غالباً اسلامی نظریاتی کونسل کے فاضل ارکان ٹویٹر یا فیس بک استعمال نہیں کرتے ورنہ اُنہیں اندازہ ہوتا کہ جب اُنہوں نے شوہران ِ برحق کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی اپنی بیویوں پر ''ہلکا پھلکا تشدد ‘‘ کرسکتے ہیں تو سوشل میڈیا پر اُن کے لیے کیسے کیسے'رجحانات‘کا غلبہ رہا۔ لیکن پیمرا کے واچ ڈاگ کو کیا ہوا؟ جب پاکستان الیکٹرانک میڈیا کی اس ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹی وی چینلوں پر مانع حمل ادویات کی تشہیر پر پابندی عائد کی تو انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے علاوہ دنیا بھر کے روایتی میڈیا نے اسے خوب رگیدا۔ دنیا کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ آج کے دور میں بھی ایسے صالح افسران پائے جاتے ہیں جن کے ذہن، عقل وغیرہ کی جھنجھٹ سے بالکل مبرّا ہیں! خدا کی پناہ، ایک ملک جس کی آبادی دوسو ملین سے تجاوز کر رہی ہو، وہاں کی حکومت کو تو ایمرجنسی نافذ کرکے آبادی کے بلاروک ٹوک بڑھتے چلے جاتے منہ زور سیلاب ِبلاخیز کو کسی طور روکنے کے لیے سرپکڑ کر بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن ٹھہریں، دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے پر ہماری اجارہ دار ی نہیں، پڑوس سے ترکی کے طیب اردوان نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے خواتین کو مانع حمل ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تاکہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد مزید بڑھ جائے۔ اس سے پہلے 2014 ء میں بھی موصوف نے فیملی پلاننگ کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے ''غداری ‘‘ قرار دیا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ ابھی ترکی کے کریمنل کوڈ میں ترمیم کرکے فیملی پلاننگ کوایک جرم قرار نہیں دے پائے۔
یہ تینوں مثالیں مرد کی حاکمیت کے مفروضے پر دلالت کرتی ہیں یعنی اس بات کا فیصلہ مردوں نے کرنا ہے کہ عورتوں نے کیا کرنا ہے اورکیا نہیںکرنا۔ اس سے بھی بڑھ کر، وہ خواتین کے ذاتی معاملات میں بھی دخل دینے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب عورتوںکو مشورہ دے کہ وہ اپنے شوہروںکی بھاری بھرکم ڈنڈے سے ٹھکائی کر سکتی ہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل کا رد ِعمل کیا ہوگا؟ اس اعتبار سے عورتوں پر تشدد کی سفارش کرنا بھی اس مذہبی ادارے کا استحقاق نہیں ہے۔ دوسری طرف پاکستانی خواتین اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کے بغیر بھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں؛ تاہم بات یہیں ختم نہیںہوتی، یہ مولوی صاحبان چھوٹی عمرکی لڑکیوں کی شادیوں پر زور دیتے ہیں اور مرد کو اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرماتے ہیں۔ اُن کا مزید یہ کہنا بھی ہے کہ عورت کے لیے اپنے بچوں کو کم از کم دوسال تک دودھ پلانا فرض ہے۔
اسلامی سکالرز کا دعویٰ ہے کہ یہ اصول مقدس کتاب کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو کیا ہم مکمل طور پر ساتویں صدی کی سماجی زندگی اپنا سکتے ہیں؟ حالانکہ بعض عرب ممالک جو طویل عرصہ تک سخت گیر بنیاد پرستی سے باہرنہیں نکل پائے انہیں بھی غلامی کو ترک کرنا پڑا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس نے 1966ء میں امریکی دبائو پر ایسا کیا اور قانونی طور پر انسانوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگادی؛ تاہم مذہبی طور پر وہ اسے جائزسمجھتے رہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ افریقہ اور ایشیا کے غریب افراد جو گھریلو ملازموں کے طور پر ان ممالک میں کام کرتے ہیں،ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بدترسلوک ہوتا ہے۔ یہ تصورکہ مسلمانوںکو اپنی آبادی تیزی سے اور بہت زیادہ بڑھانی چاہیے تاکہ امت کو تقویت ملے نیا نہیں ہے۔ پاکستان میں مولوی حضرات خاندانوںکا سائز محدود کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انتہا پسند جو اسی سوچ کی عملی شکل ہیں، فیملی پلاننگ کرنے والی ٹیموں پر حملے کرتے ہیں۔ اگرچہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے فیملی پلاننگ کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی کوشش، لیکن اُن کے جانشین انتہا پسندوںکے سامنے گھٹنے ٹیک گئے۔ دراصل ہمارے ملاّ ایک بڑی، ناخواندہ اور جذباتی آبادی کو آسانی سے کنٹرول کرلیتے ہیں، لیکن سوچ سمجھ رکھنے اور سوال کرنے والے تعلیم یافتہ گروہ، چاہے ان کی تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو، اُنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اس گروہ کو دبانے کے لیے اُن کے پاس تشدد کا ہتھیار موجود ہے کیونکہ علمی اور فکری مکالمے کے لیے اُن کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ اُنہیں مزید خطرہ یہ ہے کہ اگر عورتوںکو اپنے بچوںکی تعداد کا تعین کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو کیا پتا وہ کل مزید آزادی کا مطالبہ لے کر بیٹھ جائیں، لہٰذا بہتر ہے کہ اُنہیں گھر کی چار دیواری تک محدود رکھا جائے تاکہ وہ خانگی مسائل سے جان نہ چھڑاسکیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان ممالک آج اکیسویں صدی میں بھی قدیم زمانے کی روایات اپنا سکتے ہیں؟ اسلامی دنیا کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے کیا اس کی زیادہ آبادی کی ضرورت ہے؟ کیا اس کا انفراسٹرکچر اور وسائل پہلے ہی دبائو کا شکارنہیں ہیں؟ کیا ہمیں آبادی میں اضافہ کرتے چلے جانے کی بجائے آبادی اتنی نہیں رکھنی چاہیے جسے ہم بہتر تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرسکیں؟ 1947ء میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی بتیس ملین (تین کروڑ بیس لاکھ) تھی، آج یہ چھ گنابڑھ کر دوسو ملین(بیس کروڑ) سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1960ء میں ترکوں کی آبادی بیس ملین تھی، آج چار گنا بڑھ کر اسّی ملین ہوچکی ہے۔ اس طرح مسٹر اردوان زیادہ ترک خواتین پر 'غداری‘ کا الزام نہیں لگا سکتے۔ اگرچہ اس دوران ترک معیشت نے اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا، لیکن پاکستانی معیشت بڑھتی ہوئی آبادی کے سیلاب میں غرق ہوگئی۔
بات یہ ہے کہ ہمارے علماء اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور توانائیاں عورتوں پر پابندیاں عائد کرنے میں صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سیاست دان خواتین غیر ملکی وفودکا استقبال نہ کریں، عورتیں اشتہارات میں دکھائی نہ دیں اور مخلوط تعلیم نہیں ہونی چاہیے۔ ان پابندیوں سے عورتوں کی زندگی میں کیا بہتری آئے گی؟ کیا بہتر نہیں کہ اُنہیں اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لیے معاشرے میں بامعنی کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جائے۔ جن تمام ممالک نے سماجی اور معاشی میدانوں میں ترقی کی ہے، اس کی وجہ اُن کی عورتوں کامعاشی اور سماجی سرگرمیو ں حصہ لینا تھا۔ لیکن اسلامی دنیا میں عورتوں کو گھر سے باہر نہیں آنے دیا جا رہا۔ اُن کی زندگی کھانا پکانے، شوہروں کی خدمت کرنے اور بچے پالنے تک محدود ہے۔ جب کسی ملک کی نصف آبادی اس طرح مفلوج ہوکر گھر میں بیٹھ جائے تو پھر وہ کیا ترقی کر سکتا ہے؟ کیا ایک ٹانگ پر چلنے والے دونوں ٹانگوں پر بھاگنے والے اتھلیٹس کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ خوش قسمتی سے ہمارے معاشروں میں ایسی عورتیں موجودہیں جو ان نامساعد حالات کے باجوود زندگی کے میدان میں قابل ِقدر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے پھیلائے ہوئے اندھیرے کا پردہ چاک کرنے کے لیے ابھی بہت روشنی کی ضرورت ہے۔