چار سو تیس ملین ڈالر مین!

آفریدی کتنی مالیت کا حامل ہو گا؟ ایک ملین ڈالر؟ دس ملین؟ نہیں، درست جواب ہے چار سو تیس ملین ڈالر۔ پلیز، میں شاہد آفریدی کی بات نہیں کر رہا، وہ کرکٹ سٹار رہے ہیں، میں شکیل آفریدی کی بات کر رہا ہوں جو اس وقت تئیس سال قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ اُس کا جرم کیا تھا؟ یہی کہ اُس نے پانچ سال قبل ایبٹ آباد کے احاطے میں روپوش اُسامہ بن لادن کا کھوج لگا کر امریکیوں کو بتایا اور پھر سیل کمانڈوز کی ایک ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے دنیا کے سب سے مطلوب شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ 
حالیہ دنوںکافی تاخیر کے بعد شکیل آفریدی کے نام کی ایک بار پھر میڈیا میں بازگشت سنائی دی‘ جب امریکی ارکان کانگرس نے F-16 طیاروں کی خریداری پر پاکستان کو دی جانے والی امدادی قیمت کو شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کر دیا۔ ابتدائی معاہدے کے تحت امریکہ پاکستان کو فراہم کیے جانے والے آٹھ F-16 طیاروں کی کل مالیت سات سو ملین ڈالر میں سے چار سو تیس ملین ڈالر اپنی جیب سے ادا کرے گا‘ جبکہ پاکستان کو دو سو ستر ملین ڈالر ادا کرنے ہوں گے؛ تاہم اب کئی ارکانِ کانگرس کے اعتراض کے بعد کہا گیا ہے کہ امریکہ ایک پائی ادا نہیں کرے گا۔ اگر پاکستان یہ طیارے چاہتا ہے تو اسے تمام رقم اپنی جیب سے اد اکرنا ہو گی۔ اگر ہمیں F-16 طیارے درکار ہیں‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جیل میں پڑے ہوئے ڈاکٹر شکیل آفریدی چار سو تیس ملین ڈالر مالیت کے حامل ہیں۔ 
واشنگٹن نے ہمیں اپنے دوٹوک فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے کہ آپ نے طیارے لینے ہیں اور ہم نے آفریدی۔ اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص سفارت کارانہ انداز میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ ڈاکٹر آفریدی کو دو منٹوں میں رہا کرا لیں گے۔ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے نامزدگی کی دوڑ میں شریک سیماب صفت ٹرمپ سے آنکھیں چار کرتے ہوئے ہمارے چوہدری نثار گویا ہوئے: ''شکیل آفریدی کے مستقبل کا فیصلہ پاکستانی عدالتوں نے کرنا ہے‘‘۔ چوہدری صاحب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بغرض نصیحت تلقین کی کہ ''اُنہیں دیگر ممالک کی خود مختاری کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے‘‘۔
کیا یہ سب کچھ کسی جانی پہنچانی صورت حال کا اعادہ نہیں لگتا؟ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں، ابھی کل کی بات ہے، یہی کوئی جنوری2011ء کی جب سی آئی اے کے ایک ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو موٹر سائیکل سواروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اُسے گرفتار کرکے جیل میں بند کر دیا گیا۔ امریکیوں نے اُس کی رہائی کے لیے دلیل دی کہ اُسے سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔ ہمارے ہاں ٹی وی پر مباحثے کے پروگراموں، کالموں، اداریوں اور عوامی مقامات پر ہونے والی گفتگو میں حب الوطنی کا جنون قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ جذبات کی وہ بے پایاں یلغار کہ وقت کی نبضیں تھمتی محسوس ہوتی تھیں، لیکن ایک خوشگوار دن طلوع ہوا اور مقتولین کے اہل خانہ کو 2.4 ملین ڈالر خون بہا کی رقم ادا کرکے موصوف ہاتھ جھاڑتے ہوئے طیارے میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ قومی وقار اور خود مختاری کے اشتعال کی لاٹھی لیے ہم سانپ تو کیا اس کی لکیر بھی نہ پیٹ سکے! 
چنانچہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو پانچ سال پہلے صرف 2.4 ملین ڈالر کے عوض رہا کر دیا گیا تھا‘ تو اب شکیل آفرید ی کو جیل میں رکھنے پر 430 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنے میں کیا منطق ہے؟ فرق یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ تھا کہ ڈیوس کو روکنے سے فوجی امداد میں خلل واقع ہو سکتا ہے؛ چنانچہ اُسے چھوڑ دینا ہی دانائی تھا۔ دوسری طرف شکیل آفریدی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سیل کمانڈوز کی کارروائی کی وجہ سے ہماری سکیورٹی حصار کی توہین ہوئی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ جب یہ خبر بریک ہوئی کہ امریکی کمانڈوز کی ٹیم ہماری سرزمین میں دور تک اندر آئی، بن لادن کو ہلاک کیا اور اس کی لاش کو افغانستان میںاپنے بیس پر لے گئے تو غیظ و غضب کی طوفانی بجلیاں ہمارے ہاں کس طرح کڑک رہی تھیں، غصہ لاوہ بن کر کھول رہا تھا، عقل سہمی پھر رہی تھی۔ بظاہر اس کارروائی میں ہمارے دفاعی یا خفیہ اداروں کو آن بورڈ نہیں لیا گیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ کارروائی ہماری اہم ترین فوجی تنصیبات سے ہاتھ بھر کی دوری پر ہوئی تھی‘ اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔ چاہے یہ ہمارے اداروں کی نااہلی تھی یا وہ بن لادن کی موجودگی سے بوجوہ چشم پوشی کر رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے سے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی سبکی ہوئی تھی۔ چونکہ وہ امریکیوں کے خلاف تو کچھ نہیں کر سکتے تھے، اُنھوں نے بن لادن کے احاطے کو مسمار کر دیا۔ اور جب یہ پتا چلا کہ یہ ڈاکٹر آفریدی تھا جس نے امریکیوں کو ''دراز قامت پراسرار اجنبی‘‘ کے بارے میں اطلاع دی تھی تو اگرچہ اُ س کا کردار بہت معمولی سا تھا، اُسے اس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ 
اگرچہ کچھ پاکستانیوں نے شکیل آفریدی کو غدار قرار دیا لیکن وہ امریکیوں کے نزدیک ہیرو ہے۔ اُ ن کے نزدیک اُن کا اتحادی ملک پاکستان، آفریدی کو اس کام کے بدلے سزا دے رہا ہے جس پر وہ میڈل کا مستحق تھا۔ اس سے امریکیوں کو ایک مرتبہ پھر اس بات کے سچ ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ پاکستان دوہری پالیسیاں رکھتا ہے۔ اپنا موقف واضح کرنے کے لیے امریکی حکومت نے جنوری 2014ء میں پاکستان کو ملنے والی امداد سے 33 ملین ڈالر کی کٹوتی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رقم ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے بعد ملے گی۔ پاک امریکہ تعلقات میں صرف یہی ایک رکاوٹ حائل نہیں، امریکی قانون ساز تواتر سے اس ایشو کو اٹھاتے رہتے ہیں کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی سرزمین پر پناہ لے کر افغانستان میں کارروائیاں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکیوں کو ہمارے جوہری پروگرام پر بھی تشویش لاحق رہتی ہے۔ 
بے شک ہم امریکیوں کو بتا سکتے ہیں، جیسا کہ سرتاج عزیز صاحب نے کہا کہ اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں، ہم طیارے کہیں اور سے بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے ۔ ہم کئی عشروںسے بھارتی جنگی مشین کی عددی برتری کو مہارت اور جدید اسلحے سے بے اثر بناتے رہے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ امدادی قیمت پر ملنے والا امریکی اسلحہ تھا جس نے ہمیں اس قابل بنائے رکھا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کے اتار چڑھائو کے باوجود ہم نے معاشی اور دفاعی امداد کے لیے ہمیشہ اسی کی طرف دیکھا۔ نائن الیون کے بعد سے ہمیں 33 بلین ڈالر امداد کی مد میں ملے۔ اب اپنی کمزور معیشت کو دیکھتے ہوئے ہم سینہ تان کر نہیں کہہ سکتے کہ اپنے طیارے اپنے پاس رکھیں، ہم نئے جنگی کھلونے کہیں اور سے خرید لیں گے۔ کشکول بردار ہاتھوں کے ساتھ پُرغرور گردن زیب نہیں دیتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں