مشرقی بحرِ قلزم میں ایک متنازع جزیرہ ، سائپرس9000 قبل ازمسیح سے آباد ہے ۔ اس کی خوبصورتی اور موجودہ تاریخ بہت حد تک کشمیر سے مطابقت رکھتی ہے ۔ دونوں پر تاریخ کا بوجھ موجود، اوردونوں پر طاقتور ہمسایوں کی مرضی چلتی ہے ۔ سائپرس ہیٹی سلطنت (Hittite Empire) کا حصہ تھاجسے چوتھی صدی قبل ازمسیح میں سکندر ِ اعظم نے فتح کیا۔ اس کے بعد اسے Ptolemaic Egypt میں شامل کرلیاگیا۔ اس طرح یہ جزیرہ رومن سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد اسلامی دور میں اس پر مسلمان سپاہ نے قبضہ کرلیا اوراس طرح یہ تین صدیوں، (643-966) تک اسلامی خلافت کا حصہ رہا۔
حکمرانوں کی متعدد تبدیلیوں کے باوجود سائپرس کو ایک یونانی جزیرہ ہی سمجھا جاتا ہے ، اور اس کے روابط یونان سے بہت مضبوط ہیں۔ اگرچہ یہ ترکی کی عثمانی سلطنت کا بھی حصہ رہا لیکن آج بھی اس کی 78 فیصد آبادی یونانی ہے ۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد صرف 18 فیصد ہے ۔ ترکی نے پہلی جنگ ِ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا اور اس کی شکست کے بعد سائپرس پر برطانیہ نے قبضہ کرکے اسے کرائون کالونی قرار دے دیا۔ اس کے یونان ،جو کہ اس کی روحانی سرزمین ہے ، کے ساتھ الحاق کے لیے ڈالے جانے والے دبائو نے پر تشدد شکل اختیار کرلی ۔ برطانوی فورس نے اسے سختی سے دبادیا، لیکن یہ آگ اندر ہی اندر سلگتی رہی ۔
اس تحریک کے رد ِعمل میں ترک آباد ی نے بھی سخت موقف اپنا لیااور یونان کے ساتھ الحاق کی مخالفت شروع کردی۔ اس کے نتیجے میں نسلی اور مذہبی بنیاد پر تنائو بڑھ گیا اور 1963 ء میں اس نے تمام جزیرے پر ایک خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی۔ دونوں قومیتوں کے درمیان دشمنی کی فضا گہری ہوگئی ۔ جب جولائی 1974 ء میں سائپرس اور یونان کے درمیان الحاق کا معاہدہ ہواتو ترک حکومت نے جزیرے پر فوج کشی کرتے ہوئے اس کے ایک تہائی حصہ پر قبضہ کرلیا ۔تمام تر تنقید کے باوجود ترکی نے ٹرکش ری پبلک آف نارتھ سائپرس کو تسلیم کرلیا۔ پاکستان نے ترکی کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کرتے ہوئے اسے نہ صرف تسلیم کرلیا بلکہ ٹرکش ری پبلک آف نارتھ سائپرس کو اسلام آباد میں اپنا سفارت خانہ بھی قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے علاوہ کسی اور ملک نے اسے تسلیم نہ کیا۔
اُس وقت سے لے کر اب تک جزیرے کومتحد کرنے کی بہت سی کوششیں ہوچکی ہیں۔جس دوران یونانی حصہ میں سائپرس ، جو کہ ری پبلک آف سائپرس کہلاتا ہے، نے معاشی طور پر ترقی کی اور وہ یورپی یونین کا حصہ بن گیا ، لیکن ترکی کے قبضے میں جزیرہ معاشی طور پر پسماندہ ہے ، اور وہاں سیاحوں کے لیے کوئی کشش نہیں۔ نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اس میں کوئی دلچسپی ہے ۔ سائپرس بہت دیر سے ترکی کے پائوں میں چبھے ہوئے کانٹے کی طرح ایک پریشان کن مسئلہ رہا ہے کیونکہ اس نے اس ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے دی جانے والی درخواست کی بھرپور مخالفت کی ہے ۔ ترکی یونانی سائپرس کے جہازوں کو اپنے بندرگاہوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، اور ایسا کرنا یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔
نفرت بھری تاریخ کے باوجود اب دونوں حصوں کے الحاق کی بات ہورہی ہے ۔ اب دونوں حصوں کو احساس ہوچکا ہے کہ اختلافات سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا، چنانچہ بہتر ہے کہ سائپرس کے دونوں حصوں کا الحاق کردیا جائے ۔ اس سلسلے میں ''ضامن طاقتوں‘‘ ، برطانیہ، ترکی اور یونان کی ملاقات اگلے ماہ جنیوا میں متوقع ہے ۔ تاہم تمام شرکا طیب اردوان کی آخری لمحے الحاق کی کوشش کو تارپیڈو کرنے کی صلاحیت سے پریشان ہیں۔ مسٹر اردوان انتہائی قوم پرست ہیں اور اُنہیں یونان پر کسی طو ر اعتماد نہیں۔ چنانچہ اُن کی طرف سے کسی سخت رد ِعمل کا خطرہ خارج ازامکان نہیں۔ درحقیقت اُن کی ایتھنز کے لیے دشمنی مزید بڑھ چکی ہوگی کیونکہ گزشتہ سال ترک حکومت کے خلاف ناکام شب خون کے بعد کچھ ترک افسران اردوان حکومت کے عتاب سے بچنے کے لیے یونان چلے گئے تھے ۔ یونان کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ اُنہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جائے گا۔ چنانچہ دونوں ہمسایوں کے درمیان تنائو بہت شدید ہے ۔ حال ہی میں دونوں ممالک کی گن بوٹس کے تصادم کی بھی نوبت آئی ہے ۔
جب میں 1960ء کی دہائی میں ترکی میں ایک طالب علم تھا تو سائپرس کی ترک آبادی کے حق میں اکثر مظاہرے ہوتے تھے ، لیکن اب ترکی میں یہ جذبات سرد ہوچکے ہیں۔ اسی طرح جذباتی نعرے بھی قصۂ پارینہ دکھائی دیتے ہیں۔ یورپ کے لیے سائپرس کا دارالحکومت ، نکوسیا (Nicosia) صرف وہی واحد شہر ہے جو ابھی تک دولخت ہے ۔ یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اسے اکٹھا کرنے کے لیے بہت کوشش کی ہے ۔ اس ضمن میں کچھ پیش رفت بھی دکھائی دی ، اور اختلافات کی حدت کم کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن اب ایک دوسرے سے رابطہ رکھے بغیر ایک نسل پروان چڑھ چکی ہے ۔ اُن کے لیے وہی ایک ریاست ہے جسے وہ جانتے ہیں۔اگر دونوں حصوں کے درمیان کھینچی جانے والی سبز لکیر مٹ گئی تو یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وہ ایک دوسرے سے کس طرح روابط قائم کرتے ہیں۔ کیا وہ ماضی کے تعصبات کو بھلا کر آگے بڑھ پائیں گے یا ایک دوسرے کو معاف کردیں گے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنھوںنے ایک دوسرے کو معاف بھی کرنا ہے اور ماضی کو بھلانا بھی ہے ۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہونے والی خانہ جنگی میں طرفین کے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ ایک بڑے پیمانے پر نسلی کشی بھی ہوئی تھی ۔
سائپرس اور کشمیر کی تقسیم کے درمیان ایک اہم فرق یہ ہے کہ اگرچہ سائپرس کو اکٹھا کرنے کے لیے دنیا سرگرم ِ عمل ہے ، لیکن کشمیر کوبہت تک سردخانے میں ڈال دیا گیا ہے ۔ اگر اس طرف عالمی طاقتیں کبھی توجہ کرتی بھی ہیں تو صرف اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا، دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اور دونوں کشمیر پر متعدد جنگیں لڑچکے ہیں۔ دوسری طرف سائپرس کے معاملے پرکو ئی بھی دونیٹو ارکان کو آپس میں لڑتے نہیں دیکھنا چاہتا۔ امید کی جانی چاہیے کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے اور دونوں حصے مل جائیں گے ۔ وہ ایک پرجوش لمحہ ہوگا۔ دنیا سے جنگ اور تنائو کا ایک اور مقام پرسکون ہوجائے گا۔ تاہم افسوس ، دیگر بہت سے مقامات ہنوز سلگ رہے ہیں۔