’’ ایک چکر ہے میرے پائوں میں زنجیر نہیں‘‘

آپ کو جو عجیب اور ناخوشگوار سا شور دور سے سنائی دے رہا ہے وہ دراصل آصف علی زرداری کے قہقہے ہیں جو وہ پاناما لیکس پر وزیر ِ اعظم نواز شریف کی ابتلا پر دل کھول کر لگارہے ہیں۔سابق صدر چاہے دوبئی میں ہوں یا لندن یا نیویارک میں، وہ جہاں بھی ہیں، بچوں کے نام پاناما پیپرز میں آنے سے نواز شریف کو پہنچنے والے سیاسی اور ذاتی صدمے پر جشن منا رہے ہوں گے ۔ اپنی خوش بختی پر وہ مزید نازاں ہوں گے کہ اس نازک دور میں،جب ملک میں انکشاف اور احتساب کا سماں بندھا ہواہے، وہ ملک سے محفوظ فاصلے پر ہیں۔ 
جس طرح آصف زرداری کو سابق چیف جسٹس، افتخار چوہدری سے مستقل بنیادوں پر مداخلت اور تعاقب کرنے کا شکوہ رہتا تھا، اسی طرح پی ٹی آئی کے قائد، عمران خان بھی نواز شریف کے لیے پیر ِ تسمہ پا بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ عمران خان کے دھرنے ناکام اورانتخابی دھاندلی کاشور قصہ ٔپارینہ بن چکا تھا اور حکومت کسی طور پکڑائی نہیں دے رہی تھی تو پی ٹی آئی کی سیاست پژمردہ اور نڈھال ہو رہی تھی ، لیکن پاناما اسکینڈل نے گویا اس کی رگوں میں زندگی کی لہر دوڑادی ہے۔ یہ کہانی منظر عام پر کیاآئی، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا۔ 
اب عمران خان چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کمیشن کے قیام کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ٹرمز آف ریفرنس اُن کی مرضی سے طے کیے جائیں۔پی ٹی آئی کو موجودہ قانون اس کام کے لیے کافی دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے اصرار کیا کہ ایک نیا قانون منظورکرائے جانے کی ضرورت ہے جو ملک سے باہر کی جانے والی مالیاتی بدعنوانی کا کھوج لگانے کا اختیار دے سکے ۔ وزیر اعظم کے تجویز کردہ ٹرمز آف ریفرنس منی لانڈرنگ سے لے کر بنکوں کے قرضے معاف کرانے تک، ہر قسم کی مالی بدعنوانی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ذراسوچیں کہ کتنے سیاست دان اس حوض ، جسے عام طو رپر قومی خزانہ کہا جاتا ہے ، سے سیراب ہوتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ مائی لارڈچیف جسٹس آنے والے کئی برسوں تک ہاتھ میں چھلنی لیے ریت چھانتے رہیں گے۔ 
ایسا کرتے ہوئے نواز شریف صاحب نے اپنے زیرک نہ ہونے کے تاثر کی نفی کی ہے ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوڈیشل انکوائر ی کے دائرے کوپھیلانے سے وہ اُن بے شمار افراد میں ایک ہوں گے جن پر الزامات ہیں۔ اور ایسی تحقیقات لامتناہی وقت کے لیے چلتی رہتی ہیں۔ بھلے لوگ ان کا برا نہیں مناتے ۔ مزید یہ کہ جہاں ہر کوئی قصور وار ہو، سبھی بے قصور مانے جاتے ہیں۔ فی الحال یہ بات اس مفروضے پر کی جارہی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس جوکھم کو اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے اُن کے ساتھیوں، جو عمران خان کے اصرار پر ہی تحقیقات کررہے تھے، کو پی ٹی آئی کے ہاتھوں کس تضحیک کا نشانہ بنایاگیا۔ محترم چیف صاحب اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ تحقیقات کی رفتار کا دارومدار اس بات پر ہے کہ بیوروکریسی کتنی تیزی سے متعلقہ دستاویزات اُنہیں فراہم کرتی ہے ۔ سب سے اہم بات ، جس سے یقینا چیف جسٹس صاحب بے خبر نہیںہوںگے، یہ ہے کہ زیادہ تر گواہی بیرونی ممالک کے بنکوں، آف شور کمپنیوں اور قانونی فرموں کے پاس ہے۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کیا وہ کسی پاکستانی کمیشن کے ساتھ تعاون کریںگے، کیونکہ وہ اس ریاست کے قوانین کے تابع ہرگز نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف ایک عشرہ تک چلنے والے سوئس اکائونٹ کیس کا کیا انجام ہوا۔ اس کیس پر کئی ملین ڈالر خرچ کرنے کے بعد نواز شریف اور پرویز مشرف کو ہاتھ ملتے ہوئے ختم کرناپڑا۔ 
چنانچہ ان ٹھوس حقائق کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس صاحب بھڑوںکے چھتے میں ہاتھ کیوں ڈالنا چاہیں گے ؟وہ بڑے آرام سے یہ کہہ کر گیند واپس حکومت کے کورٹ میں پھینک سکتے ہیں کہ اس کے پاس تحقیقات کرنے کے لیے ایجنسیاں موجود ہیں، وہ پاناما لیکس پر کام کرنے کے لیے موزوں ہیں۔ امید ہے کہ ہم گھوم پھر کر واپس نیب پر آجائیں گے ۔ خیر ہم جہاں بھی جائیں، عمران خان کی دھمکی یہ ہے کہ وہ نواز شریف حکومت کو چلتا کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر احتجاجی تحریک شروع کرنے جارہے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس مرتبہ اُن کا رخ اسلام آباد کی بجائے شریف فیملی کی رہائش گاہ رائے ونڈ کی طرف ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ دارالحکومت پارلیمنٹ کے باہر گندگی ، شور اور بے ہنگم نعرہ بازی سے محفوظ رہے گا۔ 
پلیزمیری بات کا غلط مطلب نہ لیں۔ اگر نواز شریف صاحب نے کچھ غلط کام کیا ہے تو اُن کا احتساب ہونا چاہیے ۔ مجھے یقین ہے کہ اُن ناقدین کی بات میں وزن ہے جو کہتے ہیں کہ اُنھوںنے اپنے خاندان کے اثاثوں میں اُس وقت تیزرفتاری سے اضافہ کیا جب وہ ضیا دور میں پنجاب کے وزیر ِخزانہ ، اور بعد میں وزیر ِاعلیٰ بنے ۔تاہم ہمارے ہاں سیاسی سرپرستی کو بدعنوانی جیسا جرم نہیں سمجھا جاتا۔ اپنے عہدے سے فائدہ اٹھا کر اپنے عزیز واقارب کو پرمٹ، قرضے، لائسنس اور ٹھیکے دلانا اور ان کے مالی مفادات کا خیال رکھنا اخلاقی طور پر غلط سہی ، لیکن کیا ہم کوئی بہت ہی بااخلاق قوم ہیں؟اس کے علاوہ یہ چیزیں ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان کا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ہوتا ۔ یہ ٹھیکے آنکھ کے اشارے پردیے دلائے جاتے ہیں، اور سب جانتے ہیںکہ ابروئے خم دار پر کس کی گرفت ہے ؟ایک فون کال اور پھر کسی چیز کا بھی کال (کمی) نہیں۔ 
جہاں تک موجودہ الزامات کا تعلق ہے تو ان میں فوکس نواز شریف کے دوبیٹوںاور ایک بیٹی پر ہے کہ وہ لندن کی مے فیئر پراپرٹی کو کسی سمندر پارکمپنی کے ذریعے اپنی ملکیت میں رکھتے ہیں۔ تاہم یہ تو ہم گزشتہ بیس سال سے سن رہے ہیں۔ ان کی بازگشت 1990ء کی دہائی سے سنائی دے رہی ہے لیکن کسی کی نبضیں برہم ہوئیں، نہ کسی کی پیشانی شکن آلود۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے موجودہ وزیر ِاعظم کی ٹیکس ادائیگی کا ریکارڈبھی بہت اچھا نہیں۔اگر تحقیقات کرنی ہیں تو اس رخ پر کی جائیں کہ سیاست دان ٹیکس کتنا ادا کرتے ہیں اور ان کی شاہانہ زندگی کی ٹرین (معاف کیجئے محاورے میں گاڑی ہے ) کیسے چلتی ہے ۔ ایف بی آئی نے Al Capone کو ٹیکس کی عدم ادائیگی پر ہی سزاسنائی تھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں