاروں افرا د جیلوںمیں تھے ، جبکہ بہت سوں کو ہلاک کیا جاچکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت ان مظاہروں کو ہوا کے تازہ جھونکے سے تعبیر کیا گیا۔ تاہم بہت جلد معتدل مزاج کارکنوں کو میدان سے مار بھگادیا گیا اور اسد حکومت کے خلاف انتہا پسند میدان میں فعال دکھائی دیے۔ انہیں ترکی اور عرب ریاستوں کی مبینہ طور پر حمایت حاصل تھی۔ ان گروہوں کو عرب دنیا نے ''معتدل مزاج جنگجو دستے‘‘ قرار دیا۔ جلد ہی ان دستوں، خاص طور پر النصرہ فرنٹ، جو القاعدہ کی مقامی شاخ ہے، کے ظلم و بربریت کی داستانیں میڈیا کی زینت بننے لگیں۔ اسد حکومت کے خلاف لڑنے والوںمیں سے النصر ہ سب سے خوفناک گروہ بن کر ابھرا۔ 
اس کے بعد کہانی آگے بڑھتی ہے ۔ جلد ہی مختلف گروہوں کے اتصال سے وہ خوفناک گروہ وجود میں آیا جس نے شام اور عراق کے کچھ علاقوں کو کاٹ کر اپنی خلافت کا اعلان کردیا ، آج دنیا اسے داعش کے نام سے پکارتی ہے۔ دنیا کی آنکھیں اُس وقت کھلیں جب اس نے دیکھا کہ داعش کی بربریت کے سامنے النصرہ فرنٹ اور دیگر انتہا پسند ''معتدل مزاج ‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی نے خود کو دنیائے اسلام کا خلیفہ قرار دے کر اپنی بیعت کرنے کا حکم دیا۔ دیگر گروہوں کے برعکس اس نے انٹر نیٹ کے موثر استعمال سے اپنا آن لائن پراپیگنڈا نہایت موثر طریقے سے پھیلانا شروع کردیا۔ آن لائن ویڈیوز میں دنیا اس کی سفاکیت دیکھ کر سکتے میں آگئی۔ اس دوران ان انتہا پسندوں کو ترکی اور عرب ریاستوں کے کسی نہ کسی ذرائع سے امداد ملتی رہی۔ حال ہی میں ایسی رپورٹس منظر ِعام پر آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی کا بارڈر اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کی آمد ورفت کے لیے کھلا رہتا تھا۔ 
ایسا لگتا تھا کہ جیسے حالات اسد کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اورکسی بھی لمحے شامی حکومت گر جائے گی، اگرچہ اس کی پشت پر ایران تھا ، لیکن اب روس کے میدان میں آنے سے حالات پلٹا کھانا شروع ہوگئے ہیں۔ آج کل شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب کے گردونواح میں شدید لڑائی ہورہی ہے۔ یہ شہر باغیوں کا سب سے اہم ٹھکانہ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب روسی بمباری کی وجہ سے سرکاری فورسز اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیںگی۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہو کر ترکی کے بارڈر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس دوران ترکی اور اہم عرب ریاستیں اپنے پراکسی دستوں کی تباہی بھی دیکھ رہی ہیں۔ انھوں نے روس پر جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا ہے لیکن اس کا پیوٹن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔یورپی یونین کو خوف ہے کہ اب مزید مہاجرین ان کی سرحدوں پر جمع ہوتے دکھائی دیں گے، چنانچہ اُنھوں نے بھی ماسکو سے ہاتھ روکنے کی اپیل کی ہے،لیکن جس سرعت اور عزم سے روس، ایران، شام اور حزب اﷲ کارروائی کررہے ہیں، تاثر ہے کہ اب انسانی ہمدردی کا واویلا اُنہیں نہیں روک پائے گا۔ اس دوران ایک اہم عرب ملک یمن میں شہری ٹھکانوں پر بے رحمی سے بمبار ی کرتے ہوئے انسانی جانیں تلف کرنے کے بعد اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی پر جنگی جرائم کا الزام عائد کرے۔ 
حالیہ واقعات میں امریکی کردار انتہائی مبہم رہا ہے۔ اگرچہ اس نے اسد حکومت کے لیے روس کی پشت پناہی پر بظاہراحتجاج کیا ہے ، لیکن اس نے بھی داعش پر بمباری شروع کردی ہے۔ اس دوران روسی طیارحلب کے نزدیک انتہا پسندوں پر بمباری کرتے ہوئے داعش کے خلاف لڑنے والے شامی کردوں کی مدد کررہے ہیں۔ اس سے روس اور امریکہ کے درمیان ایک خاموش معاہدے کا تاثر ملتا ہے۔ اس سے پہلے امریکہ ترکی اور عرب ریاستوں کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کررہا تھا لیکن اب اسے احساس ہوچکا ہے کہ ایران اور روس کی پشت پناہی کی وجہ سے اسد کو ہٹانا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ جاری رہے گی اور مہاجرین یورپ کا رخ کرتے رہیں گے۔ اس جنگ میں مذاکرات خارج ازامکان ہیں کیونکہ ہر فریق کو یقین ہے کہ وہ فتح کے قریب ہے۔ تاہم تاریخ گواہ ہے کہ خانہ جنگی میں مکمل فتح کا تعین کرنے یا کسی فریق کو شکست سے دوچا ر کرنے میں طویل وقت لگ جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مشرق ِوسطیٰ میں خون ریزی تھمنے کا فی الحال کو امکان نہیں۔ 
واشنگٹن دیکھ رہا ہے کہ اگر اس نے ترکی اور عرب ریاستوں کو خوش کرنے کے لیے ماسکو کی مخالفت کی تو جنگ مزید طول اور شدت پکڑجائے گی۔ ممکن ہے کہ یہ مزید کئی سال تک جاری رہے۔ اگر ہونے والی بمباری سے ابھرنے والے خطوط کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ شام کی تقسیم ہونے جارہی ہے ، جس میں اسد کی فورسز کے پاس حلب کے جنوب سے لے کر مغرب تک کاعلاقہ ہوگا جبکہ داعش اور دیگر اسلامی گروہوں کے پاس صحرائی خطے پر مشتمل مشرقی علاقے ہوںگے۔ شام کا شمالی علاقہ کردوں کے پاس ہوگا۔ اگر ایسی تقسیم ہوتی ہے تو ترکی اور سعودی عرب اس کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے کیونکہ اس صورت میں اسد، جن سے وہ انتہا ئی نفرت کرتے ہیں، کا اقتدار طول پکڑ جائے گا۔ ترکی کے لیے اس کی سرحد کے نزدیک شام میں نام نہاد کرد ریاست کا وجود ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہوگا کیونکہ اس سے اس کی کرد آبادی کو بھی شہ ملے گی، اور وہ بھی علیحدگی کی تحریک شدید تر کردیںگے۔ درحقیقت ترک کردوں کا علیحدگی کا مطالبہ موجود ہے۔ عرب ریاستوں کے لیے علوی اسد کو اقتدار سے ہٹانے سے ناکامی ایران کی فتح کے مترادف ہوگی۔ 
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو وہ اس فتح کے بعد نہ صرف شام کے ساحل ، طرطوس(Tartus) میں اپنا نیول بیس برقرار رکھ سکے گا بلکہ ایک ایسی عالمی طاقت بن کر بھی ابھرے گا جو اپنی سرزمین سے دور اپنی کلائنٹ ریاست کی حفاظت کرسکتا ہے۔ اس سے عالمی معاملات میں وہ اپنا کھویا وقار حاصل کرلے گا۔ اس کے علاوہ لیبیا اور عراق میں آمر حکومت کو فوجی طاقت سے ختم کرنے سے حاصل ہونے والے تلخ سبق کے بعد ماسکو کے اقدام کو تحسین کی نظروں سے بھی دیکھا جائے گا کہ اس نے شام میں فوجی طاقت سے حکومت کا تختہ الٹنے سے بچایا ہے۔ وہ گروہ جو بشار الاسد کو رخصت ہوتا دیکھنے کے آرزو مند تھے ، اُنہیں مایوس ہونے کی بجائے یاد رکھنا چاہیے کہ لیبیا اور عراق میں سے قذافی اور صدام حسین کو ہٹانے سے خطے میں امن قائم ہونے کی بجائے داعش جیسے گروہوں نے سراٹھا لیا، چنانچہ اسد کوہٹانے کا معاملہ شامی عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ امکان ہے کہ عرب ریاستوں کی طرف سے شام میں فوجی بھجوائے جانے کی دھمکی چندہی دنوں میں جھاگ بن کر بیٹھ جائے گی ، کیونکہ پیوٹن کے تیور سمجھنے میں کسی کو بھی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔ درحقیقت اس ایشو کا بہترین حل یہی ہے کہ روس اور امریکہ کسی طور مل بیٹھ کر اس کا حل تلاش کر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں