لیبر پارٹی کے لیے پریشانی، صادق کے لیے خوشی

واحد برطانوی انتخابات جنہیں پاکستان میں بہت بڑی کہانی کے طور پر اہمیت دی گئی وہ لندن کے میئر کے الیکشن تھے جن میں صادق خان نے کنزرویٹو پارٹی کے زیک گولڈ سمتھ کو شکست سے دوچار کیا ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس دن پورے برطانیہ میں سینکڑوں انتخابی معرکے ہوئے ۔ عام طور پر مقامی کونسلز اور شہری حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹروںکی ترجیح مقامی ایشوز ہوتے ہیں اور وہ ویسٹ منسٹر کی مرکزی حکومت کے خلاف غصہ بھی نکالتے ہیں،لہٰذا اپوزیشن عوامی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سینکڑوں کونسل سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلیتی ہے ۔ لیکن حالیہ دنوں لیبر پارٹی کی صفوں میں پھیلی ہوئی سراسیمگی اور اس کے کچھ ارکان کی طرف سے یہود مخالف بیانات کے بعد سیاسی پنڈت اس کی شکست کے پیش گوئی کررہے تھے۔ یہ بات بھی کی گئی کہ اس کے موجودہ لیڈر ، جرمی کوربائن کے خلاف ''شب خون‘‘ بھی خارج ازامکان نہیں ہے ۔ 
اس کے باوجود انتخابات کے دن دیکھنے میں آیا کہ لیبر پارٹی اپنی سابق عددی گنتی پوری کرنے اور توہین آمیز شکست سے بچنے میں کامیاب رہی۔ لیکن اسے حقیقی زک سکاٹ لینڈ میں پہنچی جہاں یہ سکاٹش نیشنل پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی سے پیچھے رہتے ہوئے اس علاقے میں انتخابی ہزیمت سے دوچار ہوئی، جہاں ا س نے ایک صدی قبل جنم لیا تھا۔ اگرچہ سکاٹ نیشنل پارٹی چند سیٹوں کی کمی سے واضح فتح سے دوہاتھ دور رہی لیکن ا ب یہ سکاٹ لینڈ میں مسلسل تیسری مدت کے لیے آفس میں ہوگی۔ اس کے لیڈر، نیکولا سٹروجن برطانیہ کے انتہائی خوفناک سیاست دان بن کر ابھرے ہیں۔ ان کی جماعت بائیں بازو کے اُن ترقی پسند ووٹروں کے علاوہ قوم پرستوںکو اپیل کرتی ہے جو اس سے پہلے لیبر کے ووٹر تھے۔ سکاٹ لینڈ کے وہ باشندے جو برطانیہ سے علیحدگی کے حق میں نہیں ،ان کے لیے دوسرے آپشن کے طور پر کنزرویٹو پارٹی ہے ۔ چونکہ لیبر پارٹی نے بھی علیحدگی کی مخالفت کی تھی، اس لیے اُسے سکاٹ لینڈ میں جو کہ اس کی سیاسی بنیاد تھا، شکست کھاتے ہوئے تیسرے نمبر پر جانا پڑا۔ 
لیبر پارٹی البتہ ویلز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی ہے اگرچہ یہ دوٹوک فتح حاصل نہیں کرسکی۔ یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ پارٹی نے حیرت انگیز نتائج دیتے ہوئے ویلز اسمبلی میں چھ نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ لیبرپارٹی کے لیے نتائج مایوس کن ہیں لیکن یہ اُس طرح کی شکست سے بہرکیف بچ گئی جس کا سیاسی پنڈت امکان ظاہر کررہے تھے ۔ لندن میں صادق کی فتح لیبرپارٹی کے لیے واحد حوصلہ افزا اشارہ تھی، لیکن یہاں بھی زیادہ ترمبصرین نے کامیابی کا سہرا پارٹی کی پذیرائی کی بجائے امیدوار کی ذاتی کشش کے سرباندھا۔ اس وقت ٹیلی ویژن اور اخبارات کے تمام اہم مبصرین کی رائے ہے کہ لیبر پارٹی کی ناقص کار کردگی آئندہ عام انتخابات میں اس کی کمر توڑ دے گی۔ تاہم یہ انتخابات 2020ء سے پہلے نہیں ہوں گے اور گزشتہ ہفتے کے نتائج کی کیفیت دیر تک برقرار نہیں رہے گی۔ مزید یہ کہ مقامی حکومتوں کے لیے ہونے والے انتخابات کا ٹرن آئوٹ کم ہوتا ہے ۔ 
لیبر پارٹی کی شکست نے حکمران جماعت، کنزرویٹو پارٹی کو عوامی فلاح کے بہت سے منصوبوں میں کٹوتی کرنے کا موقع دے دیا۔ دراصل نسبتاً گمنام رہنما جرمی کوربائن کے پارٹی کی قیادت سنبھالنے کا رد ِعمل کا فی شدید ہوا ہے ۔ ٹونی بلیئر اور گورڈ ن برائون کے دور میں مرکزی حیثیت اختیار کرنے والے رہنمائوں نے بھی ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا؛ چنانچہ پارٹی کی اپنی صفوں میں نمودار ہونے والی دراڑیں اس کی کمزور ی کا باعث بنیں ۔یہی وجہ ہے کہ کنزرویٹوز، جرمی کوربائن کو لیبر کی قیادت کرتے دیکھ کر خوش ہیں، اور انہیں یقین ہے کہ اس شخص کی مخالف کیمپ میں موجودگی اُنہیں 2020ء میں آسانی سے جیتنے کا موقع دے گی۔ لیبر پارٹی کے اندر بھی بہت سے رہنما اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج برطانیہ میں بایاں بازو مین سٹریم معاشرے سے بہت دوری پر ہے ۔ اگرچہ کوربائن پارٹی کے نوجوان ممبران میں بہت مقبول ہیں اور یہ نوجوان سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی حالت کے خلاف ہیں۔ ان نوجوانوں نے اپنی آنکھوں سے 2008ء میں بنکنگ سسٹم کو زمیں بوس ہوتے دیکھا ہے ۔ اگر لیبر پارٹی اب پہنچنے والے نقصان کی تلافی کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بیس سے باہر نکل کر صادق خان جیسی آزاد اور پرکشش شخصیات کو تلاش کرنا ہوگا۔ 
موجودہ سیاسی صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے لیبر پارٹی کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اسے اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کنزرویٹو سے تیرہ فیصد زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوںگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعت نے بہت سے حلقوں کی حدود میں اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کرلی ہے۔ لیبر پارٹی کے سامنے دوسرا راستہ ایس این پی(سکاٹش نیشنل پارٹی) کے ساتھ الائنس قائم کرنا ہے ۔ ایس این پی ہائوس آف کامن میں نشستیں رکھتی ہے، لیکن جرمی کوربائن کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ایس این پی برطانیہ کی ایٹمی آبدوزوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کی مخالف ہے ۔ یہ آبدوزیں برطانیہ کا اہم ترین ڈیٹرنس ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون نے لیبر پارٹی پر تنقید کرنے کے لیے یہی جواز استعمال کیا تھا کہ یہ ایس این پی کے ساتھ مل کر ملک کے دفاع کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ 
تاہم جس دوران لیبر پارٹی کے لیے تاریکی کے بادل گہرے ہورہے تھے، صادق خان کی لند ن میں فتح اس قابل ہے کہ اس پر جشن منایا جاسکے ۔ اگرچہ زیک گولڈسمتھ نے اپنے حریف کے عقیدے کو اپنے سیاسی بیانیے کاحصہ بناتے ہوئے ووٹروں کو انتہاپسندی سے ڈرانے کی کوشش کی لیکن اہل ِ لند ن کی اکثریت نے ان احمقانہ الزامات کو یکسر رد کردیا۔حقیقت یہ ہے کہ لندن کی آبادی بہت تنوع رکھتی ہے ۔ ان کے لیے مذہب بنیادی طور پر ذاتی معاملہ ہے ، اس کا عوامی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوریوں کی حکمت ِعملی کا منفی نتیجہ نکلا، چنانچہ مسٹر گولڈ سمتھ کے لیے اس منفی انتخابی مہم کے نتائج سے دامن چھڑانے میں بہت وقت لگ جائے گا۔ 
ایک پاکستانی آباد کار کے،جو بس ڈرائیور تھا،بیٹے، صادق خان لیبر پارٹی کا پارلیمانی ممبر بننے سے پہلے انسانی حقوق کے وکیل تھے۔ اُن کی شادی ایک انگریز وکیل خاتون سے ہوئی۔ اُنھوں نے اپنے حیرت انگیز سفر میںبہت سے سماجی جمود کو چکنا چور کردیا۔ مثال کے طو رپر وہ ہم جنس پرستی کے حامی ہیں ، اُنھوں نے حال ہی میں جرمی کوربائن پر تنقید کی کہ وہ یہود مخالف بیانات دینے والوں کو کیوں برداشت کررہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک اور پاکستانی ڈرائیور کا بیٹا، ساجد جاوید بھی حکومت میں بزنس سیکرٹری ہے ۔ صادق خان نے حال ہی میں اس صورت ِحال کو اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا: '' آپ لندن کی سڑکوں پر بعض اوقات گھنٹوں بس کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور پھرایک ہی سمت جانے والی دوبسیں اکٹھی آجاتی ہیں۔ ‘‘ان دونوں افراد کی مقامی سیاست میں سربلندی برطانوی معاشرے کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے۔آج کے ماحول میں دومسلمانوں کا مغربی معاشرے میںاس طرح آگے بڑھنا بہت سے پاکستانیوں کے لیے ناقابل ِفہم ہوگا۔ یقینا پاکستان میں یہ دونوں افراد سیاسی میدان میں کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے تھے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں