میرے دشمن کا دشمن

پاکستان کے تینوں اہم اتحادیوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش میلوں کی بجائے نظریات کے پیمانے میں کی جائے تو معاملات زیادہ واضح ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر اتنے مختلف تصورات رکھنے والی شاید ہی کوئی تین ریاستیں ہوں جیسا کہ امریکہ ، چین اور سعودی عرب ہیں۔ تاہم ان کی پالیسیوں میں ایک مشترکہ عنصر ان کی پاکستان کو ایک فعال ریاست کے طور پر زندہ رکھنا ہے؛ اگر چہ پاکستان ان کی بہترین کوششوں کو ناکام بنانے پر تلا رہتا ہے ۔ 
اسلام آبادکے نکتہ ٔ نظر سے ان تینوں اہم شراکت داریوں کی نوعیت مالی مفاد پر مبنی ہے کیونکہ ان کے درمیان کوئی ثقافتی، تاریخی اور نسلی روابط موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب مذہبی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ایک اور بات یہ کہ قومی مفاد پر مبنی الائنسز مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتے تاوقتیکہ ان ریاستوں کے درمیان مشترکہ اقدار کا رشتہ قائم ہو۔ امریکہ، برطانیہ ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو سکیورٹی حلقوں میں ''پانچ آنکھیں‘‘ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ حساس انٹیلی جنس جو دیگر اتحادیوں کے علم میں نہیں لائی جاتی، یہ پانچ ریاستیں آپس میں شیئر کرتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان کسی بھی مخاصمت یا رقابت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 
امریکہ نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کی اور اس سے کہیں زیادہ مالی امداد چین اور سعودی عرب مل کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، امریکہ نے پاکستان کو کئی ٹریلین ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے، لیکن اس وقت اس کا دیگر دونوں اتحادیوں کی نسبت پاکستان پر اثر کم ہوچکا ہے ۔ اس کی وجہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو جدید ہتھیاروں کے لیے واشنگٹن پر انحصار رکھنے کے باوجود کئی حوالوں سے اس پر شک کرتی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن نے ہمیشہ سے ہی ہمارے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہمارے ہاں ماضی میں لگنے والے مارشل لاز پر بھی اعتراض کیا، نیز ہمارے ہاں رو ا رکھے جانے والے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ پربھی تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ آخر میں، وہ پاکستان پر انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے ''ڈومور‘‘ کا دبائو ڈالتا رہتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ہم ان سانپوں سے اپنی سرزمین میں خاتمہ کریں کیونکہ اس کا ہمیں ہی نقصان ہے۔ 
دوسرے جانب چین اور سعودی عرب میں نظام حکومت مغربی جمہوریتوں کی طرح کا نہیں ہے اور ان پر انسانی حقوق کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں (سعودی عرب اور چین کو) ہماری جمہوری اقدار کی خلاف ورزیوں پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ممالک کی معاونت ہمارے عوام کے لیے امریکی شرائط کی طرح سخت نہیں ہوتی ۔ پاکستان چین کے ساتھ فولاد سے مضبوط اور ہمالیہ سے زیادہ بلند تعلقات کے نغمے ہمیشہ گائے جاتے ہیں، اس کے باوجود کہ چین ایک لامذہب ریاست ہے ‘کہا جاتا ہے اس میں موجود مسلم اقلیتیں پوری طرح آزاد نہیں۔ مغربی چین کے مسلمانوں کے کئی مذہبی رسوم ادا کرنے پر پابندی ہے۔ بس ایک پرانی کہاوت ہے جو پاکستان اور چین کے رشتے کو جوڑے رکھتی ہے کہ میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے۔ چین کو پاکستان کی مضبوط دفاعی صلاحیت کا فائدہ ہے کہ بھارت کو بیک وقت دو سرحدوں پر حفاظتی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ چین کو پاکستان کے ذریعے بحیرہ عرب تک آسان رسائی گوادر پورٹ کی صورت حاصل ہے۔
سعودی عرب کے مفادات پاکستان میں زیادہ تر دفاعی ضروریات کے لیے ہیں۔کئی سو بلین ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کرنے کے باوجود اس کو جنگ کے لیے تربیت یافتہ فوج میسر نہیں، لہٰذا پاکستانی فوج سے تربیت لینا سعودی عرب کے مقاصد میںشامل ہے۔ امریکہ کی جانب سے حفاظتی چھتری اٹھ جانے کے بعد وہ پاکستانی فوج کو اپنے آخری سہارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارے ایٹمی ہتھیار بھی ان کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ہماری اہم جغرافیائی حدود کے سبب سالوں سے واشنگٹن نے کئی بلین ڈالر ہمیں معاشی اور دفاعی امداد کے طور پر دیے ہیں۔ متوقع طور پر پاکستانی حکمرانوں نے اپنے ملک کی جغرافیائی حدود کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔کئی لوگ پاکستان کی ابتدائی قیادت کو امریکی اتحاد میں ملک کو گھسیٹنے کا الزام دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو بھلا دیتے ہیں کہ اس وقت ہم بھارتی فوج کے اسلحے کے انبار کے سامنے انتہائی مایوس کن صورت حال کا شکار تھے۔ سوویت یونین دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے بعد اسلحہ فراہم کرنے سے قاصر تھا۔ کوریا کی جنگ کے خاتمے پر امریکہ نے پاکستان کو بے شمار اسلحہ فراہم کیا اور اس کے فوراً بعد ہم نے بغداد معاہدے ( جسے بعد میں سینٹو کا نام دیا گیا) اور سیٹو (جنوب مشرقی ایشیائی اتحاد) میں شمولیت اختیار کی۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ تک ہمیں امریکہ سے اسلحہ کی فراہمی جاری رہی۔ جب وہ اسلحہ جو ہمیں کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیا جاتا تھا بھارت کے خلاف استعمال ہوا تو امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو امداد کا دوسرا سلسلہ شروع ہوا جو روسی فوج کے پیچھے ہٹتے ہی اختتام پذیر ہو گیا اور ہم اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے دوبارہ عتاب کا شکار ہوگئے۔ پاک امریکہ تعلقات کی اگلی کہانی نائن الیون کا بعد شروع ہوتی ہے۔اب جبکہ ٹرمپ حکومت سنبھال چکے ہیں تو ان کے اتحادیوں کے بارے میں جذبات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی مشکل ہے۔ تاہم ان کے بیانات کے مطابق وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور چین کے بارے میں سخت موقف اپنانے کے خواہش مند ہیں۔
چین پاکستان کے ساتھ سی پیک کے ذریعے معاشی تعلقات گہرے اور مضبوط بنا رہا ہے جو اس کے حق میں اچھے ثابت ہوں گے۔ امید ہے کہ بیجنگ اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے جنرلز پر دبائو ڈالے گا کہ وہ ان انتہا پسندوں کو لگام دیں جنہیں مبینہ طور پر کئی سال سے سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ واشنگٹن کی اس سلسلے میں کی گئی اب تک کی کوششوں سے زیادہ کامیاب کوشش ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں