کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن آئے گا جب ہم جارج ڈبلیو بش کی صدارت کو گزرے ہوئے اچھے دنوں کے طور پر یاد کریں گے ؟ اگرچہ مسٹر بش ہٹ دھرم اور لاعلم تھے لیکن کم از کم اُن کے بارے میں اندازہ لگانا آسان تھا۔ ہم یہ جانتے ہوئے تیار رہتے کہ اب وہ کیا کرنے جارہے ہیں۔ اُن کے بعد ہم نے پرسکون اور جچے تلے انداز میں کام کرنے والے اوباما کو دیکھا ۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں، آپ جانتے تھے کہ صدر اوباما کی طرف سے جوبھی فیصلہ آئے گا، بہت فہم و تدبر اور حالات و واقعات کے تجزیے کے بعد کیا گیا ہوگا۔
تاہم یہ سب کچھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اُن کی پالیسی سازی ٹویٹر پر ہوتی ہے۔ ہلکی سی حقیقی یا فرضی تنقید پر بھڑ ک اٹھنے والے صدر کی موجودگی میں دنیا اور ''نیکی اور بدی کی آخری جنگ‘‘ کے درمیان ایک ٹویٹ بھر کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ جب فلپائن کے صدر ڈیٹریٹ (Duterte) نے صدر اوباما کو ایک بیہودہ نام سے پکارا تو امریکہ کے باوقار اور سنجیدہ طبیعت کے صدر نے جواباً کہا۔۔۔ ''فلپائنی صدر ایک 'دل خوش کن لڑکے‘ ہیں‘‘۔ اگر ڈیٹریٹ نے یہی بات ٹرمپ کے بارے میں کہی ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر منیلا کی فضائوں میں بی باون طیارے منڈلارہے ہوتے ۔
درحقیقت اگر مجھے کہا جائے کہ دنیاکی کون سی شخصیت بارک اوباما کے برعکس ہے تو میں شاید ڈونلڈ ٹرمپ کانام نہ لے پاتا۔ تاہم آج مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ ٹرمپ اور اوباما جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی طور پر ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ جسمانی طور پر ٹرمپ فربہ اندام، تنومند اور سرخ وسفید ہیں، جب کہ اوباما سمارٹ اور پروقار سانولی رنگت رکھتے ہیں۔ اوباما سوچ بچارکرنے اور جچے تلے انداز میں پوری توجہ سے کام کرنے کے عادی تھے ، لیکن ٹرمپ بات بات پر بھڑک اٹھنے والے تنک مزاج شخص ہیں۔ اس کے علاوہ اوباما مطالعہ کرنے کی عادت رکھتے تھے، لیکن میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ نے گزشتہ کئی برسوںسے کسی کتاب کو ہاتھ تک لگایا ہو۔ اپنے مسخرہ پن اور عجیب و غریب بیانات کی وجہ سے ٹرمپ کارٹونسٹوں اور طنزو مزاح لکھنے والوں کے لیے ایک'' آسمانی نعمت‘‘ تو ہیں لیکن انا پرست ہونے کی وجہ سے اُنہیں ٹرمپ کی طرف سے جوابی حملے کے لیے تیار رہناہوگا۔ وہ پہلے ہی میڈیا کے لیے ناروا الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اُن کے خلاف ہوچکا ہے ۔
بے شک ان کے دور حکومت کے پہلے ہفتے کے امریکہ پر برے اثرات دیکھنے میں آئے اور باقی دنیا کے لیے بھی یہ آنے والے وقت کا اشارہ تھا۔سات ممالک سے مسلمانوں کی امریکہ آمدپر پابندی سے لے کر ممکنہ طور پر سی آئی اے کی بلیک سائیٹس کو دوبارہ کھولنے اور اذیت ناک صورتحال کو دوبارہ متعارف کروانے تک کے احکامات نے ٹرمپ کی صدارت کی ٹون کا اظہار کردیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات اقوام متحدہ اور نیٹو جیسے کثیر جہتی اداروں میں امریکی رکنیت کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہے۔اپنی الیکشن مہم کے دوران وہ مسلسل ان اداروں کی تحقیر کرتے اور یہ کہتے آئے ہیں کہ صدر بننے کی صورت میں ان سے امریکہ کی رکنیت ختم کروا دیں گے۔
اب وائٹ ہاوس میںان کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والی بنیاد وں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ۔ ان بنیادوں نے اپنی کمزوریوں کے باوجود دنیاکو بدل کر رکھ دیا ہے۔ٹرمپ کی غیر ملکی طاقتوں کو دی جانے والی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں سے ایران اور چین کو دی جانے والی دھمکیاں پورے خطے کو غیر مستحکم کرسکتی ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کیے جانے والی ایٹمی معاہدے کے پرخچے اڑانے کی دھمکی دے رکھی ہے حالانکہ جرمنی اور سکیورٹی کونسل کے کئی ممبر ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔لیکن ٹرمپ کے وائٹ ہاوس میں اسرائیل کے مضبوط اثرورسوخ کے باعث معاہدے کے منسوخ اور جنگ کی صورتحال پیدا ہونے کے کافی امکانات ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات میں تیزی سے بگاڑپیدا ہونا اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔چین پر کرنسی میں خرد برد کر کے امریکہ کوجانے والی برآمدات میں اضافے کا الزام لگا کر ٹرمپ نے چین کی درآمدات پر ڈیوٹی لگا دینے کی دھمکی دی ہے۔اور اگر اس سے کام نہ چلا تو ٹرمپ کی سکیورٹی ٹیم چین سے جنوبی چین کے سمندر بارے تنازع میںمداخلت کرنے کا سوچ رہی ہے۔اس کا نتیجہ ٹکرائوکی صورت میں نکلے گا جو قابو سے باہر ہو گا۔
مشرق وسطی میں ہم دو ریاستوں کے قیام پر مبنی حل اور امن کے پورے عمل کی رسمی تدفین دیکھ رہے ہیں۔اوباما نے اپنی بے عملی سے سے ہمیںمایوس ضرور کیا لیکن کم از کم انہوں نے جان کیری کے ساتھ اس کے لیے آواز تو بلند کی ۔اب ہم ٹرمپ کے یہودی داماد کے اثرورسوخ کی وجہ سے اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کو تسلیم کیے جانے کے عمل کو دیکھیں گے ۔ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے فلسطینی مشتعل ہوجائیںگے ۔ اس کی وجہ سے تشدد میں اضافہ ہوگا۔ حتیٰ کہ امریکی اتحادی، جیسا کہ اردن، مصر اور سعودی عرب ، جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط ہیں، بھی کوئی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ نیٹو اور اجتماعی سکیورٹی کے مسئلے پر ٹرمپ کے بہت سے اعلانات نے یورپ کو بھی نروس کردیا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ اتحادی امریکی دفاعی چھتری تلے آنے کی کیش ادائیگی کریں۔ اُنھوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا اپنے تحفظ کے لیے ایٹمی ہتھیار حاصل کرلیں۔ یہ موقف امریکہ کی ایٹمی عدم پھیلائو کی پالیسی کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ اس نے امریکی ہاکس کو بھی پریشان کردیا ہے ۔ ٹرمپ کی فائرنگ رینج میں آنے والے ممالک میں مجھے میکسیکو پر ترس آرہا ہے ۔ وہ امریکہ کااتحادی اور تجارتی شراکت دار رہاہے ، لیکن اب امریکہ اس کے ساتھ دھونس دھمکی والا رویہ اپنا رہا ہے ۔ اگرچہ میکسیکو کے صدر کی ٹرمپ سے ملاقات متوقع تھی، لیکن اُن کی طرف سے یہ بیان آنے پر ملاقات منسوخ کردی گئی کہ میکسیکو دیوار بنانے کے لیے اپنے حصے کی رقم ادا نہیں کرے گا۔ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان دیوار کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔
اس طرح ٹرمپ کی سفارتی کاری کا بیانیہ سامنے آگیا ہے کہ جب تک کوئی غیر ملکی لیڈر ٹرمپ کے موقف سے اتفاق نہیں کرتا، وہ امریکہ آنے کی زحمت نہ کرے ۔ چونکہ ٹرمپ اپنے باس خود ہی ہیں، گویا وہ کسی کا مشورہ قبول نہیں کریںگے ، اورستم یہ ہے کہ اُنہیں نہ سیاست کا تجربہ اور نہ سفارت کاری کا۔ اُن کا رویہ یہی ہے۔۔۔ ''میرا راستہ اختیار کرو، یا اپنا راستہ ناپو۔‘‘