دوسروںکی تکلیف پر ہمارا رد ِعمل

انسانی زندگی کی کیا قیمت ہے ؟ عزیزواقارب کے لیے بیش بہا ، لیکن معاشرے اور ریاست کے لیے انسانی جان کی قیمت یقینا اتنی نہیں، کم از کم جذباتی طور پر صفر ۔نائن الیون کے فوراً بعد انسانی حقوق کے لیے ان تھک جدوجہدکرنے والے مشہور سماجی کارکن آئی اے رحمان میرے پاس کراچی آئے ۔ میرے بیٹے، شاکر نے پوچھا کہ دہشت گردی شکار ہونے والے افراد کے لیے امریکی اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا کررہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں جہادی دستے کہیں زیادہ افراد کو ہلاک کردیتے ہیں۔ مجھے رحمان صاحب کا جوا ب ابھی تک یاد ہے۔۔۔''انسانی جان کی قدر وقیمت کا تعین اُس کا معاشرہ کرتاہے ۔ پاکستان میں بہت سے لوگ بلاوجہ ہلاک کردیے جاتے ہیں، اور ہم ان کی کوئی پروا نہیں کرتے ۔ تاہم بہت سے ممالک میں انسانی جان کی حرمت کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ دراصل ریاست کا بنیادی فرض اپنے شہریوں کی جانوں کی حفاظت ہے ‘‘
پاکستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو انتہا پسندوں نے ہلاک کردیا، لیکن ریاست کا رد ِعمل برائے نام تھا۔ انتہا پسند وں کی ہر چیرہ دستی پر معاشرہ مگر مچھ کے آنسو بہاتا، اور یوں ایک دن گزر جاتا۔ انتہا پسند ریاست میں خون کی ہولی کھیلتے رہے لیکن کوئی ایک پتہ تک نہیں کھڑکا، یہاں تک کہ اُنھوںنے آرمی پبلک سکول میں دوسال پہلے بچوں کو ہلاک کیا تب کہیں جاکے حکومت اور ہماری فورسز جاگیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ افسران کے بچے تھے ۔ تو کیا اس سے یہ تاثر نہیں جاتا کہ ریاست اور معاشرے کے نزدیک ایک ہزار ہ بچے اور ایک افسر کے بچے کا خون برابر نہیں ؟
انسانی جان سے سفاکانہ بے حسی صرف ہمارا ہی خاصہ نہیں، ایک برادر عرب ملک نے بھی وحشیانہ بمباری کرکے یمن میں ہزاروں بے گناہوں کو ہلاک کردیا ہے ۔ اس کے پاس جدید جنگی طیارے تو ہیں لیکن اس کے پائلٹ مہارت سے عاری ہیں۔ وہ درست نشانہ لگانے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ایک غریب اور کمزور سی ریاست میں بے گناہوں کا لہو ارزاں ہوچکا ہے ۔ ستم یہ ہے کہ یہی عرب ملک شامی حکومت پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگاتے ہوئے ہر عالمی فورم پر آواز اٹھاتا ہے۔ دوسری طرف یمن والوں کا لہو پانی ہے ۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ ہے ۔ اُن میں سے ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں، سینکڑوں کو ہلاک کیا جاچکا ، درحقیقت تمام روہنگیا آبادی کو سفاکانہ نسل کشی کا سامنا ہے ۔ اس کے باوجود کسی حلقے کی طرف سے میانمار کی حکومت کی مذمت میں ایک لفظ سننے کو نہیں ملتا۔ حتی کہ امن کی نوبل انعام یافتہ Aung Sang Suu Kyi کو بھی روہنگیا مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ ادا کرنے کی بھی توفیق نہ ہوئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی اس بدقسمت آبادی سے تعصب رکھتی ہے ، یا پھر وہ بدھ مت کے اکثریتی ملک میں اپنی مقبولیت کو دائو پر نہیں لگانا چاہتی ۔ 
عام طو رپر مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ وہ ایک وسیع تر امت کا حصہ ہیں جو جغرافیائی حدودسے ماورا، کئی براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اسلامی بھائی چارے کا یہ التباسی تصور انڈونیشیا سے لے کر تیونس تک، ہر دکھی مسلمان کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے ۔ تاہم عملی طور پر ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ عام طور پر مسلمان فلسطینیوں پر 
اسرائیل کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی طور پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نیویارک میں مسلمانوں پر حملے بھی اُنہیں مل کر اس کی مذمت کرنے کی توفیق دیتے ہیں، لیکن یمن اور روہنگیا کے مسلمانوں کو کیوں نظر انداز کردیا جاتا ہے ؟یہ مانا کہ شام کی سرزمین ایک قتل گاہ بن چکی ،لیکن او آئی سی کہاں ہے ؟ اس کے لب کس نے بند کررکھے ہیں؟بل ، جو میرا ایک امریکی قاری ہے اور جس کا تجسس اس کی تحقیق سے لگا کھاتا ہے ، نے مجھ سے ایک فرقے کے بارے میں پوچھا۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ ہمارے ہاں اس مسلک کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ؟ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا کہ جب مسلمان اپنے ہاں اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے ہیں تو پھر وہ مغرب میں اسلامی فوبیا کی دہائی کیوں دیتے ہیں؟کیا کوئی بل کی بات پر دھیان دینے کی کوشش کرے گا؟
یہ بات درست ہے کہ ہماری ہمدردی کا دامن محدودہی نہیں من پسند بھی ہے ۔چنانچہ جو لوگ ہم سے دور ہیں، وہ ہمارے جذبات کے تار چھیڑنے کے مجاز نہیں۔ چنانچہ پاکستان میں 
آنے والے تباہ کن زلزلے پر تو تمام دنیا ہمارے ساتھ ہمدردی کرتی ہے لیکن ہیٹی میں آنے والے زلزلے سے ہم بے خبر رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک ناپسندیدہ ملک میں آگ لگ گئی تو ہمارے کچھ حلقوں نے خوشی منانا شروع کردی۔ کیا دنیا ہمارے ان رویوں سے بے خبر ہے ؟چوبیس گھنٹے چلنے والے نیوز چینلز ہمیں معروضی انداز میں معلومات حاصل کرنے کی بجائے من پسند معلومات کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ زیادہ ٹی وی چینلز نے ہمیں معلومات کی بجائے بے خبری کی من پسند سہولت فراہم کردی ہے ۔ 
میں سری لنکا میں بی بی سی نیوز دیکھ رہا تھا جب میں نے پاکستان میں پی آئی اے کا طیارہ گرنے کی خبر سنی۔ میں نے بہت سے دوسروں کی طرح انٹر نیٹ پر اس کی تفصیل دیکھی۔ کیا چلّی میں گرنے والا طیارہ بھی مجھے اسی طرح صدمہ پہنچاتا؟دراصل گھٹن زدہ معاشروں میں انسانی قدریں بھی تقسیم کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ہم دوسری کی تکلیف کو احساس نہیں کرتے۔ شاید انسانی دماغ کے جذباتی خلیے پیہم دکھ کی کیفیت برداشت کرتے کرتے بے حس ہوجاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب ہم ناپسندیدہ اقلیتوں کی ہلاکت کو انصاف سے منسوب کرکے خود کو تسلی دیتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں