برطانوی ریفرنڈیم۔۔۔ افسانہ اور حقیقت

اس وقت جبکہ یورپی یونین میں رہنے یا اس سے باہر نکلنے کا فیصلہ کرنے کے لیے برطانیہ میں 23جون کو ہونے والے ریفرنڈم میں ایک ماہ سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے ، یہ ناممکن ہے کہ آپ ریڈیو یا ٹی وی لگائیں یا اخبار کھولیں تو اس موضوع پر ہونے والی بحث آپ کے گرم تعاقب میں نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی اہم ووٹ ہوگا جو موجودہ نسل نے کبھی برطانیہ میں ڈالا ہولیکن مکالمے ، لہجے اور دلائل میں غیر معمولی تیزی حیران کن ہے۔ اہم بات ہے کہ فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں غیر واضح لیکن فیصلہ کن دلائل ہیں جن میںہوش سے زیادہ جوش کا پہلو غالب ہے ۔ زیادہ تر رائے دہندگان پر اب تک خطرناک دلائل میں لپٹی معلومات کا انبار لادا جا چکاہے۔ طرفین اپنے اپنے موقف کے مورچے میں دھنسے جوش سے چلا رہے ہیں کہ اگر فریق ِ مخالف جیت گیا تو کون کون سی قیامت ہے جو نہیں آئے گی(یہ بتانے سے گریز کیا جارہا ہے کہ اگر وہ جیت گئے تو کیا بہتری آئے گی)۔ یورپی یونین میں رہنے والوں کا موقف ہے کہ اگر برطانیہ نے نکلنے کا فیصلہ کرلیا تو اُن کا ملک انتہائی غیر محفوظ ہوجائے گا۔ دوسری طرف نکلنے کا موقف رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگر یورپی یونین میں ٹھہرے رہے تو دیگر ممالک سے بھاری تعداد میں تارکین وطن کے غول کے غول اُن کے ملک میں چلے آئیںگے ۔ 
اس میں زیادہ حیرانی کی بات نہیں کہ بہت سے رائے دہندگان اب تک کنفیوژن کا شکار ہیں۔ ایک ٹی وی نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایک صاحب کہتے ہیں ۔۔۔'یہ سیاست دان جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن پھر ان کا یہی تو کام ہے ۔‘‘یہ بات بھی درست ہے کہ طرفین نے اب تک انتہائی جذ باتی پراپیگنڈا کیا ہے ۔ حکومتی بنچوںنے پتہ نہیں کس طرح فارمولے کے تحت یہ اعدادوشمار نکالے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلنے کی صورت میں 2020ء تک ہر گھر 4300پائونڈ خسارے میں چلا جائے گا۔اس کے علاوہ بے روزگاری بڑھے گی اور جائیداد کے نرخ گرجائیںگے ۔ دوسری طرف یورپی یونین سے نکلنے والے کہتے ہیں کہ درحقیقت معیشت کو ترقی حاصل ہوگی کیونکہ اس وقت برسلز کے افسران کی دفتری کارروائی سرمایہ کاری اور معاشی جدت کی رفتارسست کردیتی ہے ۔ مشہور اخبار، ''دی اکانومسٹ‘‘ نے ایک تحقیقاتی جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یورپی یونین کے انتہائی مہنگے سو قوانین کے نفاذ پر سالانہ 33 بلین پائونڈ خرچ ہوتے ہیں ۔ یورپی یونین سے نکلنے والوں کی طرف سے کیا جانے والا شاید انتہائی متنازع دعویٰ یہ ہے کہ برطانیہ ہر ہفتے برسلز کو تین سوپچاس ملین پائونڈ ممبرشپ فیس ادا کرتا ہے ، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ رقم منافع اور امدادی قیمت کی صورت میں واپس ان کی جیب میں آجاتی ہے ۔ تاہم گرماگرم بحث میں معقول اعدادوشمار ذرا محتاط فاصلے پر ہی رکھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر برطانیہ کو یورپی یونین کی طرف سے مالی تعاون حاصل نہ ہوتو وہ سائنسی تحقیقات کرنے کے قابل نہ ہو۔ اس کے علاوہ یونین کی طرف سے ملنے والی امدادی قیمت برطانوی کسانوں کو خسارے سے بچاتی ہیں۔
یورپی یونین سے اخراج کا موقف اختیار کرنے والے زیادہ تر افراد کی عمر پچاس سال سے زائد ہے ۔ وہ ایسے دور کا خواب دیکھتے ہیں جب اُن کے ملک میں اتنے زیادہ غیر ملکی نہیں رہتے تھے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر یورپی اقوام کی نسبت برطانوی غیر معمولی رواداری رکھنے والی قوم ہیں(ایک پاکستانی بس ڈرائیور کے بیٹے کا لندن کا میئر منتخب ہونا اس کی ایک مثال ہے)، لیکن اس کے باوجود پرانی نسل سوچتی ہے کہ یورپی یونین کے سفری معاہدے کی وجہ سے اُن کے ملک میں کثیر تعداد میں غیر ملکی رہنے اور کام کرنے کے لیے آجاتے ہیں۔ اور ان جذبات کا سرچشمہ نسل پرستی یا غیر ملکیوں سے نفرت نہیں، یہ حقیقت ہے کہ برطانیہ کاتعلیم اور ہیلتھ کا نظام یورپی یونین معاہدے کے تحت آنے والے ہزاروں افراد کی وجہ
سے شدید دبائو کا شکار ہے ۔سوشل ہائوسنگ پر ملنے والی امداد ی قیمت اس کی ڈیمانڈکو بے حد بڑھارہی ہے ، بڑے قصبوں کی کئی مرکزی گلیوں میں پولینڈ، بلغاریہ اور دیگر رکن ممالک کے آبادکاروں نے کھانے پینے کی دوکانیں کھول لی ہیں۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں انگریزی ایک اجنبی زبان تصور ہوتی ہے، بلکہ کوئی سمجھتا ہی نہیں۔ اب شام اور عراق سے آنے والے مہاجرین کو روکنے کے لیے کی گئی ڈیل کے تحت ترکی کے باشندوں کو بھی یورپی یونین کے ممالک میں سفر کی اجازت ہوگی۔ چنانچہ یورپی یونین سے نکلنے کی وکالت کرنے والے ڈرا رہے ہیں کہ ترکوں کا سیلاب برطانیہ پہنچا ہی چاہتا ہے ۔ اس ضمن میں بہت سی خوفناک کہانیاں بھی سنائی جارہی ہیں۔ 
اس وقت ہونے والے پول سروے بتاتے ہیں یورپی یونین میں رہنے کا موقف رکھنے والے 53 فیصد جبکہ نکلنے کا فیصلہ کرنے والوں کی تعداد 47 فیصد ہے ۔ تاہم یہ اعدادوشمار اُن اٹھارہ فیصد افرادکا احاطہ نہیںکرتے جنہوں نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ دیکھا گیا ہے کہ اٹھارہ سے چوبیس سال کے زیادہ تر افراد یورپی یونین میں رہنا چاہتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ کیا وہ تیئس جون کو ووٹ ڈالنے کے لیے گھروںسے نکلیں گے؟اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈیوڈکیمرون اور دیگر افراد، جو یورپی یونین میں رہنے کا موقف اختیار کیے ہوئے ہیں، با آسانی جیت جائیں گے ۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ موسم ِبہار کے اس موسم میں جب کہ بہت سی تفریحات ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی ہوں، یہ نوجوان طبقہ ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونے کی بجائے بعض دیگر مصروفیات کو ترجیح دیتا ہے ۔ چنانچہ اس گروپ کو اصل خطرہ یہی ہے کہ کہیں اُن کے نوجوان حامی ریفرنڈم کے دن تفریحی دورے پر نہ نکل جائیں یا گھر پر پڑے رہیں جبکہ فریق مخالف کے معمر لیکن جذباتی ووٹر صبح صبح اُٹھ کر قطاروں میں کھڑے ہوکر پانسہ نہ پلٹ دیں ۔ اس وقت سوشل میڈیا عوام کو جاگتے رہنے کی بھرپور تلقین کررہا ہے ۔ چوبیس جون کو پتہ چل جائے گا کہ ڈیوڈ کیمرون اپنے جوانوں کو جگانے میں کامیاب رہتے ہیں یا نہیں۔ 
اگرچہ طرفین یورپی یونین سے نکلنے یا ٹھہرنے کے مفاد اور نقصانات بلاتکان بیان کررہے ہیںلیکن درحقیقت فراہم کی جانے والی معلومات غیر یقینی اور التباسی ہے ۔ ایک بات یقینی ہے کہ نکلنے کی صورت میں معیشت کو کچھ دیر کے لیے شدید جھٹکا برداشت کرنا پڑ ے گا۔ اگرچہ، جیسا کہ کہا جارہا ہے ، برطانیہ یورپی یونین کو بطور فیس سالانہ اداکیے جانے والے انیس بلین پائونڈ کی بچت کرلے گا لیکن دوسری طرف اس کی کرنسی کے نرخ گرجائیں گے اور امدادی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے اس کی برآمدات مہنگی ہوجائیںگے ۔ اس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ غیر یقینی پوزیشن اُن برطانوی شہریوں کی ہوگی جو یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ اسی طرح یورپی یونین کے دیگر شہریوں کا کیا بنے گا جو برطانیہ میں رہتے اور کام کرتے ہیں؟مزید یہ کہ رکن نہ رہنے کی صورت میں یورپی یونین کی ہرریاست کے ساتھ ازسر ِ نو تجارتی ڈیل کرنی پڑے گی۔ 
اگرچہ بہت سے اہم قومی اور عالمی تھنک ٹینک یورپی یونین سے اخراج کی صورت میں خطرناک نتائج سے خبردار کررہے ہیں لیکن اُن کا الٹا اثر ہورہا ہے ۔ زیادہ تر برطانوی باشندے سوچ رہے ہیں کہ اگر رسک ہے تو پھر رسک لینے میں کیا حرج ہے ؟اُن کا موقف ہے کہ جب اُنھوں نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی تو اُن کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اُن کا ملک بتدریج اپنی خودمختاری اور قوت ِفیصلہ برسلز کے غیر منتخب شدہ افسران کے ہاتھ میں دے دے۔فی الحال یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ رائے دہندگان کیا فیصلہ کریں گے، لیکن ایک بات طے ہے کہ حکمران کنزرویٹو پارٹی چوبیس جون کو موجودہ پارٹی نہیں رہے گی۔ چنانچہ برطانیہ میں یہ موسم ِ گرما طویل بھی ہوگا اور حدت بخش بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں