کینیڈا کے مقامی افراد کی ابتلا

پوری دنیا میں رواداری اور برداشت کے اعتبار سے کینیڈ کو ایک بے مثال ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس نے برس ہا برس سے دنیا کے لاکھوں تارکین ِوطن کو خوش آمدید کہاہے ۔ دراصل یہ رویہ ملک کے مروجہ اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔تاہم ، جیسا کہ حال ہی میں صوبہ Saskatchewan میں پیش آنے والا ایک واقعہ ظاہر کرتا ہے، کینیڈا کے اصل باشندوں کے حوالے سے پریشان کن نسلی پرستی معاشرے میں سرائیت کرتی جارہی ہے ۔ 
اگرچہ اس کیس میں ظاہر ہونے والے حقائق متنازعہ ہیں، لیکن نسل پرستی کا شکار ہونے والوں کے دوستوںکا اصرار ہے کہ یہ واقعہ ایسے ہی پیش آیا ۔ ان کے مطابق 9 اگست کو بائیس سالہ کولٹن بوشے اور چار دوست ریڈ فیزنٹ میں واقع اپنی آبادی سے ایک گھنٹہ ڈرائیو کرکے ایک دریا پر پہنچے۔ اُنھوں نے وہاں تیراکی کی ۔ واپس آتے ہوئے اُن کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ وہ مدد کے لیے ایک فارم میں داخل ہوئے۔ وہاں اُن کا سامنا ایک مسلح کسان سے ہوا جس نے اُن نے اُن کی گاڑی کی سکرین توڑ ڈالی۔ وہ نوجوان خوفزدہ ہوکرباہر نکل بھاگے۔ اس کے بعد فائرنگ کی آواز آئی اور کولٹن بوشے ہلاک ہوگیا۔ اس 54 سالہ کسان، جیرالڈ سٹینلے کو دوسرے درجے کے قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد اُسے ضمانت پررہاکردیا گیا۔ اب اس کیس کی تحقیقات رائل کینیڈین مائونٹ پولیس کے پاس زیر ِ التوا ہیں۔ اس کیس کی وجہ سے سفید فام کسانوں اور مقامی آبادی کے درمیان تنائو پایا جاتا ہے ۔ کسانوں کا الزام ہے کہ ایسے لوگ اُن کے فارمز سے چوری کرتے ہیں۔ اس الزام میں کسی قدر صداقت بھی ہے کیونکہ یہ مقامی باشندے کم تعلیم یافتہ ، چنانچہ کم آمدنی رکھتے ہیں۔ ان میں بے روزگاری کا تناسب بھی زیادہ ہے ۔ تاہم ان عوامل کی وجہ سے مقامی باشندوں کے خلاف نسل پرستی کے جذبات جنم لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ فیس بک پر اپنے پیغام میں ایک مقامی کونسلر، بن کاز (Ben Kauz)نے لکھا۔۔۔۔''جیرالڈ سٹینلے کاواحد قصور تین گواہوں کو زندہ چھوڑ دینا تھا۔‘‘ سٹینلے کے قانونی دفاع کے لیے رقم جمع کرنے کے لیے مقامی کسانوں نے ایک ڈنر کا بھی اہتمام کیا۔ 
رائل کینیڈین مائونٹ پولیس نے ایک پریس ریلیز میں یہ کہہ کر حالات کو مزید خراب کردیا کہ پانچ میں سے تین دوست کسی اور ڈکیٹی کے کیس میں مطلوب تھے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر سٹینلے کے پاس اُن پر فائرنگ کرنے کا جواز موجود تھا۔ The Federation of Sovereign Indigenous Nations نے نسل پرستی کے الزامات پرکڑی تنقید کی ہے ، جبکہ صوبائی وزیرِ اعظم نے جذبات پر قابو رکھنے کی اپیل کی ہے ۔ کینیڈ ا کا قانون 643 فرسٹ نیشنز کو تسلیم کرتا ہے ۔ ان میں سے زیادہ تر ملک بھر میں پھیلی ہوئی اپنی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے نصف کے قریب برٹش کولمبیا اور اونٹاریو میں رہتے ہیں۔ سرکاری طور پر وہ دکھائی دینے والی اقلیت نہیں ہیں ۔ ان سے زیادہ تو بہت سے تارکین ِوطن کے گروہ اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں۔ زیادہ تر فرسٹ نیشنز کے باشندے دیہاتی علاقوں میں بکھری ہوئی آ بادیوں کی صورت رہتے ہیں، چنانچہ وہ ملک کی وسیع آبادی میں عدم فعالیت کے باعث اپنی موجودگی ظاہر نہیں کرپاتے ہیں۔ قومی سطح پر ان کی نہ کوئی آواز ہے ، نہ لابی۔ چنانچہ وہ صوبائی یا قومی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتے ۔ 
