’’یہ تو وہی جگہ ہے ، گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘

یقینا میری بڑھتی ہوئی عمرایک مسئلہ ہے(میرے لیے) لیکن میں دکھاوے اور مبالغہ آرائی سے کام لینے اور ہمہ وقت خطرے کی گھنٹیاں بجانے سے گریز کرتا ہوں۔ یہ تینوں پاکستانی سیاست کے لازمی اجزا ہیں۔ اس وقت پاناما پیپرز کی وجہ سے اچھالا جانے والا کیچڑ نہ صرف زیادہ گھنا اور سیاہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ سیاست دان بھی اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ ذرا دل یا دیگر اعضائے رئیسہ پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اُن بیچاروں نے کس محنت سے سمندر پار (سمندر پار کرنا کوئی آسان کام ہے ؟) کمپنیاں کھولیںتاکہ دولت کو کسی کی نظر نہ لگے، لیکن اب پگڑیاں اچھالے جانے پر وہ سوچ رہے ہوں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ نیشنل بنک آف پاکستان میں ہی اکائونٹ کھول لیتے۔ پاناما اسکینڈل کی روشنی میں نمایاں ہونے والے اپنی دولت بیرونی ممالک میں رکھنے کی مختلف وجوہ بیان رہے ہیں، جیسا کہ عمران خان نے برطانیہ میں وراثت اور سرمائے پر لگنے والے ٹیکس کو غچہ دینے کی کوشش کی، نواز شریف نے توصاف ہی کہہ دیا کہ اُن کے بیٹے ''غیر ملکی کاروباری افراد‘‘ ہیں، چنانچہ اُنہیں سمندر پار کمپنیوں میں اثاثے رکھنے کا حق ہے۔ جہانگیر ترین گویا ہوئے کہ وہ دستاویزی ثبوت فراہم کرسکتے ہیں کہ اُن کی دولت قانونی طور پر بیرونی دنیا کی طرف سدھاری ، لیکن واپس آنے سے صاف انکاری ہوگئی۔ اسی قسم کے بیانات ہمارے تعاقب میں ہیں تاکہ ہماری پاکستان میں ''پرسکون گرمیاں ‘‘اکارت کردیں۔ 
تاہم جیسے جیسے یہ اسکینڈل پھیلتا جارہا ہے ، اس کی ٹرمز آف ریفرنس میں بھی وسعت آتی جارہی ہے ۔ ایک بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی دوہفتوں کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے لیے فریم ورک طے کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے وقت پر ''کام ‘‘ نمٹانے کے لیے اوور ٹائم لگانا پڑے گا۔ اجتماعی ہسٹریا کی تازہ ترین ستم ظریفی کا اظہار کچھ وہ انگلیاں ہیں جووزیر ِاعظم نواز شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُنہیں مبینہ طور پر غیر شفاف قرار دے رہی ہیں۔ ان انگلیوں میں سے بڑی تعداد کا تعلق پی پی پی سے ہے جس کے لیڈر کو عالمی سطح پر مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جاتا تھا۔ اسی حلقہ ٔ انگشت ِ یاراں میں ایم کیو ایم بھی چراغ بکف ہے جس پر خود منی لانڈرنگ کے الزامات کی بابت لندن میں مقدمہ چل رہا ہے اور جس کے باس کے لندن والے مکان سے نصف ملین پائونڈ رقم بھی برآمدہوئی تھی۔ تو یہ ہیں وہ شرفا جو نواز شریف کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ افریقی کہاوت ہے کہ جب شکاریوں کی تعداد بڑھ جائے تو شکار صاف بچ نکلتا ہے ۔ ٹرمز آف ریفرنس کی تعداد میں اضافے کا سلسلہ دامن ِقیامت سے جڑنے کا امکان پیدا ہوچلا ہے۔ پہلے تو ایم کیو ایم دم سادھے بیٹھی رہی لیکن یکا یک بھائی جان نے بحث میں کودتے ہوئے اصرار کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک لی گئی ہر چھوٹی بڑی کک بیک، کمیشن اور بدعنوانی سے بھی لگے ہاتھوں نمٹ لیا جائے۔ ہرآن وسعت پذیر تحقیقات میں اگلی ایک دو صدیاں بڑے آرام سے گزرجائیںگی، اور موجودہ وزیر ِاعظم کی عمر خیر سے اس وقت چھیاسٹھ برس ہے ۔ 
اس تمام مہم کا آغاز عمران خان نے یک نکاتی ایجنڈے سے کیا تھا، جو کہ نوا ز شریف کو اقتدار سے باہر کرنا تھا، لیکن اب یہ برف کا بنا ہوا گولہ (اسے جلدی میں بنی گالہ پڑھنے سے گریز کیا جائے )ایک سنوبال کی طرح اپنے گرد تحقیقات اور ٹی اوآرز کی اتنی تہیں لپیٹتا جارہا ہے کہ اب اس نے کسی کو کیا پکڑنا ہے ، یہ خود کسی کو پکڑائی نہیں دے گا۔ اس کے حجم کو دیکھتے ہوئے میں شرطیہ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ کسی سیاست دان کی غلط کاری کو بے نقاب نہیں کرپائے گا۔ تاہم اس تمام صورت ِحال سے اگر کوئی چیز متاثر ہوگی تو وہ ہمارا نحیف وناتواں جمہوری نظام ہے ۔ حکومت کو چلتا کرنے کی اس تازہ ترین کوشش سے پہلے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں بہت سی آوازیں غیر آئینی تبدیلی کو ناگزیر قرار دے رہی تھیں۔ خدشہ ہے کہ عوامی عہدیداروں پر بدعنوانی کے الزامات ، جو ثابت ہوں یا نہ ہوں،سے صرف اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی کہ تمام سیاست دان بدعنوان اور ناقابل ِ اعتماد ہیں، چنانچہ اقتدار کو ''ماہرین اور فوجی افسران ‘‘کے حوالے کرکے قوم دھنیا پی کر سوجائے ۔ 
جب قومی اسمبلی میں نواز شریف صاحب کی تقریر، جس میں اُنھوں نے اپنی فیملی اور اس کے کاروباری مفاد کا دفاع کیا، کے بعد اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا تو پوچھنے پر بتایا کہ وزیر ِاعظم نے پوچھے گئے ''سات سوالوں ‘‘ کا جواب نہیں دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ نوا ز شریف کو سکول کا طالب ِعلم سمجھا جارہا تھا جس نے ہوم نہیںکیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے بہت سے سوالوں کے جواب نہیں دیے ، لیکن خاطر جمع رکھیں ، وہ ان کے جواب دیں گے بھی نہیں۔ کئی نسلیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ شریف خاندان کی سٹیل مل اُس وقت نہایت کامیابی سے کاروبار کررہی تھی جب 70ء کی دہائی میں پی پی پی نے اسے قومی ملکیت میںلیا۔ اسے بھی بہت سے دیگر صنعتی یونٹس کی طرح سرکاری افسران کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ تاہم جب شریف فیملی نے ضیا دور میں اسے واپس لیا تو طاقت ور ادارے سے قریبی تعلقات کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی اچھی خاصی تلافی کرلی ۔ جب بطور ایک آڈٹ افسر،میں نے ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا ،جوکہ ریاست کی انٹرپرائز ہے ، کا دورہ کیا تو مجھے خاص صنعتی سرگرمی دکھائی نہ دی۔ جب میں نے جنرل مینیجر سے اس کی وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا کہ اُنہیں زبانی طور پر ہدایت ہے کہ جہاںاتفاق نے پلانٹ یا مشینری سپلائی کرنی ہو، وہاں بولی میں حصہ نہ لیں۔ 
یہ 80ء کی دہائی کی بات ہے ، اُس وقت نواز شریف پنجاب کے وزیر ِاعلیٰ تھے ، اور مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ فیملی بزنس میں ذاتی طور پر شریک بھی تھے یا نہیں، اور نہ ہی میں قسم کھاسکتا ہوں کہ وہ افسر سچ بول رہے تھے ، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پاکستان میں غیر معمولی دولت کمانے کے لیے معمول سے ہٹنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ محتاط الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ شریف فیملی نے بے شک اپنی بے پناہ دولت محنت اور کاروباری ذہانت سے کمائی ہوگی لیکن اس میں کچھ مشکوک طریق کار بھی خارج ازامکان نہیں ہوگا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اس مبینہ مشکوک طریق کار کو عدالت میں ثابت کیا جاسکتا ہے ؟آصف زرداری پر بدعنوانی کے کتنے الزامات تھے ،لیکن اُنہیں سزا اس لیے نہیں ہوئی کہ ثابت نہ کیا جاسکا،حالانکہ دس سال تک ریاست نے اپنا زور لگاکر دیکھ لیا۔ چنانچہ اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے میں پاناما انکشافات کو کسی نتیجے پر پہنچتے نہیں دیکھ رہا اور پھر ویسے بھی بعض ڈرامے ختم ہونے کے لیے نہیں بھی ہوتے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں