حقائق سے دور سیاست اور صحافت

سیاست دان بمشکل ہی کبھی سچ بولتے تھے ، تاہم اب حقائق سے بے رخی بے حد بڑھ چکی ہے۔ قابل ِ غور بات یہ ہے کہ ویب سائٹ PolitiFactنے ڈونلڈ ٹرمپ کے 2015 ء کے دوران دیے گئے بیانات کا تجزیہ کرکے اُنہیں سال کے سب سے مہان جھوٹے ہونے کا اعزاز دیا ۔ ویب سائٹ کو تجزیے سے پتہ چلا کہ اُن کے بیانات کا صرف چار فیصد سچ ، گیارہ فیصد غالباً سچ اور پندرہ فیصد نیم سچ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تناسب پر دروغ گوئی اور غلط بیانی کی حکمرانی ہے ، لیکن مجال ہے جو موصوف کبھی پشیمان یا شرمندہ ہوئے ہوں ۔ ڈھٹائی یہ کہ ''اعزاز ‘‘ کے باوجود ٹرمپ نے اپنی ڈیموکریٹ حریف کو ''جھوٹی ہلیری‘‘ قرار دیا ہے ۔ بے شک مس ہلیری بھی بسااوقات سچ کو من پسند حد تک پھیلاکر کام نکال جاتی ہیں لیکن ٹرمپ کے مقابلے میں تو وہ مجسم نیک نامی اور سچائی معلوم ہوتی ہیں۔ 
جب ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی دروغ گوئی پر چیلنج کیا جاتا ہے تو یا وہ اپنی بات کی تردید کردیتے ہیں ، یا کہتے کہ وہ صرف مذاق کررہے تھے ۔ کچھ کیسز میں اُن کا سٹاف وضاحت کرتا ہے کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ خیر زیادہ تر سیاست دانوں اسی دفاعی مورچے میں پناہ لیتے ہیں۔ دروغ گوئی اور غلط بیانی کی طویل فہرست کے باوجود ٹرمپ عوامی رائے جاننے والے پولز میں بہتر پوزیشن حاصل کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ اُن کے حامی جانتے ہیں کہ اُن کے امیدوار کے اکثر دعوے حقیقت سے بعید ہوتے ہیں لیکن لیکن جب ٹرمپ بات کررہے ہوتے ہیں تو وہ ان پر یقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اس بات سے باخبر ہیں کہ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر ، جس قیمت میکسیکو کو ادا کرنی ہوگی، نہیں کرسکیں گے، لیکن تارکین ِوطن کی آمد کے خلاف جذبات اتنی شدت اختیار کرچکے ہیں کہ بہت سے امریکی اس بات پر بھی خوش ہیں کہ کم از کم اُن کا ایک سیاست دان تو اس مسئلے پر دوٹوک موقف اختیار کررہا ہے۔ جب بورس جانسن جیسے افراد نے بریگزٹ کی مہم کے دوران دعویٰ کیا تھا یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد انیس بلین پائونڈ کی بچت ہوا کرے گی جو فنڈز کی کمی کا شکار، نیشنل ہیلتھ سسٹم کو دیے جائیںگے تو لوگوں نے بہت خوشی سے اس دعوے پریقین کیا۔ لیکن جیسے ہی بریگزٹ میں اُن کے موقف کو کامیابی ملی، بورس جانسن فوراً ہی اپنے وعدے سے مکر گئے ۔ اگرچہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کا موقف رکھنے والے جانسن اینڈ کمپنی پر سرعام جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن ایسے الزامات کی پروا کون کرتا ہے ۔ 
ہم بھی پاکستان میں اپنے سیاست دانوں کی دروغ گوئی کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اس معمول کو ہی سیاست سمجھتے ہیں۔ سیاست دان الیکشن کے دوران ووٹروں سے ایسے ایسے دیومالائی وعدے کرتے ہیںکہ الف لیلیٰ تاریخی سچائی معلوم ہونے لگتی ہے ، لیکن اقتدار سنبھالتے ہی وہ نہایت دلجمعی سے بدعنوانی اور، عوامی معاملات میں غفلت شعاری میں ایسے جت جاتے ہیں کی دنیا و مافیہا، وعدے وعید وغیرہ کی خبر ہی نہیں رہتی۔ یاد دلانے پر بھی کسی کی پیشانی شکن آلود نہیں ہوتی۔ 1977ء میں پی این اے کی بھٹو مخالف تحریک میں وعدہ کیا گیا کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں 1971 ء سے پہلے کی سطح پر واپس لائی جائیںگی۔ 2013 ء کی انتخابی مہم کے دوران نواز شریف صاحب نے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا ۔ آج کل نوجوان بلاول بھٹو زرداری ''کشمیر آزاد ‘‘ کرانے کے وعدے کررہے ہیں۔ مت بھولیں، عمران خان نے نہایت سنجیدگی سے عہد کیا تھا کہ وہ نوے روز میں بدعنوانی کاخاتمہ کردیں گے۔ اس ضمن میں ایک ٹائم ٹیبل دے کر عوام کو سمجھایا گیا تھا۔ اگرچہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سیاسی وعدے کبھی ایفا نہیں ہوں گے لیکن ہم پھر جلسوں میں ایسے وعدوں پرجوش سے نعرے لگاتے ہوئے ان رہنمائوں کو خوش کرنا نہیں بھولتے ۔ اور میڈیا بھی ایسے وعدوں کو یاد کرتے ، یاددلاتے ہوئے ان کا تجزیہ کرنے میں ناکا م رہتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ عوام کی مجموعی یادداشت کمزور ہوتی ہے لیکن میڈیا اس کمزوری کا شکار کیوںہے؟جب کچھ سنجیدہ صحافی(قحط الرجال کے اس دور میں ابھی بھی ان میں سے کچھ موجود ہیں)ایسے وعدوں کا پردہ چاک کرکے سیاست دانوں کو آئینہ دکھاتے ہیں تو وہ اور ان کے حواری ایسے صحافیوں پر ''لفافہ جرنلزم‘‘ کا الزام لگاتے ہیں۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا میں اپنے ناقدین کو نہایت مہارت سے ایک ایسی'' لبرل سازش‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں جو ورکنگ کلاس کو اُن سے برگشتہ کرنے کے کام پر معمور ہے۔ لیکن میڈیا ٹرمپ کی مہم کو بہت زیادہ کوریج دیتا ہے کیونکہ اُن کے اشتعال انگیز بیانات میڈیا ریٹنگ کو بڑھا دیتے ہیں۔ دوسر ی طرف محض سچائی بوریت سے لبریز ہوتی ہے ۔ یہ ہے اصل مسئلہ جب سیاست ایک تفریح بن چکی ہے ، چنانچہ کہانی میں جتنا بازاری پن ہوگا، لوگ اُسے اتناہی سنیں یا دیکھیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ سنسنی خیز فلمیں سچائی پر مبنی دستاویزی فلموں سے زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔ یقینا حقائق کا سامنا کرنے کی نسبت حقائق سے فرار حاصل کرکے کسی من پسند التباسی گوشہ ٔ عافیت میں رومانوی پناہ حاصل کرنا زیادہ دل پذیر ہوتا ہے ۔
اور یہ بات صرف سیاست دانوں اور میڈیا پر ہی صادر نہیں آتی کہ وہ تو رہتے ہی ''سچ سے پاک زون‘‘ میں ہیں، عام افراد بھی سازش کی تھیوریوں یاسفید جھوٹ پر یقین کرنا پسند کرتے ہیں۔ جب اُن سے اس کی وجہ پوچھیں تو وہ کہیں کہ فلاں ''سچائی‘‘ اُنھوں نے ٹی وی کے ٹاک شو میں سنی، میگزین میں پڑھی یا انٹر نیٹ پر دیکھی تھی، اور چونکہ وہ مبینہ سچائی اُن کی طے شدہ طبیعت کے موافق آتی ہے، وہ اس پر فوراً ہی یقین کرلیتے ہیں۔ بہت سے دانشوروں کا خیال تھا کہ اتنے زیادہ ٹی وی چینلز اور انٹر نیٹ کی ویب سائٹس تک رسائی میسر آنے کے بعد عوام جھوٹ سے سچ کو چھان کر الگ کرنے کے قابل ہوجائیںگے ۔ اب وہ دن گئے جب خبروں پر ریاست کی اجارہ داری ہوتی تھی۔ اب اس کے متعدد ذرائع ہیں لیکن عوام ابھی تک حقائق سے اتنے ہی دور ہیں کیونکہ اب ریاست کی بجائے مخصوص ایجنڈے خبروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ نائن الیون کی بابت ' 'سازش کی تھیوریوں ‘‘ کو گوگل پر چیک کریں توآپ لاکھوں ویب سائٹس کی بھول بھلیوں میں کھو جائیں گے ۔ 
چونکہ زیادہ تر افراد اپنی تنقیدی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرتے، وہ جھوٹ کے ڈھیر سے سچ کی سوئی کو الگ کرنے کے قابل نہیں ہوتے ۔ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ٹرمپ جیسے افراد بے سروپا باتیں کرتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یا تو اُن کے حامی اُن کی باتوں پر یقین کرلیں گے ، یا ان کی دروغ گوئی کو نظر انداز کردیں گے ۔ ان بیانات کے حوالے سے اُن کا احتساب نہیں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ نیویارک ٹائمز ، دی گارڈین یا دیگر سنجیدہ اخبارات سچائی کا دامن تھام کر چلنے کی کوشش کریں لیکن جب زیادہ سے زیادہ لوگ ایسی چیزوں میں دلچسپی رکھتے ہوں جو اُن کی طبیعت کے موافق آتی ہوں تو پھرمارکیٹ میں سچ کا قدردان کون ہوگا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں