جب کسی ایسے مسئلے کا سامنا ہو جسے آپ حل نہیں کرسکتے تو بطور وزیر ِاعظم آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کچھ نہیں، بس قومی تعطیل کا اعلان کردیں اور امید رکھیں کہ لوگ مطمئن ہوجائیں گے ۔ نواز شریف صاحب نے نوّے کی دہائی میں یہی کچھ کیا۔ اُس وقت سے اب تک ہم پانچ فروری کو کام سے اجتناب کرتے ہوئے ، گھروں میں ٹھہر کر کشمیریوں کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کرکے دل کو تسلی دے لیتے ہیں۔ یقینا اس اقدام (اگر اسے اقدام کہا جاسکے ) سے وادی کے پریشان حال عوام کی تشفی نہیں ہوتی، لیکن چونکہ وزیر ِاعظم نواز شریف کے پاس قومی تعطیل کا اعلان ایک آسان آپشن تھا، اس لیے اُنھوں نے کشمیر کاز میں اپنی حکومت کا حصہ ڈال کر سکون کاسانس لیا۔ کوئی بات نہیں اگر اس کی وجہ سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوجائے ، عوام کو مطمئن تو کرنا ہوتاہے۔
اب اراکین ِ پارلیمنٹ پر مشتمل بائیس رکنی وفد کو دنیا کے دارالحکومتوں کی طرف روانہ کرکے عالمی راہنمائوں کو کشمیر میں بھارتی ظلم وجبر سے آگاہ کرنے کا اہتمام کرتے ہوئے وزیر ِاعظم نے ایک مرتبہ پھر آسان راستہ چنا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جب ہم بعد میں اٹھنے والے کل اخراجات کا ٹوٹل لگائیں گے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وفد میں شامل صاحبان ِ علم و قدر نے معاملے کو آسان نہیں رہنے دیا۔ تاہم یہ بوجھ کون سا حکمران خاندان کی جیب پر پڑے گا، عوام کو ہی برادشت کرنا ہے ، کرتے جائیں، کسی کا کیا جاتا ہے ۔ جب میں نے کشمیر کاز کی حمایت میں اٹھائے جانے والے اس حالیہ اقدام کے بارے میں پڑھا تو مجھے وہ وقت یاد آیا جب میں 1990 ء کی دہائی میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کا انفارمیشن افسر تھا۔ اُس وقت وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو کے ایک سینئر مشیرنے امریکی دارالحکومت کا دورہ کرنا تھا۔ اُس دورے کا مقصد امریکی رہنمائوں اور میڈیا کوکشمیر میں بھارتی ظلم وجبر سے آگاہ کرنا تھا۔ پلیز دل تھام کر بیٹھیں۔ مجھے ہدایت کی گئی کہ میں امریکی صحافیوں کی مشیر صاحب کے ساتھ ناشتے پر ملاقات کا اہتمام کروں، اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ میں جس صحافی کو بھی فون کرتا، کم وبیش ایک ہی جواب ملتا، ''عرفان، تمہارے مشیر کے پاس کشمیر کے بارے میں کہنے کے لیے نئی بات کیا ہے ؟‘‘بہت سی عرض و گزارشات کے بعد میں درجن بھر رپورٹرز اور کالم نگاروں کو ہوٹل کی میز تک لانے میں کامیاب ہوا، لیکن اُن کا تامل درست تھا۔ ہمارے مشیر کے پاس کہنے کے لیے واقعی کچھ بھی نیا نہ تھا۔
جب حالیہ دنوں ایک ایم این اے اقوام ِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے سربراہ چوئی کیانگ لم سے جنیوا میں ملے تو میں سوچ رہا تھا کہ مسٹر کیانگ لم کو کون سے نئی جانکاری حاصل ہوئی ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کارروائی ٹیکس دہندگان کی جیب پربوجھ ڈال کر سیروتفریح کی خاطر مہذب دنیا کا پرلطف سفر کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ تاہم اس سے یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھری نہیں بیٹھی، کچھ نہ کچھ کررہی ہے ۔ اور اگر عوام تک یہ تاثر چلا جاتا ہے تو رقم کا کیا ہے، یہ تو ہاتھ کامیل ہے ۔ بطور انسان ہمیں کشمیر میں بھارتی ظلم و جبر پر دکھ ہے ۔ تشدد کی حالیہ لہر میں ستر سے زائد بے گناہ شہری ہلاک جبکہ ہزاروں دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔ پیلٹ گن کی فائرنگ سے درجنوں افراد بینائی سے عارضی یا مستقل طور پر محروم ہوچکے ہیں۔ یہ حالیہ تشدد میں داخل ہونے والا ایک نیا اندوہناک عنصر ہے۔ پرکشش کشمیری نوجوان، برہان وانی کی شہادت کے بعد سے احتجاجی مظاہروں اور بھارتی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
تاہم حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان موجودہ صورت ِحال کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ 1972 ء میں طے پانے والا شملہ معاہدہ طرفین پر ''مسائل کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے ‘‘ پر زور دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا موقف یہ رہا ہے کہ پاکستان دوطرفہ بات چیت کی بجائے اس مسلے پر عالمی مداخلت چاہتا ہے ۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے پاگل پن کی تعریف اسی طرح کی ہے ۔۔۔''ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور ہر بار مختلف نتائج کی توقع رکھنا‘‘۔ اسی طرح پاکستان نے بھی بار بار ایک ہی دیوار سے سر پٹخ کردیکھ لیاہے ، اس کا نہ انڈیا پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی عالمی برادری نے ہماری بات سنی ۔ سفارت کاری سے لے کر جہادی پراکسی دستے تک استعمال ہوئے پھر بھی ذرہ برابر حالات تبدیل نہیں ہو سکے ۔
حقیقت یہ ہے ، اگر ہم اسے سننے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، دنیا کشمیر پرلامتناہی پاک بھارت کشیدگی ، بیانات، دعووں، جنگوںوغیرہ سے تنگ آچکی ہے ۔ جس دوران ہم وادی میں روارکھی جانے والی ناانصافی پر ماتم کناں اور اشک بار ہیں، کوئی بھی ہماری آہ و زاری اور آنسوئوں کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری نام نہاد اسلامی برادرریاستیںبھی ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی فورسز بہت ڈھٹائی سے شہریوں کا کھلا قتل ِعام کررہی ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ریاستیں آسانی سے اور اپنی مرضی سے کسی علاقے کا کنٹرول نہیں چھوڑتیں، چاہے اس کے لیے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑجائے ۔ ممالک اپنی جغرافیائی حدود سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اسرائیل کی مثال لے لیں، 1948 ء میں اپنے قیام کے وقت اقوام ِ متحدہ کی طرف سے حاصل اختیار کے تحت اپنے علاقے کو توسیع دینے کے علاوہ بھی اس نے فلسطینیوں کے مغربی کنارے پر 1967 ء سے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کی کئی ایک قراردادوں اور عالمی دبائو کے باوجود اسرائیل نے زبردستی قبضہ برقرار رکھا ہے ۔
تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے ۔۔''جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘، چنانچہ اگر آپ دنیا میںمقام حاصل کرنا یا عزت سے جینا چاہتے ہیں تو آپ کو طاقتور ہونا پڑے گا۔ تاہم اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان عسکری، معاشی ترقی اور جمہوری اعتبار سے بھارت کی نسبت کمزور ثابت ہوا ہے ۔ مزید یہ کہ اسے اپنے داخلی مسائل اور نظریات کی وجہ سے دنیا کے ساتھ چلنے میں بھی دقت کا سامنا رہا ہے ۔ آج چین امریکہ کے سامنے سراٹھا کر، برابری کی سطح پر بات کرنے کی پوزیشن میں کیوں ہے ؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ اس نے محنت کرتے ہوئے اپنی معیشت کو توانا اور اس کے ذریعے اپنی مسلح افواج کو جدید بنایا ہے ۔ اگرچہ یہ ابھی بھی ایک ترقی پذیر ملک ہی ہے ، لیکن اس کی ترقی کی وجہ سے دنیا اس کی بات سنتی ہے۔ جہاں تک ہمارے پیارے پاکستان کا تعلق ہے تو ہم پانچ فروری کو گھروں پر قیام کرکے یا اپنے ہاں دستیاب بقراطوں کو عالمی دورے پر روانہ کرکے کشمیریوں کی حمایت کے فریضے سے بخیروخوبی سبکدوش ہولیتے ہیں ۔ الحمد ﷲ۔