بحران ! کیسا بحران؟

کراچی سٹاک ایکس چینج حال ہی میں 40,000 پوائنٹ کی بلندی تک جا پہنچی۔ بھارتی پولیس نے ایک ایسے پاکستانی کبوتر کو ''حراست‘‘ میں لیا جونریندر مودی کے لیے دھمکی آمیز پیغام لے کر جا رہا تھا۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کے ایک اور بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ اس میں نئی 'بحران نما‘ بات کیا تھی؟ یہ تو ہمارے ہاں کا معمول ہے ۔ ہاں، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب ہمارا ہمسایہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے ہمیں عالمی تنہائی سے دوچار کرنے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارا پانی روکنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اس نے آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے تو کچھ حلقے توقع کر رہے تھے کہ عمران خان اپنی احتجاجی تحریک موقوف کردیں گے ۔ لیکن نہیں، عمران خان نے عزم کیا کہ اگر اُن کی بات نہ مانی گئی تو وہ محرم کے بعد نواز شریف کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ رائیونڈ میں شریف فیملی کے گھرکے باہر مختصر وقت کے لیے دھرنا دینے کے بعد اُنھوں نے اپنے دستوں کو ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ معرکے کی تاریخ بھی طے کردی گئی ہے۔ 
میں سمجھ سکتا ہوں کہ خان صاحب نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں۔ جہاں تک لندن کی جائیداد کے ایشو کا تعلق ہے تو وہ کبھی کوئی راز نہ تھا، کئی برسوں سے بہت سے لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ یہ جائیداد شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ شاید اس سے پہلے عمران خان نے سوچا ہوگا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں اور پھر اُن کی اپنی بھی ایک سمندر پارکمپنی لند ن میں ایک فلیٹ کی ملکیت رکھتی تھی۔ تاہم قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے اُنھوں نے نواز شریف کو ''آئینی وزیر ِاعظم‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اُن لاکھوں رائے دہندگان کی نمائندگی کرنے سے بھی انکار کردیا جنہوں نے پی ٹی آئی کوووٹ دیے تھے۔ حکومت پر تنقید کرنے کا سب سے مناسب پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہی ہوسکتی ہے، لیکن عمران کچھ اور چاہتے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سعیٔ پیہم ہماری کمزور سی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے مترادف ہے۔ اُن کا نہ ختم ہونے والا احتجاج ایک خطرناک اشارہ کرتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ یقیناً عمران خان کو ملک کے لیے اپنے ذاتی عزائم کو ایک طرف رکھ کر قومی یک جہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ سرحدوں پر تنائو ہے۔ اس وقت تمام سیاسی قیادت حکومت کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی تو بہتر تھا۔ لیکن عمران خان کا پارلیمنٹ کو نظر انداز کرناکوئی نئی بات نہیں۔ وہ اس اہم ادارے کی توہین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 2014 ء کے دھرنوںکے دوران وہ اور اُن کی جماعت کئی ماہ تک پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے رہے۔ اور اب وہ فرما رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جانے کا کوئی مقصد نہیں۔ تاہم انہیں اور ان کی جماعت کے دیگر ارکان ِاسمبلی کو بھاری بھرکم مشاہرے اور تنخواہیں لیتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیںہوتی۔ باعزت بات تو یہ تھی کہ اُنھوںنے جتنی رقم اب تک حاصل کی ہے، اُس میں سے وہ رقم (جتنے اجلاسوں سے وہ غیر حاضر رہے) اسمبلی کو واپس کرکے اپنی نشستوںسے مستعفی ہو جاتے۔ ایسی صورت میں ضمنی انتخابات ہوتے اور عوام کے پاس بھی موقع ہوتا کہ وہ پی ٹی آئی کے ارکان (جو اسمبلی جانا ہی نہیں چاہتے) کی جگہ کسی اور کو اپنی نمائندگی کرنے دیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو کوئی آسمان نہ گرتا کیونکہ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اُن کے خیالات سے متفق نہیں ہیں۔ 
ایک حوالے سے میں دیکھ سکتا ہوں کہ عمران خان اسمبلی سے کیوں بدکتے ہیں۔ در اصل جلسے جلوسوں میں جوشیلے ہجوم کو اپنا منتظر دیکھ کر اُن کی انا کو ایک طرح کی تسکین ملتی ہے جبکہ اسمبلی میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے، محترم اسپیکر کی اجازت سے اپنی بات کرنا اُن کی طبع پر گراں گزرتا ہے۔ اور پھر اسمبلی میں بات کرتے ہوئے الفاظ کا خیال رکھنا پڑتا ہے، یہاں وہ اپنے مخالفین کے لیے ناروا الفاظ استعمال نہیں کرسکتے، چنانچہ اُنہیں یہ ماحول پھیکا پھیکا لگتا ہے۔ دراصل اُن کے اندر کا ''کھلاڑی‘‘ ابھی سیاست دان نہیں بنا۔ اس کے علاوہ خان صاحب کو ہمارے آئین میں موجود چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی نہیں بھاتا۔ بطور کرکٹ کپتان اور بطور ایک سیاسی جماعت کے رہنما، وہ کسی اختلافی آواز کو برداشت نہیں کرتے۔ چنانچہ آمرانہ ذہنیت کے رہنمائوں کے پاس ''محض جمہوریت کے نام پر‘‘ سمجھوتہ کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ 
پارلیمنٹ کے جواز پر سوالیہ نشان لگانے کی عمران خان کے پاس ایک اور وجہ یہ ہے کہ وہ اسے دھاندلی زدہ انتخابات کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے اپنی سوچ تبدیل نہیں کرپائے۔ تاہم وہ بھول گئے ہیںکہ 2002 ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کی موجودگی صرف اُن کی اپنی ایک نشست تک محدود تھی۔ موجودہ اسمبلی میں ان کے پاس اٹھائیس نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کے پاس خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ہے۔ چنانچہ اگر بقول عمران یہ نظام ہی دھاندلی زدہ ہے تو پھر پی ٹی آئی اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ یقیناً ہم سب جانتے ہیںکہ ہمارا انتخابی نظام بہت سے مسائل رکھتا ہے ،لیکن پھر ہم جرمنی یا انگلینڈ نہیں۔ ہمارے ہاں مقامی طور پر رقم سے لے کر بازوئوں کی طاقت اور ذات برادری سے لے کر مسلک تک، سب کچھ انتخابی کامیابی کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ پولنگ بوتھ پر بھی کسی نہ کسی کا زور چلتا ہے ۔ یہ ہماری انتخابی سیاست کے تلخ حقائق ہیں اور اُنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم قومی اور عالمی مبصرین حتمی نتائج کو ہی عوامی رائے تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہم راتوں رات، کسی قانون سازی سے اس نظام میں بہتری نہیں لاسکتے ۔ یہ بتدریج ہی آئے گی اور اسمبلی کے ذریعے ہی آئے گی۔ میں اس نظام کی خامیوں پر کئی صفحات کالے کرسکتا ہوں لیکن اس کا حل اس نظام کی تسلسل کے سواکوئی نہیں۔ 
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان صرف اُس الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں گے اور اُس اسمبلی کو تکریم دیں گے جب وہ خود وزیر ِاعظم بن جائیں گے، اس سے پہلے نہیں۔ تاہم جب تک اس نشست پر نواز شریف بیٹھے ہیں اور جب تک وہ رخصت نہیں ہوتے، یہ عمران کو نہیں مل سکتی۔ تاہم اُن کے ڈی این اے میں صبر نامی کوئی عنصر نہیں۔ جمہوریت کے لیے ایک اور ناگزیر رویہ برداشت ہے جس کی خان صاحب میں کمی ہے۔ اس برداشت کی ضرورت استقامت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ خان صاحب میں استقامت اور جرأت تو ہے، برداشت نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی ہر رائے درست ہے، وہ کسی کا مشورہ ماننے بلکہ سننے کے بھی روادار نہیں۔ ایک قومی سطح کے رہنما کے کردار کا یہ ایک خطرناک پہلو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں