فلسطینیوں کی حالت ِ زار

تل ابیب سے سنائی دینے والے زوردار بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اُن چودہ ارکان کے خلاف فیصلہ کن معرکے لڑنے کا ارادہ کرچکا ہے جنہوںنے اقوام ِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں صہیونی ریاست کی توسیع پسندی کی پالیسی پر تنقید کی ۔ اس نے سینیگال کے لیے امدادی پروگرام کو روک دیا جبکہ نیوزی لینڈ کو بتایا کہ اس کے ووٹ کا مطلب ''اعلان ِ جنگ ‘‘ ہے ۔ نتن یاھو نے ان ممالک کے سفارت کاروں کو طلب کرکے سخت لہجے میں بات کی ۔ سکیورٹی کونسل کے ایک رکن ، امریکہ،جس نے رائے شماری میں حصہ نہیںلیا تھا(گویا اسرائیل کی حمایت سے گریز کیا)کو'' خصوصی ڈانٹ‘‘ پڑی۔ اسرائیلی حکومت کے اعلیٰ افسران کے منہ سے اپنے دیرینہ اور فیاض اتحادی(امریکہ) کے لیے ''دغابازی‘‘، ''پشت میں خنجر گھونپنا‘‘ اور ''گھات لگا کر حملہ کرنا ‘‘ جیسے الفاظ سننے میں آئے ۔ 
کئی عشروںسے امریکہ نے ایسی ہر اُس قرار داد کو ویٹو کرنا خود پر فرض کررکھا تھا جس میں اسرائیل اور اس کے مغربی کنارے پر غاصبانہ قبضے پر تنقید کی گئی ہو۔ دوسری طرف یہ سکیورٹی کونسل کا ایک مستقل ایجنڈا بن چکا تھا کہ کچھ ارکان اسرائیلی قبضے کے خلاف قرار داد میز پر رکھتے اور اس سے مزید بستیوں کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کرتے تاکہ مشرق ِوسطیٰ میں دوریاستوں کی تشکیل کا منصوبہ آگے بڑھ سکے ۔ ایسے مواقع پر امریکہ کی طرف سے ان قراردادوں کو ویٹو کرنا ایک معمول بن چکا تھا۔ اس سے اسرائیل پر آنے والا دبائو ختم ہوجاتا اور نئی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کردیتا ۔ تاہم اس مرتبہ اوباما انتظامیہ نے ووٹنگ سے گریز کرتے ہوئے دنیا کو حیران اور اسرائیل کو ناراض کردیا۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف قرارداد 14-0 سے منظور ہوگئی ۔ اس قرارداد کو رکوانے کے لیے غیر معمولی کوشش کرتے ہوئے نتن یاھو نے نو منتخب صدر ، ٹرمپ سے کہا کہ وہ مصر کے حکمران ، جنرل السیسی کو یہ قرار داد میز پر رکھنے سے باز رکھیں۔ ٹرمپ کی طرف سے ایک فون کال پر جنرل السیسی نے فرمان برداری دکھائی اور قرارداد واپس لے لی ۔ تاہم دیگر چار ممالک نے ہمت دکھائی اور اسے متفقہ رائے شماری سے منظور کرالیا ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے سے پہلے یہ کبھی سننے میں بھی نہیں آیا تھا کہ کسی غیر ملکی رہنما نے اس کھلے انداز میں امریکہ کی داخلی سیاست میں اس طرح مداخلت کی ہو۔ اس پر نیویارک ٹائمز، جو عموماً اسرائیل نواز پالیسی رکھتا ہے ، کوبھی تائو آگیا ۔ اس نے اپنے اداریے میں لکھا۔۔۔''یہ تنازع امریکی پالیسی میں آنے والی کسی تبدیلی کا نہیں بلکہ اسرائیلی پالیسی کے خطرناک رخ اختیار کرنے کا پتہ دیتا ہے کہ وہ دوریاستوںکے قیام کی تجویز سے تصادم کی راستے پر گامزن ہے ۔ اس مسئلے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسٹر نتن یاھو نے اپنی حکومت کو امریکی سیاست کانگران بنانے کی کوشش کی ہے ۔ روس کے سوا کسی غیر ملکی حکومت نے امریکی معاملات میں مداخلت کی جسارت نہیں کی تھی۔ ‘‘اس قرارداد کے بعد سیکرٹری آف سٹیٹ، جان کیری نے ایک جذباتی تقریر کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا وہ توسیع پسندی کی پالیسی ترک کرکے پرامن مذاکرات کا راستہ اختیار کرے ۔ اس تقریر نے تل ابیب کو مزید تائو دلا دیا۔ اسرائیل کے وزیر ِ تعلیم نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حاصل کردہ زمین فلسطینیوں کے حوالے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اُنھوںنے موقف اختیار کیا کہ فلسطینیوں کے پاس پہلے ہی ایک ریاست ہے اور اس کا نام ''غزہ ‘‘ ہے ۔ اگرچہ اسرائیل میں داخلی طور پر دائیں بازوکے جذبات پروان چڑھ رہے ہیںلیکن اس کے اندر سے ابھی بھی اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف تنقیدی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اس کے ایک لبرل اخبار ، ''Haaretz‘‘ میں زوی بیرل (Zvi Bar'el) لکھتے ہیں۔۔۔''ایسا لگتا ہے کہ اشتعال ، جس نے ان کے ذہن کو مائوف کیا ہوتا ہے ، کے عالم سے نکلتے ہوئے نتن یاھو سمجھتے ہیں کہ جس ادارے، اقوام ِ متحدہ نے اسرائیل کے قیام کو عالمی جواز بخشا، اُس کے کچھ دیگر عالمی فرائض بھی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف سینیگال یا یوکرائن کا نہیں ہے ۔ جب پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو لیڈروںکی آزمائش شروع ہوجاتی ہے اور ممالک زوال کے خطرے سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ ‘‘
تاہم ایسی معقول آوازیں دائیں بازو کے شور وغل میں دب جاتی ہیں۔ کسی حد تک فلسطینیوں کا رویہ بھی اس کا ذمہ دارہے ۔ غزہ سے فائر کیے جانے والے سینکڑوں راکٹوں نے اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا ، لیکن ان کی وجہ سے عالمی برادری کے دل میں راکٹوں کا نشانہ بنے والے ملک، اسرائیل ،کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھرے ۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی کارروائیوں، چاہے وہ برس ہا برس کے جبر اور توہین کا رد ِعمل کیوں نہ تھیں، کی وجہ سے بھی فلسطینیوں کو عالمی سطح پر دوست تلاش کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تنازع نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اُن کے درمیان کوئی اتحاد نہ بننے پائے ، چنانچہ وہ کسی سے مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسرائیل اس بات کو جواز بنا کر مذاکرات کو رد کردیتا ہے کہ حماس اس کے وجود کو ہی برادشت نہیں کرتی۔ ان عوامل ، اور امریکی قیادت میں کی جانے والی مداخلت کی وجہ سے مشرق ِوسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی شورش نے فلسطین کے مسئلہ کو پس ِ منظر میں دھکیل دیا ہے ۔ جس دوران مصرکے جنرل السیسی اور ایران کے خلاف الائنس بنانے والا ایک اہم عرب ملک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کو عرب دنیا سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ۔ درحقیقت دنیائے عرب کی نئی نسل کو اپنے فلسطینی کزنز کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہے ۔ 
اس وقت مغربی کنارے کے بڑے حصے پر 600,000 یہودی آباد کار قابض ہیں۔ یہ وہ زمین ہے جس کے بارے میں کبھی فرض کیا گیا تھا کہ یہاں فلسطینیوںکی ریاست قائم کی جائے گی۔ تاہم اسرائیل نے بتدریج اپنے پائوں پھیلانے کی پالیسی جاری رکھی اور مغربی کنارے کے بڑے علاقے پر بستیاں تعمیر کرلیں۔ اُسی اداریے میں نیویارک ٹائمز لکھتا ہے ۔۔۔''ایک طویل عرصے سے مسٹر نتن یاھو فلسطینی ریاست کے لیے زبانی جمع خرچ کرتے رہے ہیں لیکن اب کسی کوبھی خوش گمانی باقی نہیں۔ اُنھوںنے حال ہی میں کہا ہے کہ اُن کی حکومت اسرائیلی تاریخ کی کسی بھی حکومت سے زیادہ نئی بستیوں کی تعمیر میں پرعزم ہے ۔ مسٹر نتن یاھو کے پارٹنر ، نفتالی بینٹ کا کہنا ہے کہ دوریاستوں کے قیام کا زمانہ لد چکا۔‘‘
تو اب کیا ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ اوباما اور جان کیری کے اقدمات غیر موثر ہیں، اور اُنہیں بہت دیر بھی ہوچکی ہے ۔ اب ٹرمپ عہدہ سنبھالنے والے ہیں، اور اُن کے ہوتے ہوئے دوریاستوںکے قیام کی امید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر صدر اوباما اُسی پالیسی کو جاری رکھتے جس کا آغاز اُنھوںنے دوسال پہلے کیا تھا تو اس وقت تک خاطر خواہ پیش رفت ہوچکی ہوتی ۔ اسرائیل کے دائیں بازو کے حلقے یہ حل تجویز کرتے سنائی دیتے ہیں کہ مصر غزہ کا کنٹرول سنبھال لے ، جبکہ مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں کو ووٹ دینے کے علاوہ کچھ دیگر حقوق حاصل ہوں گے ۔ چنانچہ منقسم ، تنہا اور بے یارومددگارفلسطینیوں کا اس روئے زمین پر کوئی پرسان ِحال نہیں ۔ آنے والے برسوں میں ان کے سامنے کوئی امید کی کرن ہویدا دکھائی نہیں دیتی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں