وزیراعظم آفس کی شمالی کھڑکی کے باہر پھیلی دھوپ سرسبز گھاس سے کھیل رہی تھی۔ ذرا پرے مارگلہ کے شاداب پہاڑوں کی چوٹیاں بھلی لگتی تھیں۔ میں وزیراعظم نوازشریف کے عین سامنے بیٹھا‘ فائل میں دھرے نوٹس کا پلندہ کھولنے کو تھا کہ وہ بولے ''آپ یہ فائل مجھے دے دیں۔ میں پڑھ کر آپ سے بات کر لوں گا‘‘۔ میں نے کچھ کہے بغیر فائل اُن کی طرف بڑھا دی۔
پاناما کا آتش فشاں پھٹ چکا تھا۔ لاوا تھامے نہیں تھم رہا تھا۔ میں اسی حوالے سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا۔ 18مئی 2016ء‘ رات فون پر وقت لینا چاہا تو وزیراعظم کہنے لگے ''کل مجھے گلگت جانا ہے‘ لیکن آپ صبح نو بجے آجائیں تو پندرہ بیس منٹ بات کر لیں گے‘‘۔
19مئی کو میں وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچ گیا۔ میاں صاحب ٹھیک نو بجے آگئے۔ اُن کے چہرے کی روایتی بشاشت قدرے سنولائی ہوئی تھی۔ خیر و عافیت معلوم کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ذاتی ملازم عابد اللہ کو بلوایا۔ اُسے کافی لانے کو کہا اور ساتھ ہی میرا سیل فون اٹھا کر اُس کے حوالے کر دیا۔ پھر انہوں نے اپنی میز پر سجے دو تین رنگا رنگ فون سیٹس کی تاریں نکالیں۔ ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا۔ آواز قدرے اونچی کی۔ میں حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔
بیاضِ تاریخ کی اس تجسس بھری حکایت کو تھوڑی دیر کے لیے یہیں چھوڑتے ہوئے میں ایک ناروا سی جست لگا رہا ہوں۔ ایک لفظ طویل عرصے سے میری نوکِ قلم سے کھیل رہا ہے۔ میری نوکِ قلم ہی کیا‘ اس چھیل چھبیلے لفظ نے پچھلے کئی برس سے قومی تاریخ میں ہلچل سی مچا رکھی ہے۔ ''ایکسٹینشن‘‘ (Extension)۔ یہ انگریزی زبان کا ہونے کے باوصف ہماری روزمرہ بول چال میں آنے والا سب سے کثیرالاستعمال لفظ ہے۔ اردو میں ''توسیع‘‘ اس کے ہم معنی لفظ موجود ہے جس کی ادائیگی کچھ مشکل نہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ اس میں عجیب سی کم مائیگی پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایکسٹینشن میں ایک خاص نوع کا رُعب اور دبدبہ محسوس ہوتا ہے۔
''توسیع‘‘ بولنے سے یوں لگتا ہے جیسے کوئی شے بڑے عجز وانکسار‘ بڑی لجاجت سے مانگی جارہی ہو اور دینے والا صوابدیدی اختیار کا تاج سرپر سجائے‘ شاہانہ تمکنت کے ساتھ کچھ عطا کررہا ہو۔ ''ایکسٹینشن‘‘ میں دینے والے کی بے بضاعتی اور لینے والے کی بالا دستی کا تاثر نمایاں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایکسٹینشن دینے والا اسے اپنا اعزاز و افتخار سمجھتا ہے اور لینے والا احسان اور نوازش کے احساسات کے ساتھ اسے شرفِ قبولیت بخشتا ہے۔ گویا توسیع دی جاتی ہے اور ''ایکسٹینشن‘‘ لی جاتی ہے۔ ایک بہ منت و سماجت‘ دوسری بہ زورِ بازو۔ ایکسٹینشن کا جام پینے والے کے ہاتھ میں جنبش نہ رہے تو بھی آنکھوں میں دَم ضرور رہتا ہے اور وہ ساغر و مینا سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔
1971ء میں جب ایوب خان اور یحییٰ ڈاکٹرائن کے سبب پاکستان دولخت ہوا‘ مشرقی پاکستان‘ بنگلہ دیش بنا‘ جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے گئے‘ ہزاروں فوجی بھارتی قیدی ہوئے تو لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ‘ لیفٹیننٹ جنرل ہی کے طور پر ریٹائر ہو گیا۔ بھارت کی کلغی میں سرخاب کا پَر ٹانکنے والے آرمی چیف‘ فیلڈ مارشل 'مانک شا‘ کا سینہ تمغوں سے بھر دیا گیا۔ حکومتی سفارش پر بھارتی صدر نے سپہ سالار کی معیادِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کر دی۔ 'مانک شا‘ نے معذرت کرنا چاہی لیکن یہ کہہ کر چھ ماہ کی توسیع قبول کر لی کہ میں اپنے سپریم کمانڈر کا حکم رَد نہیں کر سکتا۔ بھارت کے برعکس‘ پاکستان میں ایکسٹینشن کی درخشاں روایت جنرل ایوب خان سے چلی اور حال ہی میں رخصت ہونے والے آرمی چیف‘ جنرل قمر جاوید باجوہ تک جاری رہی۔ ایوب خان‘ اُن کے زیرِ سایہ موسیٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف مجموعی طورپر چھتیس (36) برس فوج کے سربراہ رہے۔ بارہ آرمی چیفس کا عرصہ 'ایکسٹینشن‘ کے فیضان سے صرف چار نفوس تک محدود ہوگیا۔ 2013ء میں چھ برس بعد بھی جنرل کیانی کے دل میں تیسری ایکسٹینشن کی آرزو زندہ تھی لیکن تب نواز شریف وزیراعظم بن چکے تھے جنہیں ایکسٹینشن پسند نہیں۔ راحیل شریف ہزار جتن کرنے کے باوجود اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جنوری 2016ء میں اعلان کردیا کہ میں توسیع کی خواہش نہیں رکھتا لیکن آخری لمحے تک اس کی آرزو کی۔
2019ء میں ''حقیقی آزادی‘‘ کے جری مجاہد نے قمر جاوید باجوہ صاحب کو بڑے اہتمام سے ایکسٹینشن پیش کی۔ آج وہ اسے اپنی ایک بہت بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔
ابھی اکتوبر میں لندن جانا ہوا توخیال تھا کہ نواز شریف‘ نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لیے زائچے بنا رہے ہوں گے۔ ملاقاتیں ہوئیں تو پتا چلا کہ نہیں! ریٹائرمنٹ کے اعلانات کے باوجود مزید آٹھ ماہ کی توسیع کے لیے منہ زور ہوائیں 'ایون فیلڈ‘ کی دیواروں سے سر پھوڑ رہی ہیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔
19مئی 2016ء کی صبح نواز شریف بولے جا رہے تھے اور میں تصویرِ حیرت بنا سُن رہا تھا۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ شائستہ مزاج اے ڈی سی دوبار آکر سیلوٹ دے چکا تھا۔ کافی کا دوسرا دور بھی ختم ہورہا تھا اور میاں صاحب ایک عہدِ ناسپاس کی کہانی بیان کیے جا رہے تھے۔ انہوں نے دو تین بار مجھ سے راز داری کا عہد لیا ''میں نے ابھی تک یہ بات کلثوم کے سوا کسی کو نہیں بتائی۔ میں جانتا ہوں پاناما کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا ہے۔ 2014ء کے دھرنوں سے ناکام ہوکر ایک بار پھر عمران خان کو استعمال کر رہے ہیں۔ فساد کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں پر دبائو ڈال کر مجھے منظر سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ نشانہ صرف میری ذات ہے۔ اگر میں کرسی پر بیٹھا رہا تو سازش مزید آگے بڑھے گی۔ عین ممکن ہے جمہوری نظام لپیٹ دیا جائے اور ملک ایک بار پھر گرداب میں پھنس جائے۔ میرے پاس بڑی مصدقہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ مستعفی ہو جائوں تاکہ ملک کسی نئے عذاب سے بچ جائے‘‘۔
آہنی اعصاب کے مالک نواز شریف کی زبان سے یہ سب کچھ سنتے ہوئے مجھے اپنی سماعت پر شک ہو رہا تھا۔ وزیراعظم کے لہجے میں بلا کی شکستگی تھی۔ اے ڈی سی تیسری بار سیلوٹ کرکے پیغام دے گیا تھا کہ ''سر! ہمیں دیر ہو گئی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا ''میاں صاحب آپ کی ذات سے ایسا کیا مسئلہ ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟‘‘ وزیراعظم نواز شریف اپنی کرسی سے اُٹھے۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولے ''ایکسٹینشن‘‘۔