بریگزٹ کے بعد پیدا ہونے والے مسائل

برطانیہ کی سب سے بڑی سپرمارکیٹ چین، ٹیسکو (Tesco) کی شلیفوں پر سے مارمیٹ(Marmite)کے غائب ہوجانے پر اہل ِ برطانیہ کو بریگزٹ کی کامیابی کی صورت میں اداکی جانے والی اصل قیمت کا احساس ہوچکا ہوگا۔ برس ہا برس سے برطانیہ کے شہریوں کا پسندیدہ مارمیٹ خمیر سے تیار کردہ بریڈ پر لگانے والاسپریڈ (spread) ہے ۔ برطانیہ کی مارکیٹ میں بہت سی اشیائے خورونوش اور صابن فراہم کرنے والی کمپنی یونی لیور ، ہالینڈ،یہ سپریڈ فراہم کرتی ہے ۔
اب یہ تمام مصنوعات ٹیسکو کی شیلفوں پرسے غائب ہیں کیونکہ یونی لیور ان کی قیمت میں دس فیصد اضافہ کرنا چاہتی تھی لیکن سپر مارکیٹ انتظامیہ نے اضافی قیمت ادا کرنے سے انکار کردیا۔ قیمت میں اضافے کی وجہ بریگزٹ کے بعد پائونڈ کی قدر میں ہونے والی مسلسل کمی ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم کے بعد سے پائونڈ کی قدرڈالر کے مقابلے میں 18 فیصد کم ہوچکی ہے ۔ کریش کے رد عمل میں سنبھلنے کے دکھاوے کے چند منٹ بعد یہ چھ فیصد مزید گر گیا۔ اگرچہ ٹیسکو اور یونی لیور کا تنازع اب حل ہوچکا ، لیکن اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یقینی دکھائی دیتا ہے ۔ فی الحال وہ شہری جنھوں نے یورپی یونین سے اخراج کی حمایت کی تھی، یہ دیکھ کر بہت خوش ہورہے تھے کہ برطانیہ کو ویسی معاشی تباہی کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ درحقیقت سٹاک مارکیٹ انڈیکس ''FTSE‘‘ میں بتدریج اضافہ ہوا۔ 
لیکن اب پہلی مرتبہ ،بریگزٹ کے بعد، برطانوی شہری دنیا کے سب سے کامیاب تجارتی بلاک، یورپی یونین، سے روابط منقطع کرنے کے نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ جلد ہی پٹرول اوراشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ ڈالر اور یورو کی قدر میں اضافے کی وجہ سے تمام برآمدات مہنگی ہوجائیں گی۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ پائونڈ کی قدر میں کمی کی وجہ سے برطانیہ کی برآمدات میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ اس کے علاوہ سیاحوںکی بھی بہت بڑی تعداد اس کا رخ کررہی ہے کیونکہ ڈالر اور یورو کے مقابلے میں پائونڈ کی قدر ماضی کی نسبت کم ہونے سے اب وہ آکسفورڈ سٹریٹ میں شاپنگ کرنابہت ارزاں پاتے ہیں ۔ 
اہل ِ برطانیہ اُس سے کہیں زیادہ چیزیں صرف کرتے ہیں جتنی پیدا کرتے ہیں۔ ان کی درآمدات ان کی برآمدات سے کہیں کم ہوتی ہیں۔ یہ خسارہ پراپرٹی مارکیٹ کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے کیونکہ اکثر غیر ملکی برطانیہ میں جائیداد خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں، چنانچہ یہاں جائیداد کی قیمت برطانیہ کے بجٹ کو سہارا دیتی ہے۔ لندن کے مکان اور فلیٹس کی ڈالر میں کم ہونے والی قیمت گاہکوں کے لیے بہت پرکشش ہے ، لیکن ایک مرتبہ جب یہ کشش ماند پڑ گئی تو یہ معاشی سہاراختم ہوجائے گا۔ اگرچہ تھیوری کے اعتبار سے کمزور پائونڈ برآمدات کو بڑھاتا ہے لیکن چیزیں فروخت کرنے کے لیے بنانی بھی تو پڑتی ہیں۔ کئی برسوں سے یہاں کی پیدواری صنعت زوال پذیر ہے ۔ حتیٰ کے مشرق ِوسطیٰ میں ''میڈ ان یوکے‘‘ کا لیبل رکھنے والی مصنوعات درآمدکردہ پرزوں کو اسمبل کرکے بنائی جاتی ہیں۔ چنانچہ کار ساز کمپنیوں کو پرزوں پر ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے ۔ اب چونکہ ان 
کے پاس یورپی یونین کی ٹیرف فری چھتری نہیں ، اس لیے اُن کی لاگت میںاضافہ ناگزیر ہے ۔ 
یہ معروضات بریگزٹ کے حوالے سے پارلیمنٹ اور میڈیا میں جاری گرما گرم بحث کا لب ِ لباب ہیں۔ اس وقت ہائی کورٹ ایک کیس کی سماعت کررہی ہے جس میں حکومت کی بریگزٹ پر پوزیشن کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ ایک گروپ نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کے حکمران جماعت کے حق پرسوال اٹھایا ہے ۔ حکومت کا اصرار ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج اُسے یورپی یونین چارٹر کے آرٹیکل 50 کو استعمال کرنے کا حق دیتے ہیں۔ اس سیر حاصل بحث کے ذریعے تھریسا مے 1972 ء کے ایکٹ کو ختم کرنے پر اپنی پوزیشن کا جائزہ لے رہی ہیں۔ تاہم اپنی صفیں از سر ِ نو مرتب کرنے والی لیبر پارٹی ، جسے کنزرویٹو ارکان کے ایک گروپ کی حمایت بھی حاصل ہے ، کا اصرار ہے کہ حکومت کو حاصل مینڈیٹ علیحدگی روکنے کی شرائط پوری نہیںکرتا۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ اس کے بہت سے ارکان یورپی یونین چھوڑنے کے سوال پر لیبر پارٹی کی سائیڈ لے سکتے ہیں۔ 
تھریسا مے نے حالیہ دنوںکی جانے والی ایک تقریر میں اپنے ارادے ظاہر کردیے تھے ۔ اُنھوں نے واضح طو ر پر کہا کہ بریگزٹ کامطلب غیر ملکیوں کے برطانیہ میں داخلے کو محدود کرنا ہے ۔ اس تقریر کے بعد پائونڈ کی قدر میں یک لخت کمی دکھائی دی کیونکہ سرمایہ کاروں نے مس مے کو بھی ''ہارڈ بریگزٹ ‘‘ کے موقف کا حامی تصور کیا۔ بنیادی طور پر زیادہ تر یورپی رہنما اس موقف پر بہت واضح سٹینڈ لیتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر برطانیہ بریگزٹ سے پہلے والی تجارتی سہولیات سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اسے دیگر رکن ریاست کے شہریوں کو آزادانہ نقل وحرکت کی بلاروک ٹوک سہولت فراہم کرنا ہوگی۔ یہ شرط قبول کرنا بریگزٹ کے حامیوں کے لیے اذیت ناک ہوگا، کیونکہ ان کی مہم کی روح ِرواں ہی غیر ملکیوں کی آمد تھی۔ اس طرح حکومت ایک شدید الجھن کا شکار ہے ۔ اگر یہ ''نرم بریگزٹ ‘‘ اپناتی ہے تو یہ اپنے حامیوں کو ناراض کربیٹھے گی ، لیکن اگر یہ دوسرا راستہ اختیار کرتی ہے کہ تو برطانیہ کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ جاپان کی مشہور کار ساز کمپنی، نسان ، نے برطانوی حکومت سے یہ یقین دہانی چاہی ہے اگر وہ اپنی صنعتی سرگرمیاں جاری رکھتی ہے اور اگربریگزٹ کے نتیجے میں اسے نقصان کا سامنا کرناپڑتا ہے تو برطانوی حکومت اس کی تلافی کرے گی۔ 
بورس جانسن اور دیگر رہنمائوں کی بریگزٹ کے حق میں چلائی جانے والی دھوکہ بازمہم کی وجہ سے آج برطانیہ معاشی اور آئینی بحران کا سامنا کررہا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ بورس جانسن کو سیکرٹری کا عہدہ دے دیا گیا ہے ۔ بریگزٹ مہم کے دوران کیا جانے والا انتہائی پرفریب وعدہ یہ تھا کہ یورپی یونین سے نکلنے کی صورت میں برطانیہ کو رکنیت کی رقم کی بچت ہوگی، اور اس رقم کو پبلک ہیلتھ پر خرچ کیا جائے گا۔ تاہم تیئس جون کے بعد سے بریگزٹ کے حامی رہنما اس وعدے سے منحرف ہوچکے ہیں۔ بریگزٹ کا ایک منفی رد ِعمل برطانیہ جیسے روادار معاشرے میں غیر ملکیوں کے خلاف بڑھنے والا تشدد اور تعصب ہے ۔ بریگزٹ کو حالیہ تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہا جاسکتا ہے ۔ امریکہ میں ٹرمپ کا انتخاب بھی ایسی ہی سنگین غلطی ہوگا۔ فرق یہ ہے کہ امریکی صدر کی مدت تو چار سال کے لیے ہوتی ہے ، لیکن بریگزٹ مستقل ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں