ا س ہفتے برطانیہ کے انتہائی بااثر ہفتہ وار جریدے، دی اکانومسٹ ، نے اپنے سرورق پر برطانوی وزیر ِاعظم کی تصویر لگائی اور ساتھ اُن کے نام میں تھوڑی سے تبدیلی کرتے ہوئے ''تھریسامے بی‘‘(Theresa Maybe) بنا دیا۔ اس کی ذیلی سرخی ہے ۔۔۔''قوت ِ فیصلہ سے محروم برطانیہ کی وزیر ِاعظم ‘‘۔ اب جبکہ ملک آرٹیکل 50 کے لیے ڈیڈلائن ،مارچ، کی طرف بڑھ رہا ہے ، برطانوی میڈیا میں ایسی سرخیاں نمایاں ہورہی ہیں۔ مذکورہ آرٹیکل یورپی یونین سے اخراج کے لیے مذکرات کے عمل کو شروع کرتا ہے ۔
دوسری طرف یورپی یونین میں برطانیہ کے مستقل نمائندے سر آیون راجرز کی جگہ سر ٹم بیرو کو تعینات کرنے کا عمل کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوا۔ جب گزشتہ ہفتے سرراجرز نے استعفیٰ دیا تو ان کی اپنے عہدے سے اس انداز سے رخصت کی وجہ سے ایک بحران منڈلاتا دکھائی دیا۔ ناقدین حکومت پر ایک تجربہ کار سفارت کار کو آرٹیکل 50 کے نفاذ سے صرف دوماہ قبل عہدے سے جبری طور پر ہٹانے کاالزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس اقدام کی وجہ سے برطانیہ کی بارگین کرنے کی پوزیشن کمزور ہوئی ۔ تاہم اس واقعے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مسٹر بیرو کو یورپی یونین میں اگلا سفارت کار نامزد کردیا گیا تو اس نامزدگی کو عمومی طور پر اچھے انداز میں دیکھا گیا۔یہ تنازع حکومت میں موجود اُن عناصر نے کھڑا کیا تھا کہ جو اُس خفیہ میمو کو منظر ِعام پر لے آئے جو مسٹر راجرز نے بریگزٹ کی ٹیم کے ایک سینئر رکن کو بھیجا تھا۔ اس میں ہونے والے مذکرات سے متعلق کچھ پیچیدگیوں کا ذکر تھا۔ نیز یہ اس خیال کابھی اظہار کیا گیا تھا کہ اس عمل کو مکمل ہونے میں دس سال کا عرصہ لگ سکتا ہے ۔ یہ میمو بریگزٹ کی حمایت کرنے والوں کوناگوار گزرا۔ بریگزٹ کے انہی حامیوں نے اُن جج صاحبان کو بھی ''غدار ‘‘ قرار دے ڈالا تھا جنہوں نے رائے دی تھی کہ بریگزٹ کا معاملہ پارلیمانی ووٹ کے ذریعے طے کیا جائے ۔
اپنے عہدے سے استعفا دینے کا دبائو محسوس کرتے ہی مسٹر راجرز نے دھماکہ کردیا۔ اُنھوںنے اپنے سٹاف کے نام ایک خط لکھتے ہوئے اُنہیں ''طاقت ور کے سامنے سچ بولنے ‘‘ کی تلقین کی ۔ دنیا بھر کے سرکاری ملازمین اور ان کے سیاسی آقائوں کے لیے اُن کے الوادعی الفاظ پڑھنا ضروری قراردیا جانا چاہیے ۔۔۔''مجھے امید ہے کہ آپ بے بنیاد اور بے سروپا خیالات کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دکھاتے رہیں گے ، اور آپ طاقتور کے سامنے سچ بولتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوں گے ۔ مجھے امید ہے کہ آپ دوسروں کے تصورات میں بھی دلچسپی لیں گے ، چاہے آپ ان سے اختلاف کیوں نہ رکھتے ہوں، اورآپ سمجھتے ہیںکہ دوسرے آپ سے مختلف کیوں اورکس طرح سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ عوام کے منتخب کردہ سیاست دانوں کو بہترین مشورہ دیں گے ۔ ‘‘
تھریسا مے پر دبائو تھا کہ وہ سرراجز کی جگہ کسی سرکاری افسر کی بجائے بریگزٹ کے پرزور حامی کو تعینات کریں۔ مسٹر بیرو کے پاس بھی یورپی یونین کے معاملات کا خاطر خواہ تجربہ ہے، لیکن اُنہیں جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعینات کرنے سے اُس گھبراہٹ کا اندازہ ہوتا ہے جس کا اظہار دی گارڈین کا ایک کارٹون کرتا ہے ۔ اس کارٹون میں یورپی یونین کے پرچم پر موجود اٹھائیس ستاروں والی جیکٹ پہنے رہائی کے لیے مذکرات کرنے والا ایک شخص یرغمال بنانے والے شخص سے پوچھتا ہے کہ اُس کے کیا مطالبات ہیں ، تو وہ مجرم جواب دیتا ہے ۔۔۔''میں فی الحال یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا ‘‘۔ اس ماہ تھریسا مے ایک اہم تقریر کرنے والی ہیں جس میں وہ اپنی حکومت کی بریگزٹ پر ممکنہ پوزیشن کے خدوخال بیان کریں گی ۔ اگرچہ اس کی تفاصیل پر قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ وہ تارکین ِوطن کی تعداد کو محدود کرنے کے اکثریت کے مطالبے پر قائم رہیں گی ۔ اس حوالے سے اُن کے تصورات کو اُن برسوں نے بھی ایک واضح شکل دی تھی جب وہ ہوم سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتی تھیں اور وہ تارکین ِوطن کی تعداد کم کرنے کے لیے کوشاں تھیں۔
گزشتہ جون میں جن باون فیصد نے بریگزٹ کے حق میں ووٹ دیا تھا، بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اصل مسئلہ ہی تارکین ِوطن کا ہے ۔ تاہم تارکین ِوطن کا آزادانہ داخلہ روکتے ہوئے تھریسامے یورپی یونین کی آزاد مارکیٹ کی رکنیت سے بھی محروم ہوجائیں گے جس کی وجہ سے سرحدوں سے آرپار کسی ٹیکس یا ڈیوٹی کے بغیر اشیائے تجارت گزرتی تھیں۔ چنانچہ لندن میں اپنا ہیڈکوارٹر رکھنے والے بنک بھی کسی اور طرف کا رخ کرسکتے ہیں۔ یہ تمام پیش رفت معیشت کو متاثر کرے گی ۔فی الحال برطانوی معیشت بہت بہتر جاری ہے ۔ سٹاک مارکیٹ کا گراف اوپر جارہا ہے ، صنعتی پیداوار کی برآمد میں اضافہ ہوچکا ، جبکہ سروس سیکٹربھی اچھی کارکردگی دکھارہا ہے ۔یہ دیکھتے ہوئے بریگزٹ کے حامی خوشی سے چلا رہے ہیں، جبکہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے لیے ووٹ دینے والے کنفیوژن کے مارے اپنا سرکھجلا رہے ہیں۔ بنک آف انگلینڈ جیسے اداروں ، جو بریگزٹ کی صورت آنے والی تباہی سے ڈرا رہے تھے ، کے لیے یہ وضاحت کرنا مشکل ہورہی ہے کہ اب برطانوی معیشت کیوں فروغ پارہی ہے ۔
اس کی ایک اہم وجہ تو پائونڈ کی قدر میں ہونے والی یکسر کمی ہے ۔ اس کی وجہ سے غیر ملکیوں کے لیے برطانوی اشیا کو درآمدکرنا آسان اور سودمند ہے اور چونکہ وہ ڈالروں میں ادائیگی کرتے ہیں تو برطانوی کمپنیوں کے پائونڈ میں نفع میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس طرح شیئرکی قدر بھی اوپر جارہی ہے ۔ پائونڈ کی قدر کم ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں سیاح بھی بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک بریگزٹ کے مضمرات سامنے آنا نہیں شروع ہوئے ۔ جب برطانوی درآمدکنندگا ن کو یورپ سے پرزے منگوانے کی ضرورت پڑے گی تو اُنہیں ڈیوٹی ادا کرنی ہوگی۔ اس سے اُن کی تیارشدہ اشیا کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ سے برطانیہ میں مہنگائی اور افراط زر کا سیلاب آنا شروع ہوجائے گا۔
تھریسا مے کو تارکین ِوطن سے ہٹ کر بہت سی دیگر وجوہ کوبھی مد ِ نظر رکھنا ہوگا۔ فی الحال اُن کی سوچ میں ابہام کا اظہار ملتا ہے کہ دراصل حکومت کے اہداف کیاہیں؟تاہم ایک بات واضح ہے کہ یورپی یونین کی اقوام برطانیہ کو اب کوئی سہولت نہیں دیں گی اور خدشہ ہے کہ گفتگو میں تلخی آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رکن ریاستیں محسوس کررہی ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے پر بھی اس سے ملنے والے فوائد کی توقع لگائے ہوئے ہے ۔چنانچہ وہ ڈیل کرتے ہوئے اپنے فائدے کو مقدم رکھے گا۔ درحقیقت ایک ایسی سیاست دان، جو خطرات مول لینے اور تخلیقی سوچ رکھنے کی صلاحیت سے تہی داماں ہیں ، کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