پسِ پردہ سچائی

چند سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھنے کے لیے برقعہ پہنا تاکہ دیکھوں کہ کیا محسوس ہوتا ہے۔ نقاب اُوڑھتے ہی مجھے ایسے لگا جیسے میرا تخیل تاریک ہو گیا ہے، دنیا سمٹ گئی ہے، سوچ کا دھارا تھم گیا ہے۔ مجھے گرمی لگ رہی تھی اور میری جسمانی حرکت و سکنات بھی محدود ہو گئی تھیں۔ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب فرانس نے جسم اور چہرے کو چھپانے والے مکمل برقعے پر پابندی عائد کی تھی۔ میں نے اپنے کالم میں یہ نتیجہ نکالا کہ جو مرد حضرات اپنے بیویوں، بہنوں یا بیٹیوں کو برقعہ پہننے پر مجبور کرتے ہیں، اُنہیں ایک مرتبہ خود برقعے میں بند ہو کر دیکھنا چاہیے۔ 
کالم کی اشاعت کے بعد میرا میل باکس گالیوں سے بھر گیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ زیادہ تر خواتین نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا؛ چنانچہ فوراً ہی ہار مانتے ہوئے کہنا پڑا کہ یہ انسان کا ذاتی معاملہ ہے کہ وہ جس طرح کا لباس پہننا چاہے ، پہن لے، اور نہ تو ریاست اور نہ ہی اخلاقی پنڈت ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے مجاز ہونے چاہئیں۔ درحقیقت اس دور میں لبرل اقدار خواتین کو قدامت پسند حلقوں سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں‘ لیکن جس دوران مغرب کے لبرل حلقوں میں اس موضوع پر بات کی جا رہی ہے کہ حجاب، برقعہ اور عبایا کو لڑکیوں اور عورتوں کے معمول کے لباس کے طور پر قبول کر لینا چاہیے یا نہیں، اسلامی دنیا میں مکمل سکوت ہے۔ اس پر بات بھی نہیں کی جا سکتی۔ 
آج کل یہ رجحان ترقی پذیر ہے کہ نسوانیت کو ہر صورت مکمل حجاب میں ہونا چاہیے۔ مجھے یاد ہے کہ جب پچاس کی دہائی میں، میں کراچی میں اپنا بچپن گزار رہا تھا تو میری والدہ سائیکل چلا کر مہاجرین کے کچھ امور نمٹا کر آتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد لاہور میں میری بہت سی کزن بغیر کسی دشواری کے سائیکل چلا کر کنیئرڈ کالج جایا کرتی تھیں‘ اور برقعے کے بغیر صرف اپر مڈل کلاس کی خواتین ہی دکھائی نہیں دیتی تھیں بلکہ غریب محنت کش خواتین بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھیں۔ میرا کراچی میں ایک دوست، فتح، جو مچھیرا تھا، نے مجھے بتایا کہ کہ اُس کی والدہ بھی اُس کے والد کے ساتھ ماہی گیری کرنے جایا کرتی تھیں۔ یقینا کھیتوں میں کام کرنے والی اور ماہی گیری جیسے کام میں اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹانے والی خواتین برقعے میں ملفوف ہو کر یہ کام نہیں کر سکتیں۔ 
گویا پچاس کی دہائی تک تو معاملات ٹھیک ٹھاک تھے، تو پھر اب کیا ہوا کہ تمام اسلامی دنیا کی کروڑوں لڑکیوں کو خود کو چھپانے کی ضرورت پیش آئی؟ اگرچہ مقدس کتاب میں خواتین کو حکم ہے کہ وہ خود کو سر سے پائوں سے چھپا کر رکھیں لیکن برقعے کا موجودہ رجحان ایک نئی لہر ہے۔ برصغیر میں برقعہ صرف اشرافیہ خاندانوں کی خواتین ہی پہنتی تھیں کیونکہ اُنہیں کوئی کام نہیںکرنا ہوتا تھا۔ گویا برقعہ پہننے یا نہ پہننے کا تعلق مذہب کی بجائے سماجی مرتبے سے تھا۔ زیادہ تر پاکستانی خواتین‘ جنہوں نے کچھ پسماندہ علاقوں جیسا کہ میرپور، سے برطانیہ میں ہجرت کی، بہت کم برقعوں میں نظر آتی تھیں، اگرچہ اُن کے سر پر دوپٹہ دکھائی دیتا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اُن خواتین کی بیٹیاں یا نواسیاں اب برطانیہ میں برقعوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے مذہبی شناختوں کو نمایاں کرنے کے رجحان میں شدت آتی جا رہی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے اب تو انتہائی روادار برطانوی شہری بھی کسی عورت کو پورے برقعے میں پنہاں دیکھ کر غصے میں آ جاتے ہیں، گو اُن کی رواداری اُنہیں اس کا اظہار کرنے سے روکتی ہے۔ تارکین وطن کو میزبان ملک کے شہریوں سے جدا کرنے کے علاوہ برقعہ لڑکیوں کو بہت سے ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔ حال ہی میں سوئٹزرلینڈ میں ایک مسلمان لڑکی کی شہریت منسوخ کر دی گئی کیونکہ اُس نے سکول میں تیراکی کا لباس پہننے سے انکار کر دیا تھا۔ سوئس حکومت نے برقعہ یا نقاب پہننے پر 9,200 یورو جرمانے کی سزا رکھی ہے۔ کیا یہ سب اسلام فوبیا کی بڑھتی ہوئی علامات ہیں؟ اس کا مختصر جواب ہاں میں ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمان تارکین وطن کے کسی بھی جائز و ناجائز طریقے سے جانے کی وجہ وہاں سکیورٹی کے مسائل اور دہشت گردی کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس وجہ سے مسلم مخالف جذبات پیدا ہونے پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر ہمارا مہمان ہمیں ہلاک کرنے کے منصوبے بنائے تو ہم اُس سے محبت نہیں کریں گے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمار ی خواتین پچاس کی دہائی تک اس دکھاوے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھیں تو پھر اس تمام اسلامی دنیا کی خواتین اور لڑکیوں نے برقعہ کو ضروری کیوں سمجھ لیا ہے؟ روایتی طور پر افغانستان اور سعودی عرب کی خواتین خود کو مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے پر مجبور کی جاتی تھیں۔ یہ دونوں ریاستیں قدیم قبائلی طرز زندگی رکھتی ہیں۔ اسلامی ریاستوں کے ساتھ مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ اس اہم عرب ملک کے روایتی لباس کو اسلامی لباس قرار دے کر ملائوں نے دنیا بھر میں اس کی ترویج کرنا شروع کر دی۔ 1973ء میں تیل کی قیمتوں میں یک لخت اضافے کی وجہ سے اس عرب ملک کے خزانے بھر گئے تو اس نے شدت پسند مسلک کی ترویج کو اپنا شعار بنا لیا؛ تاہم سماجی اور مذہبی عوامل کے علاوہ برقعے کا ایک ''سکیورٹی‘‘ پہلو بھی ہے۔ جب پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے بیٹے، علی حیدر گیلانی کو اغوا کیا گیا تو اُنہیں ایک برقعے میں قبائلی علاقوں تک لے جایا گیا۔ برقعے کی وجہ سے کار کو کسی چیک پوسٹ پر سکیورٹی اہل کاروں نے نہ روکا کیونکہ اہل کار کسی ''خاتون‘‘ کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ جاتے دیکھ کر مطمئن تھے۔ لال مسجد آپریشن کے دوران مولانا عبدالعزیز کا برقعہ مشہور ہوا۔ اسی طرح بہت سے دیگر جرائم پیشہ عناصر بھی گرفتاری سے بچنے اور روپوش ہونے کے لیے برقعے کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے اندر وہ اپنے مہلک ہتھیاروں کو بھی چھپا سکتے ہیں؛ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی اسلامی ریاست یہ قانون سازی کر سکتی ہے کہ برقعہ پہننے والی عورت اپنا چہرہ ظاہر کرے؟ ہرگز نہیں، لیکن مغربی ریاستوں کو اصرار ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ مسلمان خواتین نے برقعہ پہننا ہے تو اس طرف آنے کی زحمت نہ کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں