جب کوئی تسلیم کرتا ہے ، یا بہت فخر سے کہتا ہے ، جیسا کہ ٹرمپ کا کہنا ہے ، کہ اُس کے پاس کوئی کتاب پڑھنے کا وقت نہیں تو انسان حیرانی کے عالم میں سوچتا ہے کہ وہ شخص اپنے مخصوص میدان سے ہٹ کر بیرونی دنیا کے بارے میں کتنا کچھ جانتاہوگا۔ جب کئی ایک میڈیا رپورٹس نے موجودہ امریکی صدر پر الزام عائد کیا کہ اُنھوںنے آسٹریلوی وزیر ِاعظم کی توہین کی ہے تو بیرونی دنیا نے اس بات پر فوراً ہی یقین کرلیا کہ ٹرمپ نے فون کال کے دوران ویسا ہی لب ولہجہ اپنا یاہوگا جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ ہوا ۔ اگرچہ اُنھوںنے اس بات کی تردید کی کہ اُنھوںنے توہین آمیز طریقے سے ایک ملک کے وزیر ِاعظم کی کال منقطع کردی تھی ، لیکن ہم نے اسے تاخیر سے چلی جانے والی سفارتی چال سے تعبیر کیا ۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے موجودہ تاریخ پڑھی ہوتی تو وہ جانتے کہ آسٹریلیا اُن کے ملک کے پرانے اتحادیوں میں سے ایک ہے ۔ اس نے دونوں عالمی جنگوں میں یورپ میں لڑنے کے لیے فوجی دستے بھیجے۔ اس کے علاوہ کوریا، ویت نام، افغانستان، عراق اور شام میں بھی اسٹریلوی دستوں نے فرائض سرانجام دیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی ہنگامہ خیز دنوں میں جب وائٹ ہائو س سے بہت سی عجیب وغریب کہانیاں سامنے آرہی ہیںتو حالیہ واقعے پر‘ جس میں آسٹریلوی وزیر ِاعظم سے ناروا رویے کا مظاہرہ کیا گیا، یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے میکسیکو کے صدر سے کہا کہ وہ میکسیکو میں منشیات کے مافیاز کو نکیل ڈالنے کے لیے امریکی فوجی دستے اتارسکتے ہیں۔ عام فہم زبان میں یہ کارروائی جارحیت کہلاتی ہے۔ اس کے لیے ناگزیر حالات میں یواین کا کور حاصل کیا جاسکتا ہے ، لیکن ٹرمپ قانونی طریقہ اختیار کرنے کی الجھن میں پڑنے والے نہیں ہیں۔ ایران نے بھی حالیہ دنوں میزائل ٹیسٹ کرتے ہوئے نئی امریکی انتظامیہ کو ناراض کردیا ۔ اگرچہ میزائل یا دیگر ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے کوئی یواین قرارداد نہیں روکتی لیکن ٹرمپ نے وقت ضائع کیے بغیر ایران پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔ اس اشتعال انگیز اقدام نے ملک کے دائیں بازو کے عناصر کے سخت گیر موقف کو تقویت دی ہے ۔ یاد رہے ، اس سال کے اختتام پر ایران میں صدارتی انتخابات بھی ہونے جارہے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور ان کی نئی ٹیم دیگر ممالک کی داخلی سیاست کے نازک امور کو نہیں سمجھتیں۔ مزید براں، ایسی پابندیوں کا موثر ہونا بھی مشکوک ہے کیونکہ انہیںیورپی یونین یا اقوام ِ متحدہ کی منظور ی حاصل نہیں۔
تاہم ٹرمپ کی طرف سے تاحال کیا جانے والا سب سے بڑا نقصان یورپی یونین کے لیے توہین آمیز بیان دینا ہے ۔ اُنھوں نے اسے ''وہیکل فار جرمنی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دیگر ریاستیں بھی جلدہی برطانیہ کی طرح اس اتحاد سے نکل جائیںگی ۔ تھریسا مے کے حالیہ واشنگٹن دورے کے دوران ٹرمپ نے بریگزٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کا یورپی سے یونین سے اخراج دیگر ریاستوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ یورپ کے معاملات میں اس طرح کی دخل اندازی پر یورپی یونین کے رہنمائوںنے گزشتہ ہفتے مالٹا میں ہونے والی میٹنگ کے دوران تشویش کا اظہار کیا۔ نئی امریکی ٹیم نے جرمنی پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ کو کی جانے والی درآمدات بڑھانے کے لیے اپنی کرنسی میں ردوبدل کررہا ہے ۔ ٹرمپ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ نیویارک میں چلنے والی مرسڈیز کاروں کے مقابلے میں کتنی شیورلیٹ کاریں برلن میں چل رہی ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ میں فروخت ہونے والی جرمنی کی کاریں اس سے کہیں زیادہ ہیں جتنی امریکی کاریں جرمنی میں فروخت ہوتی ہیں۔
جب مس مے نے پیش کش کی کہ وہ امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں تو ٹرمپ نے طنزیہ لہجہ میں یہ پیش کش مسترد کرتے ہوئے کہا ۔۔۔''میرا نہیںخیال کہ ہمیں کسی پل کی ضرورت ہے ۔ ہم امریکیوں سے ٹویٹر کے ذریعے مخاطب ہوتے ہیں۔‘‘جرمنی نے لاکھوں مسلمان مہاجرین کو پناہ دی ہے ، اس لیے آسٹریا کے چانسلر کرسٹن کرن(Christian Kern) نے صدر ٹرمپ پر بھی زور دیا کہ وہ بھی اپنے حصے کے لیے مہاجرین کو پناہ دیں ۔ مسٹر کرن نے دلیل کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا۔۔۔''چونکہ امریکہ کی مشرق ِوسطیٰ میںمداخلت کی پالیسی کی وجہ سے مہاجرین کا بحران پیدا ہو ا ، اس لیے یہ مہاجرین کو پناہ فراہم کرنا بھی امریکہ کی ہی ذمہ داری ہے ۔ ‘‘ذمہ دار ی محسوس کرنا تو درکنار، ٹرمپ نے سات مسلمان ریاستوں کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی عائد کردی ہے ۔
چونکہ ٹرمپ نے بہت قلیل مدت میں اپنے بہت سے اتحادیوں کو ہلاکررکھ دیا اور باقی دنیا کوخوفزدہ کردیاتو عقل حیران ہے کہ ان جارحانہ الفاظ اور دھمکیوں کے بعد مسلح کارروائی کرنے میں کتنی دیر لگے گی؟ایران اور چین ، دونوں ایک فلیش پوائنٹ ہیں۔ اس کے علاوہ یوکرائن میں شروع ہونے والی نئی جھڑپیں بھی ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان رومانس کو بہت جلد پٹری سے اتار سکتی ہیں۔ اس سے پہلے صدر اوباما نے امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے باہر نکالنے کی کوشش اور مشرق ِوسطیٰ میں الجھن سے گریز کیا ،لیکن ٹرمپ سینہ تان کر جارحانہ پن پر آمادہ ہیں۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ ٹرمپ جارحانہ ٹویٹ پہلے کردیتے ہیں اور سوچنے اور تجزیہ کرنے کا کام بعد میں کرتے ہیں، وہ بھی اگر اس کی ضرورت محسوس ہو۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی دنیا کو لرزہ براندام کردینے کے باوجود ٹرمپ کو اپنے عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر امریکی بھی دنیا کے معاملات سے اپنے صدر کی طرح ہی بے خبر ہیں۔ یہ ایک خطرناک بات ہے ، کیونکہ ٹرمپ سوچے سمجھے بغیر غیر ملکی مہم جوئی میں کو د سکتے ہیںتاکہ داخلی معاشی اور سماجی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے ۔ چنانچہ ان حالات میں کسی کمزور حریف کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے لبرل اپوزیشن کی زبان بند بھی کی جاسکتی ہے ۔
اس قیاس آرائی کے ساتھ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک اہم عالمی رستخیز کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ اور پیوٹن ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بلندوبانگ دعووں کی پاسداری کریں تو یورپی یونین پر بھی بے پناہ دبائو پڑے گا کہ وہ بھی یہی راہ اختیار کریں۔ اگرچہ یورپی یونین دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بلاک ہے ، لیکن وہ انفرادی طور پر عسکری اعتبار سے کمزور ریاستیں ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دعووں اور وعدوں کے باوجود یورپی اقوام نے اپنی عسکری استعداد کو نہیں بڑھایا ہے ۔ اُنہیں یقین تھا کہ نیٹو اُن کے دفاع کے لیے کافی ہے ۔ تاہم اس الائنس میں غالب کردار امریکہ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی اقوام روس کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریزاں ہیں۔ تاہم اب یورپی ڈیفنس منسٹر ز کو مستقبل میں سامنے آنے والے خطرات کی صورت غیر یقینی پن کا سامنا ہے ۔
اگرچہ تاریخی طور پر مارکسی نظریہ تھا کہ معاشی عوامل ہی انسان کی قسمت کا تعین کرتے ہیں، لیکن گزشتہ صدی کے دوران سامنے آنے والی عظیم شخصیات، جیسا کہ گاندھی، مائو، سٹالن اور چرچل کی کارکردگی نے ثابت کردیا کہ افراد بھی انسانی قسمت کو اپنی ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ کہ ٹرمپ کے ہاتھوں دنیا کا کیا حشرہوتا ہے ۔