تاہم اس ضمن میں کینیڈا کے فرسٹ نیشنل تنہا نہیں۔ آسٹریلیا، امریکہ اور جنوبی امریکہ میں بھی یہی صورت ِحال پائی جاتی ہے ۔ جہاں بھی مقامی باشندے پائے جاتے ہیں، اُن کی قسمت ایک جیسی ہی ہے ۔ وہ معاشرے کے درمیانی دھارے سے کٹے ہوئے رہنے کی وجہ سے نسلی تعصب کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اُنہیں سماجی عمل میں بہت حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے گروہ مایوسی اور محرومی کا شکار ہوکر مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کے حقوق کا کوئی چمپئن دکھائی نہیں دیتا۔ کینیڈا میں رہائشی سکولوں میں مقامی آبادی 
کے بچوں کے لیے 1876 ء کے ایک قانون کے تحت حاضری لازمی قرار دی گئی ۔ چرچ کی طرف سے چلائے جانے والے بعض سکولوں میں بچوں کو جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ یہ صورت ِحال کم و بیش ایک صدی تک جاری رہی ، یہاں تک کہ 1996ء میں اس قانون کو منسوخ کردیا گیا۔ 2008 ء میں وزیر ِاعظم سٹیفن ہارپر نے سرکاری طو رپر مقامی باشندوں سے معافی مانگی۔ آسٹریلیا بھی مقامی باشندوں کے لیے سخت پالیسی رکھتا ہے ۔ ایک فلم ''Rabbit Proof Fence‘‘ میں ایک نوجوان لڑکے اور اس کے بہن کی ابتلا کو دکھایا گیا ہے جو اپنے ایسے ہی رہائشی سکول سے بھاگ کر سینکڑوں میل دور اپنے والدین کے پاس جاتے ہیں۔ 
اس ظالمانہ سماجی تجربے کے پیچھے جواز ''وحشی اقوام کے بچوں کو سدھانا‘‘بتایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان بچوں کو ان کے وحشی والدین کے اثرات سے پاک کرنے کے عمل میں کچھ ''سختی ‘‘ کرنی پڑتی ہے ۔ ا ن بچوں کو اُن کے کلچر سے دور کرنے کے لیے اُنہیں رہائشی سکولوں میں رکھا جاتا ہے جہاں اُنہیں اپنی مقامی زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ کلچر تبدیل کرنے کے لیے طویل اور ظالمانہ عمل نے کئی نسلوں کو اعتماد اور انسانی سوچ سے محروم کردیا ہے ۔ ان کی فطری صلاحیتیں اور ذہانت کچلی گئی ہے ۔ تاہم اس ابتلا کے باوجود کینیڈا کی فرسٹ نیشنز نے اپنے امریکی کزنوں کی نسبت اچھی کارکردگی دکھائی ہے ۔ امریکہ میں پہلے تو ریڈ انڈنیز کی بے رحمی سے نسل کشی کی گئی۔ جوبچ گئے اُنہیں توہین آمیز معاہدوں کے تحت دوردراز کی آبادیوں میں رہنے پر مجبور کیا گیا۔ جب وہ علاقے بھی کام کے نکلے تواُنہیں وہاں سے بھی نکل کر دیگر مقامات پر جانے کا حکم دیا گیا۔ تاہم ماضی، بلکہ حال میں ہی روا رکھی جانے والی ناانصافی کو کسی پلیٹ فارم پر زیر ِ بحث نہیں لایا جاتا۔ New Brunswick، جہاں سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، میرے کینیڈا میں موجود دوست مقامی فرسٹ نیشنز سے بات نہیں کرتے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ان سے بات کرنا ان کی توہین ہو۔ 
عالمی سطح پر جن علاقوں میں یورپی باشندے آبادہوئے، مقامی آبادی اُن کے جبر سے کبھی نہ نکل سکی۔ مذہب یا کلچر کی ترویج کرتے ہوئے سفید فام مشینریزنے مقامی تہذیبوں کا حلیہ بگاڑ ڈالا۔ چنانچہ آج اسٹریلیا، شمالی اور جنوبی امریکہ جیسے وسیع بر اعظم سفیدفاموں کا راج رکھتے ہیں۔ یہاں غیر سفید فام تارکین ِوطن آکر تو ان کے اس ساتھ گھل مل سکتے ہیں لیکن یہاں کے مقامی باشندے اس کا حق نہیں رکھتے ۔ تاہم یہ رویہ صرف سفید فاموں تک ہی محدود نہیں، سری لنکا میں ویداز(مقامی باشندے) اب انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ اب ان کی آبادیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ انڈیا میں ادیواسیوں سے اُن کے جنگل اور چراہ گاہیں چھین لی گئی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں سندھ کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے بھیل(Bheels) بھی اب معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔پوری دنیا میں اس کے مقامی باشندے مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں