انڈیا کو لاحق تشویش

سموئل جانسن نے 1775ء میں لکھا تھا ۔۔۔'' حب الوطنی کسی بھی لفنگے کی آخری جائے پناہ ہوتی ہے۔‘‘آنے والے برسوں میں یہ مشہور جملہ تنقیدی گفتار میں سند کا درجہ پا گیااور کثرت ِ استعمال کے باوجود اس کی کاٹ کم نہ ہوئی۔ دراصل حب الوطنی کا چابک منفی قوم پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کے گھوڑوں کو مہمیز دینے کے لیے بہت موثر ثابت ہوا۔ حکومتیں اور طالع آزما عوام کے جذبات کو کنٹرول کرنے اور انہیں کسی خاص نہج ُپر ڈھالنے کے لیے ایسے جذبات ابھارتے ہیں۔ 
اس وقت ہم امریکی صدارتی انتخابات کے لیے جاری مہم کے دوران ایسے جذبات کی منہ زور روانی دیکھتے ہیں۔ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حامیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ''امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنانے‘‘ کی کاوش میں ان کا ساتھ دیں۔ ذرا سوچیں، اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے دولت مند اور عسکری اور سفارتی اعتبار سے طاقتور ترین ملک ہے ، اس لیے یہ بات واضح نہیں کہ مسٹر ٹرمپ کے پیش ِ نظر طاقت کا معیار کیا ہے جو ابھی قابل ِحصول ہے؟تاہم انتخابات کے موسم میں منطق نہیںدیکھی جاتی۔ یہ نعرہ ان کے پرچم تلے زیادہ سے زیادہ حامیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کافی ہے۔ دوسری طرف، ہمارے دیس کے قریب، سرحد پار جواہر لال یونیورسٹی میںایک طالب علم رہنما کو غداری کے الزام میں گرفتار کرنے پر برپا ہونے والا ہنگامہ ظاہر کرتا ہے کہ خود کو غیر 
محفوظ سمجھنے والی حکومت نوآبادیاتی دور کا ایک متروک قانون استعمال کرتے ہوئے قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔جب زیر ِ حراست طالب علم رہنما، کنہیا کمار کوعدالت میں وکلا نے تشدد کا نشانہ بنایا تو لبرل سوچ رکھنے والے بہت سے بھارتی برہم ہوئے۔ اس تنازع کے دوران میرا ایک بھارتی قاری سے کچھ ای میلز کا تبادلہ ہوا۔اُن کے نظریات لبرل سوچ سے مختلف ہیں۔ ایک ای میل میں وہ لکھتے ہیں۔۔۔''حالیہ عشروں کے دوران جواہر لال نہرویونیورسٹی ایک ایسی فیکٹری بن چکی ہے جہاں حکومت کے مالی تعاون سے بائیں بازوکے لبرل طبقے پروان چڑھائے جاتے ہیں تاکہ اُن کے ذریعے سیاسی نظریات کو فروغ دیا جاسکے۔ 'بتیس سالہ طالب رہنما‘ کنہیا کمار کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ اس کی سابق 'خدمات‘ اور حالیہ دنوںحاصل ہونے والی بدنامی اُسے سیاست کے میدان میں کامیاب بنا دے گی۔ اور یہ انڈیا کا سب سے زیادہ نفع بخش 'کاروبار‘ ہے‘‘۔
یہ منفی تبصرہ حکومت کی مخالفت کرنے والے طالب علم رہنمائوں کی شاندار روایت کو نظر انداز کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر بھارتی طالب علم رہنما بائیں بازو کے نظریات کے حامل رہے ہیں۔ اس سے نوجوانوں میں بالعموم پائے جانے والے جذبات اور مثالیت پسندی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور سماجی طور پر معاشرے میں رواں رہنے والے تبدیلی کے عمل کا بھی پتہ چلتا ہے۔ دنیا بھر کے طلبہ جابر حکومتوں کے خلاف تحریک چلانے کی روایات رکھتے ہیں۔ طلبہ کی چلائی جانے والی تحریکوں کی وجہ سے بہت سے جابر حکمران عوام میں غیرمقبول ہو کر کمزور ہوتے دیکھے گئے، یا پھر وہ اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں تک جواہر لال یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کا تعلق ہے تو کنہیا کمار پر الزام تھا کہ اُس نے بھارت مخالف نعرہ لگایا۔ طالب علم رہنما اس الزام کی تردید کرتے ہیں، لیکن فرض کرلیں کہ اُس نے ''بھارت کی بربادی‘‘ کا جملہ زبان سے ادا کیا تھا تو یہ محض لفاظی تھی، اس نے عملی طور پر بھارت کو نقصان پہنچانے والی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس پر حکومت کے شدید رد ِعمل نے اس کے معتدل مزاج اور روادار ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے ۔ 
تاہم یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی بھارت میں ایسے واقعات کا تسلسل دکھائی دیتا ہے جو اسے اُس راستے سے ہٹا ہوا ثابت کرتے ہیں جو اس ریاست کے بانی رہنمائوں کے پیش ِ نظر تھا۔جب نریندر مودی گجرات کے وزیر ِاعلیٰ تھے تو اُنھوں نے اپنی ''نگرانی‘‘ میں ہندومسلم فسادات کرائے۔ ایک نامور بھارتی مصور ایم ایف حسین (1913-2011ء )کو اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جبری جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی کیونکہ ان پر بھارتی عدالتوں میں بہت سے مقدمات درج کیے گئے تھے۔ اُن پر عوام کے جذبات مجروح کرنے کا الزام تھا۔ 1988ء میںان کے گھر پر بجرنگ دل کے شدت پسندوں نے حملہ کیا اور ان کی بہت سی تصاویر چرا لیں۔ ''انڈیا کا پکاسو‘‘کہلانے والے اس عظیم مصور پر الزام تھا کہ اس نے ''مدر انڈیا ‘‘ کو عریاں دکھایا ہے۔گزشتہ برس پاکستان کے سابق وزیر ِخارجہ کی ایک کتاب کی ممبئی میں تقریب ِ رونما ئی کو شیوسینا کے انتہا پسند وں نے طاقت سے روک دیا۔ اسی تنظیم نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو نئی دہلی میں مظاہرہ کرکے کھیلنے سے روکا تھا۔ ملک میں ہندو انتہا پسندی کے بڑھنے کا ایک اور اظہار اُس واقعہ سے ہوا جب ایک مسلمان شہری کو گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ہندو ہجوم نے تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں، وگرنہ ایسے بے شمار واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت سے جمہوری اور سیکولر اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں۔ انڈین لبرل افراد کے لیے یہ صورت ِحال بہت پریشان کن ہے ۔ شواہدبتاتے ہیں کہ یہ رجحان اب آسانی سے تبدیل نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ جب کسی معاشرے میں دائیں بازوکے انتہا پسندانہ جذبات پروان چڑھ جائیں تو اس معاشرے کو نارمل ہونے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ اس وقت چلیں دائیں بازو کی بی جے پی کی حکومت ہے ، جب لبرل جماعت، کانگرس اقتدار میں تھی تو بھی وہ ہندوتوا کے جذبات سے اغماض برتتی تھی۔اس کی وجہ صرف سیاسی مفاد تھا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ وہ اشرافیہ جو نوآبادیاتی دور میں پروان چڑھی تھی یا جس نے مغرب اقدار کے مطابق انگریزی تعلیم حاصل کی، اُس کی سیاسی طاقت کمزور ہوتی گئی۔ اس کے بعد سیاسی طاقت اقدار سے محروم طالع آزما افراد اور جماعتوں کے ہاتھ آگئی۔ اُنھوں نے سیاسی مفاد کے لیے عوام اور دائیں بازوکو خوش کرنے کی پالیسی اپنالی۔ اگرچہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے لیکن اب اس میں سیکولر اقدار کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں