برطانیہ میں سیاسی دغابازی

شاید عظیم ڈرامہ نگار ، شیکسپیئر بھی اتنا آسیب زدہ ڈرامہ نہیں لکھ سکتا تھا جتنا آج کل برطانوی سٹیج پردکھائی دے رہا ہے۔ کنزوریٹو پارٹی کی قیادت کی جدوجہد میںمائیکل گوو کا بورس جانسن کو چکما دینا ایک بے رحم میکائولی رویے کا اظہار ہے۔ میراخیال ہے کہ بورس جانسن کو اس وقت سمجھ آگئی ہوگی جیسے جولیس سیز ر پر اپنے دوست، بروٹس سے خنجر کا وار سہنے کے بعد دوستی کا پردہ چاک ہوا تھا۔ شیکسپیئر کے لافانی ڈرامے ، ''جولیس سیزر‘‘ میں رومن شہنشاہ کے آخری الفاظ یہ تھے''بروٹس ، تم بھی؟‘‘اور پھر سیزر نیچے گرگئے ۔ درحقیقت بورس جانسن کے والد نے مائیکل گوو کی چالبازی پر ''جولیس سیزر‘‘ کا یہی مشہور ڈائیلاگ بولا تھا ۔ دراصل مائیکل گوو نے بورس جانسن کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا لیکن ریفرنڈم کے بعد اپنی قیادت کا اعلان کردیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کل بورس جانسن ولیم شیکسپیئر کے حالات ِ زندگی پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ 
جس وقت ملک سیاسی ڈرامے کی گرفت میں ہے ، لیبر پارٹی کی طرف اپنے بھائی کی پشت میں خنجر گھونپے کی کوشش سے توجہ بٹ چکی ہے ۔ موجودہ ہنگامہ خیز صورت ِ حال میں نے برایگزٹ ریفرنڈم کے نتائج کو ابہام میں ڈال دیا ہے ۔ ناقدین اسے دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے سب سے بڑا سیاسی بحران قرار دے رہے ہیں جس کا برطانیہ کا سامنا ہو ۔ مائیکل گووکے ننگے عزائم ایک طرف ، تو دوسری طرف بورس جانسن کے ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر قبضہ کرنے کی شدید خواہش۔ ٹوری قیادت کے لیے پانچ قائدین میں سے مائیکل گوو اور ٹریسا مے کو سبقت حاصل ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹریسامے کو پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارٹی کی زیادہ حمایت حاصل ہوگی۔ اس بات کی اہمیت بھی ہے کہ کیونکہ ٹوری ارکان ِ پارلیمنٹ بتدریج ووٹنگ کے ذریعے امیدواروں کی تعداد کم کرکے دو تک لے آئیں گے ۔ اس کے بعد 150,000 ارکان نو ستمبر کو پارٹی کے قائد اور وزیر ِاعظم کا انتخاب کریں گے ۔ یہ مرحلہ طے پانے تک ڈیوڈ کیمرون ملک کے وزیر ِاعظم رہیں گے ، لیکن اُن کی حیثیت نگران وزیر ِاعظم کی سی ہوگی اور وہ اہم امورمیں ملک کے قائد بن کر فیصلے نہیں کرپائیںگے ۔ 
اس تمام معاملے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ گوو اور جانسن کی دوستی تیس برسوں پر محیط ہے۔ اگرگوو برایگزٹ کے لیے چلائی گئی مہم کا دماغ تھے تو بورس جانسن روح ِ رواں۔ آخری لمحے چلی گئی چال سے پہلے تک ڈیل یہ تھی کہ جانسن لیڈرشپ کے ، جبکہ گوو چانسلر آف چیکر کے عہدے کے لیے امیدوار ہوںگے ، اور برطانیہ میں اسے وزارت ِ اعظمیٰ کے بعد سب سے طاقت ور عہدہ مانا جاتا ہے ۔ تاہم جب گوو نے خود کو قیادت کے لیے امیدوار کے طور پرپیش کیا تو جانسن کو اندازہ ہوگیا کہ اب اُن کے پاس ٹوری پارٹی کے ارکان کی زیادہ حمایت نہیں۔ چنانچہ جب اُنھوں نے قیادت کی دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا تو اُن کے حامیوں کو شدید صدمہ پہنچا۔ ان میں سے کچھ نے گوو کی حمایت شروع کردی، لیکن ٹریسا مے اس وقت مسابقت کی دوڑ میں آگے ہیں (بکی بھی اُنہیں فیورٹ قرا ر دے رہے ہیں)۔ اگرچہ ٹریسا مے نے ریفرنڈم مہم کے دوران یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے موقف کی حمایت کی تھی، اور ظاہر کہ اُن کے موقف کو شکست ہوئی۔ تاہم گوو کی اپنی پارٹی میں چالبازی کی وجہ سے ناپسند کیے جانے کی وجہ سے ٹریسا مے کی مقبولیت میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس وقت مس مے کو سنجیدہ اور تجربہ کار سیاست دان کے طور پر دیکھا جارہا ہے جن کے پاس گزشتہ سات برس سے بطور ہوم سیکرٹری کام کرنے کا تجربہ ہے ۔
اگر گوو کو شدید تنقید کا سامنا ہے تو دوسری طرف جانسن کا سیاسی کیریئر بھی تباہ ہوگیا ہے ۔ برایگزٹ کی کامیاب مہم چلانے، جس کے نتیجے میں ملک ابہام اور خلفشار کا شکار ہوا ، برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلوانے اور ڈیوڈ کیمرون کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے بعد اب وہ خود بھی قیادت کی دوڑ سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ اس رویے سے اُن طالع آزما اور محدود سوچ رکھنے والے سیاست دانوں کا پتہ چلتا ہے جو جنگ کے بعد سیاسی نظام کو صرف اپنا کیریئر آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، چاہے اس کے نتیجے میں ملک اور عوام کے مستقبل کو خطرے میں کیوں نہ ڈالنا پڑے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈیوڈ کیمرون اور جانسن، دونوں ہی ایٹن(Eton) اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں، اور دونوں ہی Bullingdon Club کے رکن تھے (اس کلب کے ارکان کثرت مے نوشی کے لیے مشہور ہیں)۔ بورس جانسن کی بہت دیر سے وزارت عظمیٰ پر نگاہ تھی، اور اُنھوں نے برایگزٹ کے ذریعے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل چاہی تھی۔ فی الحال یہ بات واضح نہیں کہ کیا وہ واقعی ہی ریفرنڈم میں برایگزٹ کے موقف کی کامیابی چاہتے تھے یا پھر بھرپور مہم چلا کر صرف ڈیوڈ کیمرون کو کمزور کرناچاہتے تھے ؟ اس وقت ملک میں ابہام میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے رہنما ، جو برایگزٹ کی بھرپور وکالت کررہے تھے، اپنے وعدوں سے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
جس وقت اپوزیشن لیبر پارٹی کو حکمران جماعت کی صفوں میں پھیلی ہوئی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کے لیے اتحاد اور مضبوط قیادت کی ضرورت تھی ، جرمی کوربین صرف اپنے پارلیمانی گروپ کے بچائو کے لیے تباہ کن چالیں چلنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت لیبر پارٹی کی اکثریت برایگزٹ میں ناقص کارکردگی دکھانے پر جرمی کوربین کا استعفیٰ چاہتی ہے ، حالانکہ اُنہیں گزشتہ سال ہی منتخب کیا گیا تھا۔ اُنہیں منتخب ہونے کے بعد سے ہی اپنی پارٹی کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ تاہم جرمی کوربین نے بائیں بازو کے نوجوان افراد کو اسی طرح تحریک دی تھی جس طرح امریکہ میں برنی سندرس نے ۔ چنانچہ اس وقت لیبر کے ارکان ِ پارلیمنٹ تازہ پارٹی الیکشن کی طرف نہیں جائیں گے کیونکہ اُنہیں ایک مرتبہ پھر جرمی کوربین کی فتح کا خدشہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیبر پارٹی کے نئے اور نوجوان ارکان جرمی کوربین کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔ بہرحال گزشتہ ریفرنڈم نے اُن کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں۔ 
انفرادی رہنمائوں کی قسمت سے قطع نظر، سیاسی نظام کوحقیقی خطرے کا سامنا ہے ۔ لوگ حیرانی سے دیکھ رہے ہیں جس دوران ملک شدید طوفان کی زد میں ہے، ان کے رہنما ذاتی حساب کتاب چکانے کے لیے دائوپیچ کھیل رہے ہیں۔ یورپی یونین سے نکل جانے پر لاحق تشویش کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ عوامی حلقوں میں یہی موضوع گفتگو ہے کہ اب کیا ہوگا؟ایک امکان یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ ریفرنڈم کے نتائج کو کالعدم قرار دے دے۔ اس کا امکان موجود ہے کیونکہ برطانیہ 1975ء میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ہی یورپی یونین کا حصہ بنا تھا۔ ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو، اور آنے والے دنوں میںیورپی یونین چھوڑنے کے مضمرات گہرے ہوتے دکھائی دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں