پولیس کی قابلِ رحم حالت

اگلے روز کراچی میں پولیس کے سات اہلکاروں کو گولی مارکر ہلاک کردیاگیا تو ایک مرتبہ پھر ہم معمول کے مذمتی بیانات دیتے اور شہدا کے بلند درجا ت کی دعائیں کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور میںجرائم پیشہ عناصر (چھوٹو گینگ) نے چھ پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔میڈیا کی توجہ یہاں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کی طرف ہوگئی ، چنانچہ ان پولیس والوں کو دفن کرتے ہی بھلا دیا گیا۔ اسی کارروائی کے دوران چھوٹو گینگ نے چوبیس پولیس اہلکاروں کو اغوا بھی کر لیا۔ کراچی میں گزشتہ چار برسوںکے دوران چھ سو سے زائد پولیس اہل کاروں کو دن دہاڑے بے دردی سے ہلاک کردیا گیا۔ پولیس والوں کی ہلاکت کے واقعات اتنے عام ہیں کہ جب تک کوئی بہت ہی خونی واقعہ نہ پیش آئے ، یہ بمشکل ہی میڈیا کی توجہ حاصل کرپاتے ہیں۔ ان واقعات کی نہ بریکنگ نیوز بنتی ہے اور نہ ہی یہ اگلے دن اخبار کے پہلے صفحے پر جگہ پاتے ہیں۔ حالیہ دنوں کراچی کی گلیوں میں گشت کرنے والے رینجرزکو بھی نشانہ بنانے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ 
ماضی میںایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ٹارگٹ کلرز پر اس خونریزی کا شک کیا جاتا تھا ، اب انواع واقسام کے جہادی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ چنانچہ کراچی کو صاف کرنے کے لیے جاری رینجرز آپریشن اور مبینہ مقابلوں میں بہت سے انتہا پسندوں کو ہلاک کیے جانے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر زہریلے ناگوں کا ایسا جنگل ہے جس میں انتہا پسند جب چاہے پولیس اور رینجرزاہل کاروں کو نشانہ بنا لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں ان گروہوں کو شناخت کرنے اور اُن کے ٹھکانوں کا کھوج لگانے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ فورنزک شہادت کے مطابق جس اسلحے سے اورنگی میں پولیس والوں کو ہلاک کیاگیا، اسے گزشتہ دوبرسوں سے درجنوں وارداتوں میں استعمال کیا جاتا رہا ، لیکن آج تک اس گینگ کو گرفتار کرنا تو کجا، اس کا کھوج بھی نہ لگایا جاسکا۔ 
اس میںکوئی شک نہیں کہ پولیس کے لیے دوکروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو کنٹرول آسان کام نہیں، خاص طور پر اُس وقت جب شہر میں صرف پچیس ہزار پولیس فورس ہو، اور اس کا ایک تہائی حصہ نام نہاد وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس فورس نے ہماری حفاظت کرنی ہے ، اس کی اپنی تربیت کا معیار بہت پست ہے ۔ ان کے پاس ہتھیار بھی ناقص ہیں اور اُنہیں اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے کے عوض بہت کم تنخواہ ملتی ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ عوام کے نزدیک پولیس کی ساکھ بہت اچھی نہیں۔ اس کی وجہ ان سے منسوب بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی جاتی ہے ۔ دراصل آزادی کے وقت ہمیں ایسی پولیس فورس ورثے میں ملی جسے نوآبادیاتی ریاست، نہ کہ عام شہریوں، کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ صورت ِحال ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی ۔ 
کراچی میں جاری تین دہائیوں کی دہشت گردی کے باجود قائم ہونے والی مختلف حکومتیں پولیس فورس کو تربیت ، اسلحہ اور اعتماد دینے میں ناکام رہی ہیں۔ اگر ہمارے پولیس اہل کاروں میں اعتماد کا فقدان ہے تو اس کی یقینی وجہ موجود ہے ۔ وہ گلے سڑے اور بدعنوان سیاسی نظام تلے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اکثر اوقات اُنہیں خود ملازمت حاصل کرتے وقت رشوت دینا پڑی تھی، چنانچہ جب وہ ایک مرتبہ یونیفارم پہن لیتے ہیں تو کی گئی ''سرمایہ کاری‘‘ کی وصولی، اور منافع، کے لیے بدعنوان راہیں اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ پنجاب، جسے انتظامی طور پر سندھ سے بہت بہتر کہا جاتا ہے ، کے پاس بھی جدید اور موثر پولیس فورس موجود نہیں۔ راجن پور میں رونما ہونے والا سانحہ ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹو گینگ پر حملہ کرنے سے پہلے کوئی تیار ی نہیں تھی۔ پریس رپورٹس کے مطابق آئی جی پولیس نے جذباتی اعلان کیا تھا کہ اگر اہل کارکچے میں جانے سے خائف ہیں تو وہ اکیلے ہی چلے جائیں گے ۔ اس طرح یہ کارروائی کسی منظم طریقے سے نہیں، بلکہ جذباتی اشتعال کے بل بوتے پر کی گئی ، چنانچہ پولیس والوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ چھ اہل کار ہلاک ہو گئے جبکہ چوبیس کو گینگ نے یرغمال بنا لیا۔ مجھے امید ہے حکومت پنجاب اس سانحے کی انکوائری کرائے گی۔ اس کا جو بھی نتیجہ آئے ، پولیس کی ٹریننگ اور ہتھیاروں کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ پررہے گا۔ 
میں نے سندھ پولیس میں سینئرا فسروں، جن میں سے کچھ سے میری دوستی رہی ہے ، سے پوچھا کہ ہم اتنے عرصے اپنی پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیوں نہ کرسکے۔ ان سب کی ایک ہی شکایت تھی کہ اس کی وجہ فنڈز کی کمی ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ(اُن سے معذرت) بہت مہنگی گاڑیاں چلاتے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا مطلب ہے سینئر لیول پر فنڈز کی کمی کا مسئلہ نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا افسوس ناک تعلیمی نظام بھی بہتر نوجوانوں کو سامنے نہیں لاتا ۔ پولیس میں بھرتی ہونے والے نوجوان ، جن کا تعلیمی معیار انتہائی ناقص ہوتا ہے ، جدید مہارتیںحاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہی انسانی وسائل فوج میں جاتے ہیں تو اُنہیں نہایت پیشہ وربنیادوں پر تربیت دے کر ایک منظم فورس میں بتدیل کردیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کو ٹریننگ دینے والوں میں بھی جذبے اور مہارت کی کمی ہے ۔ 
نائن الیون کے بعد زیادہ تر مغربی ممالک نے اپنے انسداد دہشت گردی کے قواتین کو سخت اورسکیورٹی فورسز کو طاقتور بنا لیا۔ اس کے نتیجے میں انتہا پسند بہت کم دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ تاہم اس تیار ی کے باجود حالیہ دنوں پیرس ، کیلی فورنیا اور برسلز میں ہونے والے حملے ظاہر کرتے ہیں کہ انتہا پسند کہیں بھی وار کرسکتے ہیں۔ دراصل ایک خود کش حملہ آور کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ جب وہ مرنے کے لیے تیار ہو کر نکلتا ہے تو اُسے روکنا یا اُس کی شناخت کرنا آسان نہیںہوتا۔ ہماری عدالتوں اور ججوں کے برعکس مغرب میں انتہا پسندوں کے ساتھ کوئی ہمدردی روا نہیںرکھی جاتی۔ جہادی نظریات رکھنے والے گرفتار شدہ انتہا پسندوں کو بہت جلدسزاسنادی جاتی ہے ۔ انتہا پسندوں سے ہمدردی کرنے یا اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جبکہ ہمارے ہاں بہت سے جج، افسران اور سیاست دان انتہاپسندوں کے نظریات سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ 
چونکہ ہمارے ہاں پولیس شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ، اس لیے فوج کو وہ کام کرنا پڑتا ہے جو اس کے فرائض میں شامل نہیں تھا۔ چنانچہ پولیس کی ناکامی کے بعد فوج کو چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ اسی طرح کراچی میں رینجرز بھی وہی کچھ کررہے ہیں جو بنیادی طور پر پولیس کی ڈیوٹی تھی۔ یہ چیز نہ تو فوج ، جس پر بہت دبائو ہے ، کے لیے ٹھیک ہے اور نہ ہی نحیف وناتواں جمہوریت کے لیے ۔ ہمارے رہنمااس بات کو جتنا جلد سمجھ لیں، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں