جھوٹے شیخ کا زوال

گزشتہ بدھ کو پاکستان کے کم از کم تین افراد بہت خوش ہوں گے۔ یہ افراد سلمان بٹ،محمد آصف اور محمد عامر ہیںجنہیں 2010 ء میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران سپاٹ فکسنگ کی پاداش میں سزا ہوئی، اور یوں وہ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بنے ۔ گزشتہ بدھ اُن کی خوشی کی وجہ اُن کے زوال کا باعث بننے والے مظہر محمود عرف 'جھوٹا شیخ‘ اور 'کنگ آ ف سٹنگ ‘ کو لندن کی ایک عدالت سے ملنے والی سزا ہے ۔ مظہر محمودوہ شخص تھا جس نے اُس وقت پاکستانی کپتان، سلمان بٹ کو ورغلایا کہ وہ اپنے دوفاسٹ بالروں کو مخصوص اوورز میں نوبال کرنے کی ہدایت کرے ۔ اس نے ہونے والی اس ڈیل کو فلما لیا۔ اس طرح سپاٹ فکسنگ کے ثبوت ملنے پر ان تینوں شہرت یافتہ کھلاڑیوں کو جیل جانا پڑا، اور یوں اُن کا کامیاب کرکٹ کیرئیر پٹری سے اتر گیا۔ 
نیوز آف دی ورلڈ کا (اب برطرف شدہ) رپورٹر، مظہر محمود اہم شخصیات کو ورغلا کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث کرنے اور ان کی اس حرکت کی فلم بنانے کی شہرت رکھتا تھا۔ پھر وہ تصاویر اخبارات کی زینت بنتیں، اُن افراد کی شہرت داغدار ہوتی اور پولیس اُنہیں گرفتار کرلیتی ۔ لوگ اس کا شکار ہوتے رہے، لیکن حالیہ دنوں ایک عدالت کو پتہ چلا ہے کہ 'جھوٹا شیخ‘ مواد کو تبدیل کرکے انصاف کے عمل کو بھی چکمہ دیتا رہا ہے۔ اگرچہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں سنایا ، لیکن امکان ہے کہ اُسے بھاری جرمانہ اور عمر قید کی سزا ہوجائے گی۔ مظہر محمود کا طریق ِکاریہ تھا کہ وہ عام طور پر سادہ لوح، لالچی اور فوری طور پر کچھ حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کوورغلاتا کہ وہ اُن کی ملاقات طاقتور اشرافیہ سے کراسکتا ہے بشرطیکہ وہ اُس کی ایک بات مان لیں۔ عام طور پر وہ کام کوئی منفی سرگرمی ہوتا تھا، جیسا کہ کوئی منشیات یا کوئی اور ممنوعہ چیز کا حصول۔ اس پر وہ شخص پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا۔ 
جس کیس میں مظہر محمود کیفرکردار کو پہنچا وہ این ڈوبیز(N-Dubz) بینڈ کی ایک گلوکارہ ، تلیسا(Tulisa) کو اپنے جال پھنسانے کی کوشش تھی۔ اُس نے خود کو ایک فلم پروڈیوسر ظاہر کیا اور مس تلیسا تک رسائی حاصل کرکے اُسے یقین دلایاکہ وہ اُسے ایک فلم میں لی نارڈو ڈی کیپریو(Leonardo DiCaprio) کے ساتھ کام دلاسکتا ہے ۔ اس نے کہا تلیسا کو اسے تھوڑی سی کوکین فراہم کرنا ہوگی۔مظہر محمود کا ڈرائیور، ایلن سمتھ ، جوبہت دیر سے اُس کے ساتھ کام کررہا تھا، نے اس کے سابق کارناموں کو بیا ن کردیا لیکن گلوکارہ کے اس بیان کو چھپالیا کہ وہ نہ تو منشیات استعمال کرتی ہے اور نہ ہی ان کی خریدوفروخت میں کبھی ملوث رہی ہے ۔ مقدمے کے دوران ایلن سمتھ اپنے پہلے دیے گئے بیان سے منحرف ہوگیا ۔جس کی وجہ سے کیس ختم ہوگیا۔ یہاں سے تفتیش کا رخ مظہر محمود کے مشکوک طریق ِ کار کی طرف مڑ گیا۔ پتہ چلا کہ میٹروپولیٹن پولیس کوکسی نے خبردار کردیا تھا کہ یہ مشکوک رپورٹر اپنے شکاروں کو پھنسانے کے لیے کچھ حقائق کو تبدیل کردیتا ہے ۔اس کے شکار وں میں بہت اہم شخصیات، جیسا کہ ڈچز آف یارک، کائونٹس آف ویسکس اور انگلینڈ کے سابق فٹ بال منیجر سیون گورن ایریکسن شامل تھیں۔
پاکستانی نژاد مظہر محمود نے نوجوانی میں اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کردیا تھا جب وہ اپنے والد کے ساتھ برمنگھم سے ایک اردو اخبار نکالتا۔ وہ اخبار بڑی حد تک مقامی کمیونٹی کے لیے ہی تھا۔ دی گارڈین کے رائے گرین سلیڈ کے مطابق جب مظہر محمود اٹھارہ سال کا تھا تو اُس نے فیملی فرینڈز کے کچھ چوری شدہ ویڈیوز ایکسپوز کردیے ۔ اُس کی خدمات ایک ہفتہ روزہ رسالے نے حاصل کرلیں، اور وہ جلد ہی ایک انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر بن گیا۔ وہ اپنے شکار (Sting operations)کی تلاش میں عموماً عربی لباس پہن کرجاتا۔ وہ اپنے ہدف کو یقین دلاتا ہے کہ اُس کی رسائی عرب شہزادوں تک ہے ۔ اُس کے بہت سے شکاروں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں اور اُن میں سے بیشتر اس وقت جیلوں میں ہیں۔ اُن میں سے ایک جان الفورڈ بھی ہے جو بیس سال پہلے ایک ابھرتا ہوا نوجوان اداکار تھا۔ وہ سالانہ 120,000 پائونڈز کماتا تھا ۔مظہر محمود کی وجہ سے وہ نوماہ کے جیل چلا گیا۔ اس کے بعد اُسے کبھی اداکاری کا کام نہ ملا۔ اب وہ بطور مزدور اپنی زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے ۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے موجودہ فیصلے پر الفورڈ کا کہنا ہے ۔۔۔''میں کبھی بھی منشیات کی خریدوفروخت ملوث نہیں رہا تھا۔ میں کل کے فیصلے پر بے انتہا خوش ہوں۔ اس شخص کو شرم سے اپنا سرجھکا لینا چاہیے ، اس نے میری زندگی تباہ کردی، میرا سب کچھ چھن گیا، میرا گھر، میرا کیرئیر، میرا زندگی کا جذبہ، میرا اعتماد۔ اُس دن میرا اندر کے ایک انسان مرگیا۔ یہ میری خوش قسمتی ہی ہے کہ میں زندہ رہا ۔‘‘
مظہر محمود کامقدمے کا فیصلہ سننے کے بعد اپنا نام کلیئر کرانے والوں میں صرف الفورڈ ہی شامل نہیں، اُس کا شکار ہونے والے بہت سے افراد محمود اور نیوز آف دی ورلڈ اور دی سن کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ دونوں اخبارات کردار کشی کی کہانیاں شائع کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، اوران کا تعلق میڈیا کی دنیا کے بڑے نام رپرٹ مدروچ (Rupert Murdoch) سے ہے ۔ایک امریکی فنانسر ، جان برین نے لاس اینجلس کی ایک عدالت میں اُس پر پایئریسی اور ہرجانے کا مقدمہ کردیاہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ مظہر محمود نے اُسے ایک کیسینومیں سرمایہ کاری کرنے کی پیش کش کرکے ورغلانے کی کوشش کی ، اور پھر بدنام لڑکیاں اور منشیات سپلائی کرنے کا کہا۔The Met کو بھی مقدمہ اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ مظہر محمود کے طریق ِ کار کے بارے میں دووارننگز ملنے کے باوجود وہ اس کا فراہم کردہ مواد استعمال کرتا رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائی پروفائل کیسز ،خاص طور پر جن کو میڈیا نے کوریج دی، کی طرف پولیس کی توجہ مبذول ہونا قدرتی امر تھا۔ اور پھر ان کیسز میں پولیس کو زیادہ تفتیش کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مواد موجود تھا۔ 
تاہم یہ تمام مکروہ دھندہ ذمہ دار صحافت پرکچھ اہم سوالات اٹھاتا ہے ۔ عوام کے پاس جاننے کا حق متوازن ہونا چاہیے ، کیونکہ معلومات اور کسی شخص کی ذاتی زندگی میں فرق ہوتا ہے ۔مزید یہ کہ کسی سادہ لوح شخص کو کسی مجرمانہ سرگرمی میں پھنسا نا صرف اخبار کی فروخت بڑھانے کے لیے نہیں تھا، جیسا کہ دی گارڈین نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں لکھا۔۔۔''بعض اوقات سچ کی تلاش صحافی منفی ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ بیوروکریسی کی دیواروں میں نقب لگانے کا جواز نکل آئے لیکن اس راہ پر چلتے ہوئے عوامی مفاد کو ملحوظ ِ خاطر رکھنا چاہیے ۔ تاہم مظہر محمود کی طرف سے مس تلیسا کو اپنے جال میں پھنسانا کسی طور بھی عوامی مفادکی سرگرمی نہیں تھی، اور نہ ہی اسے سچ کی تلاش کہا جاسکتا ہے ۔ ‘‘مظہر محمود کے بہت سے شکار دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیںناکردہ جرم کی سزا ملی اور ان کا کیرئیر تباہ ہوا ۔ ہوسکتا ہے کہ میڈیا گُرو، مدورچ کو بھی مظہر محمود کے جرائم کی تپش پہنچ جائے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں