ہارورڈ یونیورسٹی میں کیے جانے والے ایک حالیہ تجربے میں سائنسدانوںنے ایک تکنیک دریافت کی ہے جو نہ صرف بوڑھا ہونے کے عمل کو سست کر دیتی ہے بلکہ ایک بوڑھے کو دوبارہ جوان بھی بنا دیتی ہے ۔ فی الحال یہ تجربہ چوہوں پر کیا گیا ہے ، اور وہ زمانہ آنے میں ابھی بہت دیر باقی ہے جب میں وہ جینز پہنوں گا جو میں اپنی جوانی میں پہنا کرتا تھا۔ بہرحال جوانی کا سرچشمہ تلاش کرنے کی توقع بہت پرجوش ہے ۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کی قیادت کرنے والے سائنسدان ، رونالڈ ڈی پنہو(Ronald De Pinho) کا اس تجربے کے بارے میں کہنا تھا۔۔۔'' یہ بہت ہی بوڑھے جانور تھے ، لیکن ایک مہینے کے علاج کے بعد ان میں بحالی کے آثار نمایاں ہونے لگے ، حتیٰ کہ اُن کے دماغوں میں نئے نیورانز بھی بننا شروع ہوگئے ۔ جوانی کے دیگر ''آثار‘‘ ایک طرف، میں یہ نیورانز فوری طور پر حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پرانے قارئین مجھے سے ہمدردی رکھتے ہوں گے کیونکہ میں مسلسل نام یاد رکھنے کی جدوجہد میں رہتا ہوں۔ اکثر میری ملاقات ایسے افراد سے ہوتی ہے جنہیں میں کئی برسوںسے جانتا ہوں لیکن اُن کا نام یادداشت سے نکل جاتا ہے ۔
کمزور ہوتی ہوئی یادداشت کو بحال کرنے کے علاوہ میں دیر تک زندہ کیوں رہنا چاہوں گا؟ میں دراصل اس بات میں تجسس رکھتا ہوں اور جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کائنات کیسے کام کررہی ہے؟ خاص طور پر میرا تجسس اس میں ہے کہ کیا ہم کبھی ڈارک میٹر (dark matter) تلاش کرپائیں گے؟یہ پراسرار مادہ اس کائنات کا 84.5 فیصد حصہ ہے ، لیکن اس کے باوجود اسے براہ ِراست نہیں دیکھا جاسکتا۔ طبیعات کے ماہرین کاخیال ہے کہ یہ ایسے اجسام پر مشتمل ہے جو آپس میں بہت کمزور ربط رکھتا ہے ۔ کمزور روابط پر مشتمل نظر نہ آنے اور انسانی بصارت سے اوجھل یہ مادہ اس کائنات پر غالب ہے ۔ اس وقت ڈارک میٹر کی تلاش جنوبی ڈکوٹا (امریکی ریاست) کی ایک گہری کان میں کی جاری ہے ۔ یہاں نیوآن گیس کا ایک ٹینک اور خالص دستیاب پانی رکھا گیاہے ۔ ان کے درمیان کمزور ربط قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس عمل کے لیے یہ تنہائی ضروری تھی کیونکہ زمین کی سطح پر ہر لمحے اربوں ذرات کی بارش ہوتی رہتی ہے ۔
موجودہ کوشش کو ''ایل زیڈ تجربہ ‘‘ کا نام دیا دیا ہے ۔ اس تجربے کے دوران کوئی کمزور ربط نہ ملا تو ہوسکتا ہے کہ بہت دیر تک اس پر مزید کوئی تجربہ نہ ہوسکے ۔ اس کی ہمارے لیے کیا اہمیت ہے؟ ہم اس پر اتنی توجہ کیوں دیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ڈارک میٹر ہی کہکشائوں کو پھٹنے اور بکھرنے سے روکتا ہے ۔ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہ مادہ وجودرکھتا ہے ؟ اس کی موجودگی کا احساس اس کے کشش کے اثرات اور حرکت سے ہوتا ہے ۔ لیکن جب تک یہ کہکشائوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کررہا ہے تو ہمیں اسے دیکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے ؟اس ضرورت کا تعلق انسانی تجسس سے ہے ۔ انسان جاننا چاہتا ہے کہ کائنات کس طرح چل رہی ہے، اس کے نظام کی بنیاد کیا ہے ؟اسی تجسس نے سائنسدانوں کو ہگز بوسن ذرات دریافت کرنے کے لیے ابھارا۔چار عشروں اور کئی بلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد 2012 ء میں اس میں نمایاںپیش رفت ہوئی جب اس ذرے کو CERN Large Hadron Collider میں دیکھا گیا۔
ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات کی تحیر آمیز دنیا کے علاوہ مجھے اس میں بھی تجسس ہے کہ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کی تنصیب سے کیسے کیسے حیرت کدے انسانی آنکھوں پر آشکار ہوں گے ۔یہ غیر معمولی دوربین 2018 ء میں فعال ہوگی۔اس سے پہلے ہبل دوربین کا عدسہ2.4 میٹر تھا، اس دوربین کا عدسہ 6.5 میٹر ہوگا۔ توقع ہے کہ یہ کائنات کے دو ر کناروں پر موجودکہکشائوں کوبھی دیکھ سکے گی۔ یہ کہکشائیں Big Bang سے وجود میں آئی تھیں، اور یہ ذہن کو مائوف کردینے کی والی رفتار سے دور ہٹ رہی ہیں۔ اس سے پہلے ہبل دور بین نے دور دراز کے ستاروں اور کہکشائوں کے امیج دکھانے کے علاوہ انسانی معلومات کے دامن کو بے حد وسیع کردیاہے ۔ جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کائنات کے کناروں کاکھوج لگانے کے علاوہ ہمارے اپنے نظام ِ شمسی کے ارد گرد یگر سیاروں کو بھی تلاش کرے گی۔
اس کے علاوہ مریض اور چاند پر انسانی بستیاں بسانے کا بھی توقع کی جارہی ہے ۔ ان منصوبوں میں نجی شعبہ بھی شامل ہوچکا ہے ۔ جدید راکٹ، جو دوبارہ استعمال کیے جاسکیں، بنانے کے لیے تجربات جاری ہیں۔ہوسکتا ہے کہ مریخ پر ہماری زندگیوں میں کالونی نہ بن سکے لیکن سرخ سیارے پر رہنے کا تصور بہت دل خوش کن ہے ۔ چین بھی چاند پر ایک گاڑی بھیجنے کا پروگرام رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ایک خلا باز کو بھی بھیجا جائے گا۔ انڈیا نے مریخ کے مدار میں راکٹ بھیج دیا ہے ۔ یورپ اور جاپان بھی خلائی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان عقربی معاملات کے بعد جب میں موجودہ حالات پر نظر ڈالتا ہوںتو مجھے سیاست کا کھیل بے کیف لگنے لگتا ہے ۔ فی الحال میں ہارورڈ کی ٹیم کی کامیابی کے لیے دعاگوہوں تاکہ کائنات کے دیگر اسرار بے نقاب ہوتے ہوئے بھی دیکھ سکوں۔