انشاء اللہ خان انشاؔ کا شعر ہے؎
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھا لی سَن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
پتہ نہیں مولوی مدن، کوئی حقیقی کردار تھا یا نہیں، لیکن شعر کا دوسرا مصرع، ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ مفہوم ہے‘ کسی کا ایسے درجۂ کمال کو پہنچ جانا جس تک کسی دوسرے کی رسائی ممکن نہ ہو۔ یہ مصرع مجھے حضرت مولانا حافظ طاہر محمود اشرفی کے اس فقیدالمثال تبصرے سے یاد آیا کہ ''کچھ تاخیر تو ضرور ہوئی لیکن بیس سال بعد ہم نے عوام کو ایک ہی دن عید کا تحفہ دیا ہے‘‘۔ عید کے حوالے سے اٹھنے والے تلاطم اور حکومتی سبکی کو حضرت نے آن واحد میں، حکومت کے سر پر تقاخر کی سنہری کلغی کی طرح سجا دیا ہے۔ سبحان اللہ۔
پاکستان کے خوش بخت عوام، آج کل ایک عہدِ تبدیلی میں جی رہے ہیں۔ برسوں کی بیزار کن یکسانیت میں نیا پن آ رہا ہے۔ بات اس وقت عید اور چاند کی ہو رہی ہے۔ اس ضمن میں پہلا انقلابی اقدام تو یہ ہوا کہ یکایک مفتی منیب الرحمن کو چیئرمین رویت ہلال کمیٹی کے منصب سے معزول کر دیا گیا۔ وہ لگ بھگ بائیس برس اس عہدے پر فائز رہے۔ لوگ ایک ہی چہرہ دیکھتے دیکھتے اکتا جاتے ہیں۔ سو جب انہیں معزول کر کے بادشاہی مسجد کے عالی مقام امام‘ مولانا عبدالخبیر آزاد کی سربراہی میں ایک نئی رویت ہلال کمیٹی قائم کی گئی تو احتجاج کی کوئی لہر نہ اٹھی۔ البتہ کچھ کیڑا کاروں کے کان ضرور کھڑے ہوئے کہ مفتی منیب الرحمن تو بہرحال ایک آزاد منش عالمِ دین تھے لیکن مولانا عبدالخبیر آزاد سرکاری ملازمت کی فولادی زنجیر میں جکڑے ہیں سو انہیں ہر سرکاری ملازم کی طرح، چاند ہی نہیں، اور بھی بہت کچھ دیکھنا ہو گا۔
عہدِ نو میں دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر (اب وزیرِ اطلاعات) فواد چودھری نے ٹیکنالوجی کے زور پر ایک با ضابطہ قمری کیلنڈر جاری کر کے بتا دیا کہ کون سا چاند کب دکھائی دے گا۔ صورت حال یہ بنی کہ کمیٹی بھی سرکاری اور کیلنڈر بھی سرکاری۔ اس دو عملی یا دو چہرگی نے عید سے بہت پہلے ہی عید کے چاند کو نزاع کا موضوع بنا دیا۔ فواد چودھری بنیادی طور پر میڈیا کے آدمی ہیں سو ان کے روایتی تحرک کے باعث، ان کی کیلنڈر رویت ہلال کمیٹی نے کمیٹی بالائے کمیٹی (Committee above the Committee) کی شکل اختیار کر لی۔ ہر آن میڈیا کی چکا چوند میں رہنے والی اس چنچل کمیٹی نے روایتی رویت ہلال کمیٹی سے وہی سلوک کیا جو دوسری نوخیز دلہن، پہلی عمر رسیدہ دیہاتی بیوی کے ساتھ کرتی ہے۔
29 رمضان کو مولانا عبدالخبیر آزاد کی کمیٹی نے شام چھ بجے کے لگ بھگ اسلام آباد میں، وزارتِ مذہبی امور کی چھت پر مورچہ سنبھالا۔ سوا تین گھنٹے تک تو فواد چودھری نے خود پر جبر اور انتہائی صبر سے کام لیا۔ انہیں توقع تھی کہ روایتی کمیٹی شوال کا چاند نہ دکھائی دینے کا اعلان کر کے جلد فارغ ہو جائے گی‘ مگر ایسا نہ ہوا۔ سو 9 بج کر 19 منٹ پر انہوں نے اپنے ٹویٹر پر واضح پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ''اس وقت چاند کی عمر پاکستان میں 13 گھنٹے 42 منٹ ہے، لہٰذا چاند کا آج نظر آنا ممکن نہیں‘‘۔ چودھری صاحب نے دوسری نوبیاہتا دلہن ہی کا اسلوب اپناتے ہوئے فرمایا ''جن حضرات نے عید سعودیہ کے ساتھ منانی ہے، یہ ان کی اپنی آپشن ہے لیکن جھوٹ بول کر ماہِ مقدس کا اختتام کرنا کہاں کی عقل مندی ہے‘‘۔ چودھری صاحب کا یہ بیان، وزیر اطلاعات و نشریات یعنی حکومت کے ترجمانِ اعلیٰ کے طور پر جاری ہوا۔
اس سارے قضیے میں مسجد قاسم علی خان پشاور کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے، تبدیلی کی ہوائوں سے بے نیاز ہو کر روایتی استقامت اور قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معتقدین کو انتظار کے آزار میں مبتلا کرنے کے بجائے، بر وقت چاند ہونے کا اعلان کیا اور گھر چلے گئے۔ ادھر مولانا عبدالخبیر آزاد کی کمیٹی بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرتی رہی۔ نیا دن طلوع ہونے کو تھا۔ پُر تکلف عشائیے کے باعث ارکان پر غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ پُر اسراریت بڑھ رہی تھی۔ اس دوران میرے ایک اور محترم دوست، مولانا یٰسین ظفر نے فون پر کسی سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ''بہت دبائو ہے اور یہ کمزور لوگ ہیں‘‘۔ یہ گفتگو وائرل ہو گئی۔ بعد میں انہوں نے وضاحت فرما دی کہ چاند برحق تھا اور عید درست۔ بہرحال کمیٹی نے کوئی ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ، قومی یک جہتی کے پیش نظر، مولانا پوپلزئی کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ کل یعنی جمعرات کے روز عید ہو گی۔
کمیٹی کے رکن مولانا یٰسین ظفر نے تو وضاحت کر دی لیکن ایک اور معزز رکن، مولانا راغب نعیمی نے بعد میں کہا کہ میں نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ انہوں نے عوام سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق قضا روزہ رکھیں۔ قضا روزہ رکھنے کی تلقین سابق چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن نے بھی کی۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ''تحریک انصاف کی حکومت نے مسلسل تین سال انہیں پشاور کی مسجد قاسم خان کے ساتھ عید کے اعلان کے لیے دبائو ڈالا مگر انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا‘‘ مولانا راغب نعیمی کے عظیم دادا، حضرت مولانا محمد حسین نعیمی نے ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے اعلانِ عید سے بغاوت کی تھی۔ تب بھی کسی نے ایوب خان کے کان میں پھونک دیا تھا کہ جمعہ کے روز دو خطبے حکمران پر بھاری ہوتے ہیں۔ اس وقت سرکاری اعلانِ عید سے بغاوت پر مولانا مودودی، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا محمد حسین نعیمی کے علاوہ کئی اور علما کو بھی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ جمعہ کا دوسرا خطبہ تو روک دیا گیا لیکن ساٹھ کی دہائی جاتے جاتے ایوب خان کے اقتدار کو بھی نگل گئی۔ دیکھیے اختلافی نوٹ لکھنے پر ڈاکٹر راغب نعیمی پر کیا گزرتی ہے۔ سنا ہے وہ تنہا نہیں، کچھ اور بھی ہیں جنہوں نے اپنی اختلافی رائے رقم کی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وزیرستان میں، میران شاہ اور کئی نواحی دیہات میں عیدالفطر، سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے، بدھ کے روز منائی گئی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ وہاں چاند کا فیصلہ سال ہا سال سے، حیدر خیل میں آباد ایک خاندان کرتا ہے۔ اس خاندان کا بزرگ روحانی کشف کی بنیاد پر چاند طلوع ہونے اور عید کا اعلان کرتا ہے۔ مولانا طاہر محمود اشرفی قومی یکجہتی کے لیے مولانا عبدالخبیر آزاد، مولانا شہاب الدین پوپلزئی اور مولانا فواد چودھری کو ایک جگہ بٹھا کر انہیں اتحاد و اتفاق کی برکات سے آگاہ کریں اور ایک معاہدے کے تحت عیدین کا معاملہ حیدر خیل گھرانے پر چھوڑ دیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ چاند سے بے نیاز ہو کر پوری قوم کو ایک ہی دن عید منانے کا بیش بہا تحفہ ملے گا، جس سے قومی یک جہتی کا قلعہ مثلِ آہن و فولاد مضبوط ہو جائے۔ رہا رمضان الکریم کے ایک دو روزوں کی قربانی کا معاملہ تو قضا ہے نا!
کوئی مانے نہ مانے‘ برسوں کی جُہدِ مسلسل کے بعد مسجد قاسم خان پشاور والے حضرت مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی‘ عظیم فاتح بن کر ابھرے ہیں۔ کبھی ان کا اعلانِ عید پشاور اور گردونواح تک محدود تھا‘ اب ان کا پرچم پورے پاکستان میں لہرانے لگا ہے۔